فیصل واڈا کہنا کیا چاہتے ہیں؟۔۔آصف محمود

فیصل واڈا فرماتے ہیں کہ کالعدم تحریک لبیک سے معاہدے کا وزیر اعظم کو علم ہی نہیں تھا اور وزیر داخلہ کا دعوی ہے کہ وزیر اعظم کو نہ صرف اس معاہدے کا علم تھا بلکہ یہ ان کی اجازت سے کیا گیا۔ صفِ اقتدار کے دو معززین کے یہ تضادات دیکھ کر میرے جیسا عامی بیٹھا سوچ رہا ہے کہ: کس کا یقین کیجیے،کس کانہ کیجیے لائے ہیں بزمِ نا ز سے یار خبر الگ الگ مسائل کہاں نہیں ہوتے اور کس حکومت کا دامن ان سے صاف رہا ہے؟

موجودہ حکومت کا اصل بحران بھی یہ نہیں ہے کہ اس کے دامن سے بہت سارے مسائل لپٹ چکے ہیں۔ اس حکومت کا بحران یہ ہے کہ اس کے قائدین اپنی افتاد طبع پر قابو نہیں پا رہے۔ یہ جب جب کلام کرتے ہیں، سماج کی گھائل حسیات پر نمک پاشی کر جاتے ہیں۔ غیر سنجیدگی اور بے اعتنائی کے جو مظاہر اس کابینہ کے ہاں پائے گئے ہیں،اس کی مثال شاید تیرہویں مغل شہنشاہ ناصر الدین محمد شاہ کے ہاں بھی نہ مل سکے،دنیا جسے محمد شاہ رنگیلا کے نام سے جانتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے یہ ایک جدید پارلیمانی طرز حکومت کی کابینہ ہے یا شاخ ظرافت پر لام الف کی کہکشاں سجی ہے۔جس کے منہ میں جو آتا ہے ادا کر کے داد طلب ہوتا ہے۔ہر وزیر،مشیر اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کے ہر موضوع پر بات کر سکے،لیکن خاموش وہ کسی موضوع پر نہیں رہ سکتا۔

فیصل واڈا سابق وزیر ہیں۔ اس وقت ان کے پاس کسی وزارت کا قلمدان نہیں۔تازہ بحران میںوہ کسی بھی حوالے سے متعلق نہیں ہیں۔موجودہ معاملے کی نوعیت مذہبی ہو تو اس پر بات کرنے کے لیے نور الحق قادری موجود ہیں۔ اس کا تعلق اگر انتظامی امور سے ہو تو شیخ رشید بطور وزیر داخلہ ملک میں موجود ہیں۔اگر حکومتی موقف کا ابلاغ مقصود ہو تواس کام کے لیے فواد چودھری بھی دستیاب ہیں۔سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کون سی افتاد آن پڑی تھی کہ فیصل واڈا صاحب نے اس معاملے پر قوم کی رہنمائی فرمانے کی اتنی اشد ضرورت محسوس کی کہ معاملے کو سمجھے ، جانے اور کسی سے پوچھے بغیر ایک ایسا بیان جاری کر دیا جس کی چند ہی گھنٹوں میں دو وفاقی وزراء کو تردید کرنا پڑی۔ ایک شخص اگر پارٹی کی صف اول میں شمار ہوتا ہو،اسی دور اقتدار میں وزیر بھی رہ چکا ہو، تو اس کی افتاد طبع کو نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا۔یہی وہ رویے ہیں جو آزار بن کر اس حکومت کو چمٹ گئے ہیں اور جن کے ہوتے ہوئے عمران خان کو نہ کسی دشمن کی حاجت ہے نہ کسی حزب مخالف کی۔ ان کی فصیلوں میں ریت بھرنے کے لیے ان کے اپنے رفقاء کافی ہیں جن کی واحد خوبی یہ ہے کہ وہ دنیا کے ہر موضوع پر بات کر سکتے ہیں اور بات کرنے کے بعد بھی یہ سوچنے کے تکلف سے بے نیا ز ہیں کہ کہہ کیا دیا ہے۔

افتاد طبع کے یہ مظاہر ایسے نہیں کہ نظر اندا زکر دیے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ فیصل واڈا کہنا کیا چاہتے ہیں؟ کیا امور ریاست کو بچوں کا کھیل بنا دیا گیا یا مزاج یار میں وسعت ہی اتنی سی ہے اور اتفاقات زمانہ نے کچھ لوگوں کے سر پر دستار رکھ دی ہے،جن کی عمر تو ابھی کھیلنے کودنے کی تھی۔ فیصل واڈا وزیر اعظم عمران خان کا دفاع کر رہے تھے یا ان پر فرد جرم عائد کر رہے تھے؟اگر ان کی یہ بات تھوڑی دیر کے لیے مان لی جائے کہ جناب وزیر اعظم کو تو اس معاہدے کا علم ہی نہیں تھا تویہ بات وزیر اعظم کو اس سارے معاملے میں ’’ بیل آئوٹ‘‘کرتی ہے یا ان کی اہلیت اور فعالیت پر سنگین سوالات کھڑے کرتی ہے؟ وزیر داخلہ اگر ایک معاہدہ کرتے ہیں اور وزیر اعظم کو علم ہی نہیں ہوتا تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وزیر داخلہ اپنے وزیر اعظم کو اہمیت دینے کو ہی تیار نہیں اور من مانی کر رہا ہے یا کہیں اور سے احکامات لے رہا ہے؟کیا وہ جان بوجھ کر وزیر اعظم کوبے خبر اور لاعلم رکھ رہا ہے؟ اس صورت میں فیصل واڈا صرف وزیر داخلہ کی دیانت پر انگلی اٹھا رہے ہیں یا وزیر اعظم کی اہلیت بھی ان کے نزدیک سوالیہ نشان ہے؟ اب تو معاہدہ ہوئے بھی کافی وقت ہو گیا ہے۔ کیا فیصل واڈا رہنمائی فرمانا پسند کریں گے کہ وزیر اعظم کو ابھی تک اس کا علم نہیں یا اب علم ہو چکا ہے؟اگر وزیر اعظم تا حال لا علم اور بے خبر ہیں تو کیا وہ ایک اچھے منتظم کہلائے جا سکتے ہیں؟ روپے کی قدر میں کمی کا بھی وزیر اعظم کو ٹی وی سے پتا چلتا ہے اور معاہدے کا بھی انہیں کوئی نہیں بتاتا تو اس صورت میں کیا انہیں ایک با اختیار ویر اعظم کا طعنہ دیا جا سکتا ہے؟ اگر اب انہیں علم ہو چکا ہے تو وہ خاموش کیوں ہیں؟ وہ اپنے وزیر داخلہ کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کر رہے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے معاملے میں وزیر داخلہ حکومت کے سربراہ کی اجازت کے بغیر اتنا بڑا قدم اٹھا لے اور سربراہ حکومت اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کرے؟ فیصل واڈا صاحب ابھی حال ہی میں وفاقی وزیر رہ چکے ۔ کیا انہیں معلوم ہے کہ کابینہ کی Collective responsibility کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ آئینی طور پر وزیر اعظم بھی کابینہ کا حصہ ہیں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 91 کے تحت وہ کابینہ کے سربراہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوال یہ ہے کہ وہ اس اجتماعی ذمہ داری سے استثناء کیسے لے سکتے ہیں؟اور ان کے بارے میں اتنی سادگی سے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ فلاں کام کا تو وزیر اعظم کو علم ہی نہیں تھا۔ مہنگائی ہو یا افراط زر ، اپنی ساری سنگینی کے باوجود قومی زندگی میں یہ دھوپ چھائوں کی طرح ہوتے ہیں۔ حکومت اگر بصیرت ، درد دل اور معاملہ فہمی سے کام لے تو دھوپ کو چھائوں میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔افتاد طبع کا معاملہ البتہ الگ ہے کہ ہر آدمی اس کا اسیر ہوتا ہے۔حکمران جماعت کے میمنہ میسرہ پر کھڑے سالاروں کی افتاد طبع سے خوف آنے لگا ہے۔افتاد طبع کا یہ آزار مہنگائی اور افراط زر سے زیادہ خطرناک ہے۔کہیں ٹھہرائو اور درد مندی نظر نہیں آ رہی۔ ہیرو ورشپ کا جنون ہے اور سب بانکے آتش فشاں ساتھ لیے پھرتے ہیں۔دوسروں کو جلاتے جلاتے اپنا دامن بھی جھلسا لیتے ہیں۔ عمران خان کسی روز حساب سودو زیاں کریں تو انہیں معلوم ہو ان سے لپٹے بحرانوں کی اکثریت نے ان کے مصاحبین کی زبانوں سے جنم لیا ہے۔آئے روز دربار سے وابستہ کوئی ’ کرسی نشیں‘ ایسا بیان جاری کر دیتا ہے کہ اگلے کتنے ہی روز حکومت کو وضاحتوں میں صرف کرنا پڑتے ہیں۔ عمران خان اگر اپنی انجمنِ نا زکے طفلانِ خود معاملہ کو سنبھال لیں تو حکومت کے آدھے مسائل ختم ہو سکتے ہیں اور آدھے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ داغ دہلوی بھی دیکھیے کہاں یاد آئے: بات کرنی تک نہ آتی تھی ’ انہیں‘ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply