نشاط افروزیاں
گھر کے آنگن میں لکن میٹی ,پکڑن پکڑائی یا پھر چور سپاہی کھیلتے ہوئے, کانوں سے بس یہ جملہ ٹکرانے کی دیر ہوتی ." بھاگ کر دو بوتلیں لے آؤ، مہمان آئے ہیں" اگلے ہی لمحے ہم گلی میں دوڑ لگانے کو تیار ہوتے. کھوکھا دور ہی کب تھا جو دیر لگے . بس پیر سے پیر جوڑا ، شانوں کو معمولی سا خم دیا ، دو تین ننھے سے قدم چلے, دوڑنا شروع کیا، تیز ہوئے،خیالی امپائر کے پاس سے گزرے اور خود کو عمران خان سمجھ کر گیند کروا دی۔ اس کے بعد کُچھ نیا نہیں ، یہی عمل دہرا دیا جاتا اور ہم گلی کی نکڑ تک آپہنچتے۔ یہاں سے بائیں کو مڑے اور پھر سے خود پر عمران سوار کیا ، دائیں ہاتھ پان کی پیک میں نہایا کھوکھا باہیں کھولے ہمیں مسکراتا نظر آتا۔ کوکا کولا کا برانڈ لوگو ز نگ آلودہ ٹین کی چادر میں سےجھانکتا ہوا دکھائی دیتا. کاؤنٹر ہمارے قد سے کچھ اوپر اٹھا ہوا تھا. ہم انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے کھوکھے والے بھائی کو اپنی طرف متوجہ کرتے ۔جواب میں اگلی کی بجائے پچھلی بوتلوں کا تقاضا ہوتا اور ہمیں ٹھنڈی بوتلوں سے پہلے گرما گرم باتیں سننے کو ملتیں.مگر پھر ہماری معصوم صورت اثر دکھاتی اور ہمیں بوتلیں دے دی جاتیں ۔ ہر بار ہمیں بوتل کھلوائے بنا لانے کا حکم ملتا تھا۔ مگر ٹھک سے بوتل کھُلنے کی آتی آواز اور اٹھتی گیس کو دیکھ اور سُن کر اپنے من میں بنتے بے صبری کےبلبوں کو ہم شانت کروائے گھر پہنچتے تھے . پان بوتل کے کھوکھے سےآگے کی اڑان پر ہمار ے پر سختی کی قینچی سے کاٹے گئے تھے. گرمیوں کی چُھٹیوں میں دادی اماں کو برُقعے میں چھُپا ہو ا دیکھ کر ہماری تو لاٹری لگ جاتی ، خوشی سے ہم پھولتے اور کُپا ہو جاتے ۔ جوں ہی دادی اماں اپنی پیاری سی ٹوکری تھامتیں ہم اس ٹوکری سے ایسے چِپکتے جیسے سلائی میں فیکٹری فِٹڈ سِل کر آئے ہوں ۔یوں ہمیں گھر سے جھنگ بازار تک اُس وقت تک کا طویل ترین مارچ نصیب ہوتا۔ سبزی والے سے بھاؤ تاؤ کا زور دار مقابلہ دیکھنے کو مِلتا ۔ سبزی کی ایسی کڑی چھان پھٹک کہ ٹینڈے سے لیکر کریلے تک کو چھو کر گزرتی سنڈیاں بھی دادی اماں کی سخت پکڑ میں آجاتیں.ہماری نظر یں تو بس کچے پکے دیسی آموں پر ٹکی ہوتیں جنہیں دادی کے جادوئی ہاتھ لگتے اور یہ آم جھٹ پٹ جنت کی خاص الخاص ڈِش کا مزہ دیتی چٹنی بن جایا کرتے تھے۔
اوپر والا اپنی بڑی سکرین پر بدلتے رنگوں کا کھیل دکھا لینے کے بعد جب ستاروں کا آخری شو شروع کرنے کو ہوتا تو ہم ابا کی نظروں کا تعاقب کرنے لگتے ۔ جیسے ہی وہ مہربان ہوئی دِکھتیں ،ان کی انگشت شہادت سے لپکتے جھولتے اور اُٹھتے ہوئے تیز قدموں کا چیلنج قبول کئے ساتھ ہو لیتے ۔ نڑ والا اڈا سے ہوتے ہوئے بھوانہ بازار انارکلی کےذرا پہلے واقع کلینک ہمارا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا ۔ یہاں زندوں سے زیاد ہ مُردوں کا علا ج ہوتا دیکھنا ہماری یاداشت میں ٹھہر چُکا ہے ۔ گڑے ہوئے مُردے اکھاڑے جاتے ۔ بھٹو کو قبر سے نکال کر پھر سے پھانسی گھاٹ لے جایا جاتا غرضیکہ گُزرے ہوئے کِسی سیاسی کِردار کو نہ بخشا جاتا۔ خلیفہ اول اور مرد حق ضیا ء کی سیاسی چالوں کا بڑی بے دردی سے پوسٹ مارٹم ہوتا ۔ یہاں خیالات کے تیل میں خواہشات کے پکوڑے تلے جاتے تھے اور پھر دن بھر کی اخبارات میں لیپٹ کر آپس میں ہی بانٹ لئے جاتے ۔ ان چٹ پٹے پکوڑوں سے بے نیا ز کانوں میں سٹیتھیو سکوپ گھسیڑے ہم کرسیوں میزوں میں کہیں چھپے دھڑکتے دِل کو ڈھونڈا کرتے تھے۔ واپسی کےنام پر ہم پہلی برسا ت کے مینڈک کی طرح پھُدکنے لگتے۔ بھوانہ بازار کے باہر گندے نالے کی پُلی پر سے گُزر نے کی دیر ہوتی کہ گُلاماباد ، گُلاماباد (غلام آباد) پُکارتے ٹانگے بان ہر راہگیر کو ایسے بُلاتے جیسے ٹانگہ جھولنے کی فری آفر ہو۔ ہمار ا دِل اس دعوت عام پر مچلنے لگتا ، نگاہیں قطار میں لگے ٹانگوں میں سے اپنی پسند کا گھوڑا تلاش کرنے لگتیں ۔ مگر واپسی پر ہماری کلائی ابا کے مضبوط ہاتھوں میں ہوا کرتی تھی۔ یہاں مُسافروں کے لئے کنکریٹ کا ایک کُشادہ شیڈ بھی ہوا کرتا تھا ۔مگر ا س میں ہر وقت آگ لگی رہتی تھی ، اسی لئے اس شیڈ میں کبھی کِسی کو بیٹھے نہ دیکھا ۔ یہ آگ انسانی آنکھ سے دیکھی نہ جاسکتی مگر قریب آنے والے کی ناک سیکنڈو ں میں ساڑ کر سوا کر چھوڑتی تھی ۔ راہ گُزرتے مٹھائی کی دُکان سے پیلی پیلی بوندی کے لئے قدموں کا ٹھہر جانا تو ہم نے لازم قرار دے رکھا تھا ۔ ہمارا سفر آدھا باقی ہوتا کہ سڑک کے دوسری جانب دو گیٹوں والی ایک پراسرار سی عمارت نظر آتی اور ہم سہم جایا کرتے تھے ۔ ا س جگہ بھوت پریت کا بسیرا تھا ۔ جیسے اُن کے قد دراز تھے ویسے ہی رنگوں کا جادو دکھانے کو اُن کے لمبے لمبے ناخن ۔ اُس پراسرار عمارت کی درو دیوار کو ایک غُصے والے انکل اور موٹی سی آنٹی کی رنگین تصویروں سے بھرے رکھنا انہی بھوتوں کا کام تھا۔ جب بھی گُزرے انہی انکل آنٹی کو ایک نئے پوز میں یہاں دیکھا ۔ لال رنگ بہت نمایا ں ہوتا تھا اُن تصاویر میں ۔ "آخر یہ مصوربھوت ،انکل کو گنڈاسہ کیوں تھمائے رکھتے ہیں ؟" ۔ میں ہر بار خود سے یہ سوال کرتا اور جواب بھی فورا ہی آجاتا "بچوں کو ڈرانے واسطے" ابا ہمیں بتاتے کہ بیٹا یہ نشاط سینما ہے مگر ہم اسے بھوت بنگلہ ہی مانتے تھے ۔ دودھ لسی کی دُکان ایک آدھ چھوٹا موٹا سا ہوٹل ، پان کے دو عدد کھوکھے، نشاط سینما کے مُقابل روڈ پر اچھی خاصی رونق ہوا کرتی تھی ۔ اُس دور میں یہاں سیخ کباب والا بھی ہوا کرتا تھا۔ ان کبابوں کی خوشبو بھی کبھی کبھار پیروں کی بیڑی بن جایا کرتی تھی ۔ نڑ والا روڈ دو رویہ تھی مگر کُشادگی میں کم تھی ۔ اُس زمانے میں فُٹ پاتھ پر مل مار لینے والے موٹر سائیکل ڈیلران کا سِرے سے وجود ہی نہ تھا ۔ وہ سائیکل کی بادشاہت کا دور تھا دھیرے دھیرے ٹک ٹک کرتی چلتی تھیں گھڑیاں ، وقت نے لٹو کی طرح گھومنا نہیں سیکھا تھا ۔ پھِر زمانے کو تیزی کے ٹائر لگ گئے ۔ ہم لوگ سائیکل سے اُترے اور تیز رفتار سائیکالوجی کو خود پر سوار کر بیٹھے ۔ پھِر کیا تھا دوڑنے کو سڑکیں چوڑی ہونے لگیں اور رستہ دینے کو دِل تنگ ۔
نڑ والا روڈ کی چھاتی بھی چوڑی ہوگئی ۔ ہمیں وہ دِن بھی یاد ہے جب اسے پہلی بار کارپٹڈ کیا گیا۔ سڑک پر مشینری کام میں جتی ہوئی تھی اور تماش بینوں نے کنارے پر میلہ لگا رکھا تھا ۔ ہم بھی تماش بینی کا فرض ادا کرنے لگے ، کِسی کونے سے یہ جُملہ ہمارے کانوں ٹکرایا اور ہمار ے خیالوں پر ناچتی بوتل کا سا اثر کرگیا۔ " ہن اے سڑک نہیں رہنی بلکہ قالین ورگی روڈ بن جانی " ۔ اس جُملے نے ایسا جادو کیا کہ ہم ہوش کھو بیٹھے اور اسی کارپٹ پر سلپریاں لیتے لیتے دور بلکہ بہت دور نِکل گئے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک وسیع و عریض میدان میں جانوروں کی بہت بڑی منڈی لگی ہوئی ہے ۔ ہمیں آموں سے لدے بہت سے پیڑ نظر آئے ۔ مزید آگے بڑہے تو چار دیواری والا بہت بڑا سا کھیل کا میدان تھا جہاں پسینے میں شرابور ایک جو ان میدان کے گِرد چکر کاٹے چلے جا رہا ہے ۔ یہ سب کُچھ مگر اپنا اپنا سا لگا ۔ سالوں بعد جان پایا کہ وہ تو دادا جی تھے جو ایتھلیٹکس میٹ کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ وہ میلہ منڈی جو ہم نے دیکھی تھی آج کی جناح کالونی ہے اور کھیل کا بڑامیدان گوبند پورہ اور گُلبرگ والی کارنر سائڈ پر تھا۔
یہ دُنیا بھی ایک ڈرامہ ہی ہے اِدھر سین مکمل ہوا ۔ آنکھ کا پردہ گِر کر پھِر سے کھُلنے تک سیٹ مکمل طور پر بدل دیا گیا۔ اب تو سُننے میں آیا ہے کہ نڑ والا روڈ پر لگے سیٹ سے نشاط سینیما بھی ہٹا لیا گیاہے ۔ اب وہاں پلازہ کھڑا کیا جانے کی وجہ سے "نشاط سینمے توں تھوڑا اگے کھبے ہتھ پہلی گلی تے فیر نال ہی سجے ہوجانا"۔ بچپن میں یہ جُملہ ہمارے کانوں سے اتنی بار ٹکرایا کہ نازک پردے پر مستقل نشان چھوڑ گیا،پرنٹڈ ہو جیسے ۔جِس کِسی کو بھی گھر کا ایڈریس سمجھایا جاتا ، نشاط سینما سے قطبی ستارے کی طرح مدد لی جاتی ۔نشاط سینما میں ہمیں اینڑی ایک بار ہی نصیب ہو سکی ۔ ما بدولت کی ٹکٹ کے پیسے بھٹی اور قبلہ شاہ صاحب نے مِل مِلا کر پورے کئے تھے ۔ یہ قبلہ شاہ صاحب وہی " نیر تابانیاں " والے ہی ہیں ، قبلہ کے اوصاف ایڈیٹر صاحب کھول کھول کر بیان کر چُکے ہیں ۔ خیر نشاط سینما میں دیکھی فِلم تو ہمیں یاد نہیں مگر اِتنا یاد ہے کہ اس دوران ہمارے دانتوں کو بھی پسینہ آجانے سے ایک عدد چلغوزہ چبانے کی بجائےہم نِگل گئے تھے ۔ زندگی کا وہ واحد چلغوزہ تھا جو ہمارے دانتوں سے بچ کر نِکل گیا ۔ چوکے دانت نہیں تھے بلکہ غلطی آنکھوں سے ہوئی جبکہ شرارت وقفے میں چلے دس سیکنڈ کےٹریلر کی تھی ۔ فیصل آباد شہر کوئی لاہور تھوڑا ہی ہے جِس نے چاہا اور جب چاہا شہر کا جُغرافیہ لکھ ڈالا۔ یہاں کوئی سمندر ،دریا تو دو ر ندی بھی نہیں بس نالے ہی نالے سب گندے نالے ۔کچھ شلواروں میں کچھ سڑکوں پر۔ ناک کی سیدھ کو ناپ کر سیدھا رکھنے کے لئے یہاں گندے نالوں پر ہی ملے گی ہرشے آپ کو ۔ ساحل کے نام سے ہسپتا ل بھی اور ذہنی آسودگی کے لئے سینما گھر بھی ۔ انگریز نے گھنٹہ گھر کو مرکز مان کر یہ شہر کھڑا کیا تھا ۔ ہم نے اسی کو مرکزی نقطے پر کرپشن کی پرکا ر رکھے ایسی گھمائی کہ گندے نالوں پر اربوں مالیت کے پلازے بنا ڈالے ۔ہے کوئی جو دُنیا بھر سے کوئی ایسی دوسر ی مثا ل نِکال دکھائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں