سماج کے ستم ۔۔۔اور ہم

سماج کے ستم ۔۔۔اور ہم
عائشہ اذان
سماج یعنی یہ سوسائٹی بنانے والے ہم لوگ اسی سماج سے اکثر ناخوش نظر آتے ہیں۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ سوسائٹی کی موجودہ شکل اپنی ارتقائی منازل طے کرتے گزرے وقتوں سے ہو کر یہاں تک پہنچی تو ایسے میں آج کل کی جنریشن کا اپنے آپ کومس فٹ محسوس کرنا یا سماجی نا انصافیوں کا رونا اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ہر نسل ایسا ہی محسوس کرتی ہے ہوسکتا ہے ہم سے اگلی نسلیں اس کا کوئی علاج ڈھونڈ کر اس میں کافی حد تک فٹ ہو سکیں ، گو انسان خوش تو کسی حال میں نہ ہوا مگر امید ہے کہ سوسائٹی کی ڈگمگاتی بندشیں اور آزادی کا نعرہ لے کر غلط کروٹیں متوازن ہو جائیں گی۔
دوسری وجہ انفرادی اظہار خیال پہ تنقید کا ہے۔ ہر انسان کو اپنی رائے دینے کی آزادی ہے وہ غلط ہے یا صحیح اس کا فیصلہ ہر انسان اپنی سوچ اور معروضی عوامل کو مدنظر رکھ کر کرتا ہےاپنی مخصوص نظریاتی عینک کے لینز سے ۔ تنقید ضرور کیجئیے مگر تعمیری ،کچھ سیکھنے کے نقطہ نظر سے، اپنے اندر برداشت پیدا کرکے ، لوگوں کی رائے کا احترام کرکے ،اپنے آپ کو سنوارنے کے خیال سے،آگہی کے سفر میں تحمل کو فروغ دے کر، کسی کے اخلاص پر شک کئے بنا ،الزام تراشی سے حتی الوسع بچتے ہوئے۔
اللہ نے ہر انسان کی فطرت و خواہشات کو الگ بنایا ہے مگر انسانیت کا مادہ ہر آدم و حوا کی اولاد میں برابر ڈالا ہے پھر سماج کی ستائی ہوئی خواتین زیادہ کیوں ؟انسانیت سے گرے سلوک کی داستانیں بمع ثبوت آپ کو انٹرنیٹ پہ مل جاتی ہیں اس میں ایسے حیوانی اعمال نظر سے گزرتے ہیں کہ آپ کا انسانیت سے یقین اٹھ جاتا ہے ۔پاکستانی اتنے مضبوط حواس والی قوم ہیں کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد پر بھی کہتے ہیں شکر ہےاس بار شرح اموات کم ہے، جانوں کا ضیاع تو ہوا مگر شکر ہے ہم سلامت ہیں۔ سماجی روئیے غیر انسانی کیوں ہو گئے ؟یہ بہت حیرت کی بات نہیں جہاں بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے کسی کا سر پھاڑ دو پھر وہی بچے بڑے ہو کر"ساڈا حق ایتھے رکھ" والے مقولے پر عمل درآمد ہونے کو اپنے حق پر ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں اور شکوہ پھر بھی ظالم سماج سے ہوتا ہے ۔
غیر انسانی روئیے عورت کے ساتھ زیادہ اس لئے ہیں کہ عورت خود یہ بات تسلیم کر چکی ہے کہ وہ مرد کے بغیر کچھ نہیں۔ اسے سماج میں رہنے کے لئیے ایک ٹیگ چاہئیے تاکہ بھیڑیوں سے بچتے ہوئے زندگی گزار سکے ،ایسے ہی مرد کو ایک ٹیگ چاہیے،مگر وجوہات مختلف ہیں سو وہ وقت پڑنے پر ٹیگ کی تعداد اور تعریف میں ردوبدل کرتا رہتا ہے۔یہ مرد کی برائی نہیں اسکی فطرت ہے اس لئے خالق نے عورت کو مضبوط دل و دماغ کا اور مرد کو طاقتور بنایا تاکہ نظام میں توازن قائم رہے ۔
سنجیدہ افراد کا شکوہ یہ ہے کہ سماجی قوانین بنانے والےذیادہ تعداد میں وہ لوگ تھے جو اسکو صرف ایک دبا ہوا معاشرہ بنانا چاہتے تھےجہاں اپنے حقوق کی آواز اٹھانا جرم اور حق مانگنا گناہ کبیرہ ۔اپنی بات کہنا غداری اور حدوں کو پار کرنے کے مترادف ۔اور جو کھل کے بات کرے اسے فحش نگار یا ملحد بنا دیا جاتا ہے۔
اب اس معاشرے میں اصلاح کس طرح کی جا سکتی ہے؟اصلاح کا ایک ہی اصول ہے کہ خیالات کے ڈبوں کو قفل لگا کے بند نہ کریں بس تربیت کرتے ہوئے سماج کے اچھے اور برے پہلو سامنے رکھ دیں۔سماجی روئیوں کو متوازن رکھنے کے لئے انفرادی رویوں میں تسلیم کرنے یا بات کو سن کر درگزر کرنے کا فن سیکھئے ،بس سماج خودبخود ویسا بن جائے گا جیسا آپ اور ہم اس کو دیکھنا چاہتےہیں۔
دنیا میں کوئی بھی ایسا مسٰلہ نہیں جو مکالمہ سے حل نہ ہو سکتا ہو، بس مکالمہ کرنے کے لئے کچھ دیر کے لئےسماج کے روئیے بھول کر آپ اپنا موقف سامنے رکھیں ۔ آپ کی گفتگو اسلام پر ہے یا چوتھی شادی پر ، سیکس اور سماج پر ہے یا عورت کی آزادی پر، مکالمہ کرنا ضروری ہے۔ مباحثوں نے بہت ذہن متنفر کر دئیے ۔بہت بگاڑ لیا معاشرہ اندھی تقلید ،بےجا تنقید، ایمان وکفر و فتوی اور سزا سے۔ انسان ہیں خطاکار ہیں توبہ قبول ہونے کا یقین بھی ہے تو سمجھائیے ضرور پر کسی پہ الزام تراشی کر کے خود کو فرشتہ نہ پوز کریں، بہرحال شیطان بھی پہلے ایک فرشتہ ہی تو تھا؟
سماج کا سب سے غیر جانبدار انہ انداز سچ کو قبول کرناہوتا ہے ۔اپنے والا سچ اور بلند و بالا دعوے یا دانشوارانہ سٹیٹس لگانے سے پہلے ایک طالب علم کی درخواست ہے بات سنئے ،بات کیجئے۔دعا ہے سماج کے ستم کی پہلی قسط سمجھ آنے والی ہو ورنہ یہ آخری سمجھی جائے۔
بیڑیاں تو بیڑیاں ہیں
شکل کوئی بھی ہو
سوچوں پر پہرے ہیں
عمل کوئی بھی ہو
اس سے بچنے کے لئے
بارش کا پہلا قطرہ بنئے
دنیا ایک نقطہ میں سمٹ آئے گی
گر دل میں اتر جائے میری بات
تو آؤ مکالمہ کر لیں ۔

Facebook Comments

عائشہ اذان
سچ سے سوچ کے خوابوں کو قلمبند کرنے کی خواہش میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply