پہلا اور آخری سیاسی کالم۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

یقین مانیے‘ اس اعوان بچے کو ہرگز کوئی شوق نہ تھا کہ سیاست کے خارزاروں میں الجھتا اور اس “عاشقی” میں “عزتِ سادات” گنواتا۔

گزشتہ دنوں رمضان کے آغاز میں جب حکومت گرنے اور گرانے کی باتیں شروع ہوئیں تو فقیر اس سے لاتعلق نہ رہ سکا۔ سیاست کی دنیا میں ہر شخص کا ایک اپنا موقف ہوتا ہے، وہ اپنی دانست میں جس پارٹی کو سمجھتا ہے ملک کیلیے بہتر کام کرے گی‘ اسے سپورٹ کرتا ہے۔ وطنِ عزیز میں ملکی سیاست پارٹی منشور کے گرد گھومنے کی بجائے پارٹی کے سربراہ کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے، طرفہ یہ کہ جنوب ایشیائی ممالک میں جمہوریت کے نام پر چند خاندان اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر موروثیت رائج ہے اور عوام کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ انتخابات کے نام پر کسی ”کم برے“lesser evil کا انتخاب کر لیں۔ کہتے ہیں‘ ایک غیر ملکی ریسٹورنٹ میں ایک سیاح کھانے کے لیے پہنچا، اس کے سامنے ایک مینو پیش کیا گیا، اس میں ایک سرخی تھی:
Choice in Vegetables
اور اس کے نیچے صرف Potato درج تھا۔ اس نے بڑے غور و خوض بعد ویٹر کو بلایا اور پوچھا کہ اس میں چوائس کیا ہے؟ ویٹر کہنے لگا:
Sir, Choice is either you have it or not.
سو، یہی کچھ ہم ایسے سیاسی طور پر نومولود ملکوں میں ہوتا ہے۔ خاندانی سیاستدانوں کے انتخاب میں کسی ایک خاندان کا انتخاب کرو، ورنہ گھر جاؤ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ہمارے ملک کو لوگ deep state کہتے ہیں، آسان لفظوں میں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں حکمرانوں کو عوام منتخب نہیں کرتے بلکہ اشرافیہ منتخب کرتی ہے۔ جب تک کوئی اُن کا نورِ نظر ہوتا ہے‘ اقتدار کا ہما اسی کے سر بیٹھتا ہے۔ جب تعلقات میں دراڑ آ جاتی ہے تو وہ عوام کے “ووٹوں” کی مدد سے کرسی سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ ووٹ ، نوٹ اور بوٹ میں فرق شاید صرف ہجوں ہی کا ہوتا ہے۔ عوامی بچے جمورے جمہوریت کی ڈگڈگی پر باہر سڑکوں پر ناچتے رہتے ہیں اور غیرملکی طاقتیں براہ راست مقتدر قوتوں سے رابطہ کرتی ہیں اور اپنے معاملات طے کر لیتی ہیں۔ بظاہر آزاد اور بااختیار نظر آنے والے اِدارہ جات بھی اشرافیہ کے تابع مہمل ہوتے ہیں۔ کس مقدمے کو سال ہا سال لٹکانا ہے اور کسے راتوں رات نپٹانا ہے‘ یہ فیصلہ عدالت کے اندر نہیں باہر ہوتا ہے۔ ہرحال اس بارے میں ہم کچھ مزید کہیں گے تو چرچا ہو گا، البتہ شاعر کہتا ہے:
ع جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

در ایں اثنا ہوا یہ کہ ماضی قریب میں عوام کی توقعات ایک تیسری قوت کے ساتھ وابستہ ہو گئیں، ملکی سیاست دو جماعتی کی بجائے سہ جماعتی ہو گئی، لوگوں کو سیاست کے میدان میں یہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ شومئی قسمت،یہ تیسری جماعت بھی خالص جمہوری معیار کے ساتھ برسرِ اقتدار نہ آسکی، اسے بھی الیکٹیبلزز اور اشرافیہ کی مدد حاصل کرنا پڑی، نتیجہ یہ نکلا کہ بلند آہنگ وعدوں اور دعووں کے ساتھ برسر اقتدار آنے والی یہ جماعت بھی اپنے منشور کے مطابق ڈیلیور نہیں کر سکی۔ مشیروں وزیروں کی ناتجربہ کاری اور پہلے سے موجود طاقتور مافیاز کے گٹھ جوڑ نے اسے بے دست و پا کیے رکھا۔ تمہید طولانی ہوئی جاتی ہے، واپس اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔

سازش یا مداخلت کی لغوی بحث میں وقت ضائع کیے بغیر ہم نے دیکھا کہ ایک غیرملکی طاقت کی طرف سے دھمکی کے نیتجے یہ حکومت معزول کر دی گئی۔ کہتے ہیں، پہلے بھی ایسا ہوتا چلا آیا ہے اور یہ معمول کی بات ہے‘ لیکن اس مرتبہ غیرمعمولی بات یہ ہوئی کہ بھٹو کی طرح خان بھی پبلک میں بول پڑا۔ بوجوہ مقامی اسٹیبلشمنٹ کو بین الاقوامی اسٹیبشمنٹ کے سامنے جھکنا پڑ گیا۔ صرف ایک شخص نے جھکنے کی انکار کر دیا۔ اس نے مقامی اشرافیہ کو کوسنے دیے بغیر براہِ راست سپر پاور سے ٹکر لے لی، ہر چہ بادا باد!!

مختلف اندرونی اور بیرونی شواہد سے جب یہ بات درجہ ثبوت تک پہنچ گئی کہ بیرونی دھمکی کے نیتجے میں ایک حکومت کو گرایا گیا ہے، تو یقین مانئے یہ فقیر کئی راتیں سو نہیں سکا۔ کیا ہم اتنا آسان ہدف ہیں کہ جو چاہے ہم سے بات منوا لے، کبھی ٹیلیفون کال پر اور کبھی مراسلے پر!!! قارئین گواہ ہیں کہ اس فقیر نے سیاست کبھی کی نہ اس میں دلچسپی لی۔ رخشِ قلم بالعموم ادب، اخلاقیات، دینیات اور تصوف کے دائرے میں محوِ خرام رہا۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا، سوچا کہ ہم بھی اپنی دیوار پر سیاسی رائے کا اظہار کریں۔ بس پھر کیا تھا، اللہ دے اور بندہ لے!! سیاست میں عمومی دلچسپی لینے والے ثقہ لوگ بھی معروضی حقائق دیکھنے سے یکسر محروم نظر آئے۔ اپنے تعصبات کے اسیر محبت سے زیادہ نفرت کے زیرِ اثر نظر آئے۔ ہر بات میں دوہرا معیار عدالتوں سے لے کر سیاست کے چائے خانوں تک نظر آیا۔ چڑھتے سورج کی پوچا کرنے والے معلوم نہیں کس منہ سے خود کو توحید پرست کہتے ہیں۔وہی لوگ جو اسٹیبلشمنٹ کو جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ بتاتے تھے، اور اس کے کھلے ناقد تھے اب ڈھکے چھپے انداز میں ان کی تائید و توصیف میں مبتلا نظر آئے۔ کل تک جو ناخوب تھا وہ خوب ٹھہرا۔ کل تک جو لوگ حکمرانوں کو فاشسٹ کہتے تھے، اب انہیں نیست و نابود کرنے کے لیے علی الاعلان فاشسزم میں مبتلا دیکھے گئے، اب وہ اسٹیبلشمنٹ کو ترغیب دیتے ہیں کہ بوٹ والے قدم آگے بڑھاؤ اور یہ “فتنہ” کچل دو۔ عمران کی نفرت میں لوگ عمرانیات ہی بھول گئے۔

ہوا یہ کہ ہم سے غلطی ہو گئی ، ہم نے معزول حاکم کے چند گن گنوا دیئے۔ جواب آں غزل کے طور پر یار لوگوں نے اپنی غزل پیش کی بجائے ہماری ہجو شروع کر دی اور مطالبہ داغا کہ اپنا قصیدہ واپس لو۔ یعنی میرے ہیرو کے عیب گنواتے ہیں، اور اپنے ہیرو کے گن نہیں گنواتے۔ عجب غیر جمہوری رویہ دیکھنے میں آیا۔ سیاسی تبصروں میں اگر کسی بحث کا معیار یہی ہے تو یہ سیاست نہیں، ضد اور انانیت ہے۔ تعصب، تمسخر اور نفرت تو دلیل نہیں ہوا کرتے۔ اگر میں سمجھتا ہوں کہ میرے ملک کے وزیرِ اعظم کو ایک غیر ملکی طاقت کی دھمکی کے نیتجے میں اقتدار سے الگ کیا جاتا ہے تو حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ میں اس کا ساتھ دوں، بھلے وہ کوئی ہو، بھلے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو۔ اس بابت صبح و مسا شخصیت پرستی کا طعنے بھی سننے پڑے، دراں حالانکہ کسی شخصیت سے محبت اتنا جرم نہیں جتنا اس سے بلاوجہ عناد اور نفرت رکھنا۔ یار لوگوں کو سمجھایا کہ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے، جس میں جو خوبیاں ہوں اسے سراہنا چاہیے۔ ہم نے تو اسے ایسے وقت میں سراہا ہے جب وہ معزول ہے، لیکن کوچہ سیاست میں سکہ رائج الوقت محبت کی نجائے نفرت قرار پایا ہے۔ یہاں محبت کے پھول نظر نہیں آئے، نفرت کے ببول جابجا دکھائی دیے۔ دوست احباب نے سمجھایا کہ آپ بلاوجہ اپنی مٹی خراب نہ کریں۔ آپ کے قارئین، معتقدین اور شاگردین بھاگ جائیں گے۔ ہم نے کہا جو بچہ بھاگنا چاہتا ہے، بھاگ جائے۔ اس کے بھاگ اس کے ساتھ، ہمارے بھاگ ہمارے ساتھ۔ اچھی بات ہے ہمارا وزن کم ہو جائے گا— کم بچے خوشحال گھرانہ!! جو ظاہر کی دنیا میں ہماری گواہی نہیں مان رہا، وہ باطن میں کیسے مانے گا، جسے کوئی زمینی دلیل ہضم نہیں ہوتی، وہ آسامانی دلیل کیسے نگل سکتا ہے۔ جسے کوئی سیاسی وابستگی ہماری وابستگی سے زیادہ عزیز ہے، وہ ہمیں کیوں عزیز گا؟ جب قافلے کا رخ متعین ہو جائے تو جو ہم راہ نہ ہوگا وہ گم راہ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات کسی شخصیت کی تائید اور کسی کی تنقیص کی نہیں، بات ایک بیانیے کی تائید کی ہے۔ بات خودی اور خودداری کی ہے، بات آزادی اور خودمختاری کی ہے۔یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بولنے کا ہے۔ ہر شخص بولے، قلم سے بولے، آواز سے بولے، جلسے جلوس میں جاکر بولے۔ ہمیں اپنے حصے کی گواہی دے کر مرنا ہے۔ اس موقع پر خاموشی اس کھلم کھلا بیرونی مداخلت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ بات سیاست سے آگے نکل چکی ہے، شخصیات سے بھی آگے، بات نظریات تک پہنچ چکی ہے۔ ہم خاموش نہیں رہیں گے، ہم مداخلت قبول نہیں کریں گے۔ اس بار ہمیں کوئی میٹھی لوری دے کر سلانے کی کوشش نہ کرے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا فرمان ہے: “غلام قومیں سوتی ہیں، آزاد قومیں بیدار رہتی ہیں، آذادی کی صرف ایک ہی قیمت ہے، بیداری اور مسلسل بیداری!!”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply