آزاد کشمیر کا لنگر خانہ۔۔آصف محمود

آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت نے صدر محترم بیرسٹر سلطان محمود صاحب کے لیے ایک نئی لگژری گاڑی خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ گاڑی مرسڈیز بینزہے اور اس کی خریداری کے لیے قومی خزانے سے 10 کروڑ25 لاکھ 21 ہزار روپے جاری کر دیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ لنگر خانہ اس جماعت کی حکومت نے کھول رکھا ہے جسے پاکستان میں اقتدار ملا تھا توو زیر اعظم ہائوس کی بھینسیں نیلام کر کے سادگی، امانت اور دیانت کے سہرے کہے گئے تھے۔

ملک کی معاشی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مہنگائی کا ایک طوفان ہے اور اس طوفان کے ساتھ یہ دلیل ہے کہ پٹرول اور بجلی مہنگی نہ کریں تو آئی ایم ایف ناراض ہو جائے گا اور آئی ایم ایف ناراض ہو گیا تو قرض نہیں ملے گا اور قرض نہ ملا تو ہم دیوالیہ ہو جائیں گے۔ اس عالم میں آزاد کشمیر حکومت کی بے نیازیاں دیکھیے، وہ دس کروڑ سے زیادہ کی رقم بیرسٹر صاحب کی آنیوں جانیوں کے لیے نئی گاڑی کی خریداری میں برباد کر رہی ہے۔

سوال تحریک انصاف کے اخلاقی وجود کا ہے جو قریب چار سالوں سے برف کے باٹ کی صورت دھوپ میں رکھا ہے۔ عمران خان تو اس تکلف کے شاید روادار نہ ہوں لیکن یہ سوچنا اب دوسرے درجے کی قیادت اور کارکنان کا کام ہے کہ باقی بچ رہنے والی دو تین پائو نیک نامی کیا اب بیرسٹر سلطان محمود کے قدموں میں بہا دی جائے گی؟

یہی کام پنجاب میں ہوا، ایک ایسے شخص کو وزیر اعلی بنا دیا گیا جس کا الیکشن سے دو تین ماہ پہلے تک تحریک انصاف سے کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ الیکشن کے ہنگامے میں وہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ سے منسلک تھے پھر اچانک تحریک انصاف میں آئے، الیکشن لڑا اور وزیر اعلی بنا دیے گئے۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد عمران خان نے اسلام آباد کی کال دی تو عثمان بزدار سر سے پائوں تک گمشدہ ہو گئے۔ آج تک کسی کوکوئی خبر نہیں کہ پنجاب کے وسیم اکرم پلس آج کل کہاں ہوتے ہیں۔ انہوں نے تاحال اس خبر کی تردید کرنا بھی گوارانہیں کی کہ حکومت کی 900 کنال اراضی پر انہوں نے جعلسازی سے ہاتھ صاف کر لیے اور اب ان کے خلاف مقدمہ قائم ہو چکا ہے۔

بیرسٹر سلطان صاحب ایک زمانے میں آزاد مسلم کانفرنس میں ہوا کرتے تھے، پھر انہوں نے لبریشن لیگ میں پارٹی ضم کر لی۔ پھر پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بن گئے۔ اقتدار کے مزے ختم ہوئے تو پیپلز پارٹی بھی چھوڑ دی۔ اب کے ان کی منزل پاکستان مسلم لیگ تھی۔ کچھ وقت گزرا اور دال نہ گلی تو ایک بار پھر معافی تلافی کے بعد اسی پیپلز پارٹی میں شامل ہو ئے مگر کوئی سیٹ نہ جیت سکے۔

بہت سارے دیگر متروکاتِ سیاست کی طرح قریب تھا کہ ان کی سیاست بھی ختم ہوجاتی لیکن پھر قافلہ انقلاب نے آواز لگائی چلو چلو کپتان کے ساتھ اور بیرسٹر صاحب کپتان کے ساتھ مل کر دوسروں کو چور کہنے لگ گئے اور خود نقیب صبح انقلاب بن بیٹھے۔ تحریک انصاف نے انہیں آزاد کشمیر کا صدر بنا دیا تا کہ سند رہے کہ بائیس سالہ جدوجہد میں ہم نے کیسی انقلابی ٹیم تیار کی ہے۔

صدر محترم کے لیے اب غریب حکومت پورے سوا دس کروڑ کی مرسڈیز خرید رہی ہے۔ یہ گاڑی جہاں جہاں سے گزرے گی نعرے لگاتی گزرے گی کہ ” صاف چلی، شفاف چلی، بیرسٹرکے ساتھ چلی”لنگر کی یہ تقسیم اتنی ” منصفانہ” ہوتی ہے کہ بظاہر ایک دوسرے کو کاٹ کھانے والے سیاسی حریف بھی مل جل کر کھاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے صرف اپنے صدر محترم کو نوازا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اس مال غنیمت میں سے سب کو حصہ دیا ہے۔ لنگر کی تقسیم کو مزید منصفانہ بنانے کے لیے اہتمام کیا گیا ہے کہ حزب اختلاف کو اس کا حصہ پہلے پہنچایا جائے تا کہ کوئی شور مچانے والا نہ ہو بلکہ سب ہنسی خوشی لطف اندوز ہوں۔ چنانچہ اطلاعات یہ ہیں کہ صدر صاحب کے لیے گاڑی خریدنے سے دو ہفتے پہلے سابق وزرائے اعظم کے لیے بھی گاڑیاں خریدنے کے لیے 2 کروڑ34 لاکھ کی گرانٹ جاری کی گئی۔

ان سابق وزرائے اعظم کو غریب قوم کے خزانے سے، جسے بتایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس زہر کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں، 1800 سی سی کی گاڑیاں پیش کی جا رہی ہیں کہ عالی جاہ آپ سب بہت غریب لوگ ہیں، پرانی گاڑیاں واپس کر دیجیے اا ور یہ لیجیے نئی گاڑیاں۔ موج کیجیے۔ سردار عتیق صاحب، قیوم نیازی صاحب صاحبان بھی اب نئی گاڑیاں لے کر مزے کے سفر کیا کریں گے۔

اس لنگر خانے پر اہل سیاست کا اتفاق دیکھیے کہ سارے دور اقتدار میں دیانت، صداقت، کفایت شعاری اور حریت کے رجز پڑھنے والے مسلم لیگ ن کے راجہ فاروق حیدر خان صاحب نے بھی حکومت کو درخواست دے رکھی ہے کہ ازرہ کرم میں بھی کوہالے والے پل پر پیدل ہی جا رہا ہوں، آپ کا کیا جاتا ہے اگر 1800 سی سی کی ایک کار لنگر خانے سے مجھے بھی دے دی جائے۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے زمان پارک کے گھر میں رہنے والا کپتان وزیر اعظم کو درخواست دیتا ہے کہ میرے پاس اپنا گھر نہیں ہے اللہ کے واسطے مجھ بے گھر کو ایک گھر کے لیے پلاٹ عنایت فرما کر ثواب دارین حاصل کیجیے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جھوٹ کھل جانے پر کپتان ذرا سا بھی بد مزہ نہیں ہوتا، بلکہ اسی ادائے بے نیازی سے کہتا ہے کہ وہ گھر میرا تھوڑی تھا، وہ تو میرے والد صاحب کا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لنگر خانے کی تقسیم سے فراغت پا کر یہ ایک دوسرے کو آنکھ مارتے ہیں کہ آئیے اب اپنے اپنے حصے کے بے وقوفوں میں گیان بانٹتے ہیں۔ ایک کہتا ہے دوسرا چور ہے، دوسرا کہتا ہے پہلا بھی تو چور ہے۔ چنانچہ صدر آزاد کشمیر کے ترجمان فرما رہے ہیں: نئی کار خریدنے کا آغاز سابقہ حکومت میں ہوا تھا۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply