پریانتھا کمارا قتل یا ایک سازش ؟۔۔نرجس کاظمی

پریانتھا کمارا کا قتل ایک گھناؤنی سازش کے تحت کیا گیا ۔ آج مکمل رپورٹ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو روانہ کر دی جائے گی ۔ میں نے جب تمام معلومات اکٹھی کیں تو بہت سی معلومات آپس میں گڈمڈ ہو گئیں ۔ رات تفصیل سے دوبارہ مزید معلومات حاصل کرتے ہوئے آج آپ کیساتھ شیئر کر رہی ہوں۔

جتنے بھی لوگوں سے معلومات لیں اور انہوں نے جو کچھ مجھے بتایا اس میں عدنان نامی لڑکے  کا نام ہی ہر کسی نے لیا کہ اس نے ہی پریانتھا کو چھت سے نیچے گرایا ہے ۔ اب کنفیوژن یہ ہے کہ کیا عدنان نام کے دو لڑکے ہیں جو اس وقت فیکٹری میں کام کر رہے تھے یا ایک ہی ہے یعنی پروڈکشن  منیجر  ،پروڈکشن منیجر  کو تو تمغہ جرات سے نوازا جا رہا ہے تو پھر یہ دوسرا عدنان کون ہے جس نے پریانتھا کو قتل کیا۔؟واقعہ اس قدر دردناک ہے کہ میں بپھر گئی ہوں اور ضد پہ آگئی ہوں ۔ میرے دماغ میں صرف عدنان کا نام ہی اس وقت پریانتھا کے قاتل کے نام کے طور پر اٹکا ہے ۔ پولیس اور انٹیلی جنس اس وقت پورے معاملے کو بڑی ایمانداری اور دلجمعی سے دیکھ رہی ہے اور ان کے کام پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کیا جا سکتا ہے ۔ مگر وہاں ایک اصل ہیرو بھی تھا جو اسے بچانے کی حتی الامکان کوشش کر رہا تھا لیکن اسے دو چار ڈنڈے مار کر وہاں سے بھگا دیا گیا یہ کہتے ہوئے کہ ” اگر تم نے اسے بچانے کی کوشش کی تو تمہارا بھی یہی حشر کیا جائے گا۔”

معاملہ یہ ہے کہ ساری سازش وقوعہ سے ایک دن پہلے تیار کی گئی تھی اور رات تک راجکو فیکٹری اور اردگرد کی فیکٹریوں کی لیبر کو  پیغامات بھیجے  گئے تھے ۔ کہ “راجکو کے جنرل منیجر   پریانتھا کمارا نے توہین ِ رسالت ﷺ  کی ہے ، صبح کام پہ کوئی نہیں جائے گا بلکہ صبح آٹھ بجے سب راجکو کے باہر اکٹھے ہوں گے اور احتجاج کیا جائے گا ۔ جس پر اردگرد کے کارخانوں میں کام کرنے والے اور راجکو کے ملازمین حسبِ  وعدہ راجکو کے باہر اکٹھے ہو گئے۔ یہ کون لوگ تھے جنہوں نے صرف ایک کال پہ اتنے زیادہ لوگ اکٹھے کر لیے ؟۔ ابھی دھرنہ ختم ہوئے جمعہ ، جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں ۔ دھرنے کے متعلقہ لوگوں نے پورے ملک سے دھرنے میں موجود شرکاء کی شرکت کا باقاعدہ اندراج کیا ،کہ بوقت ضرورت اکٹھا کیا جاسکے۔

بہرحال مجھے اس پورے واقعہ سے سازش کی بُو آتی ہے ۔ جو کہ ایک رات قبل تیار کی گئی۔ ہمارے ہاں حکومتوں کا یہ چلن تو ہے ہی نہیں کہ  اگر سر میں درد ہے تو ایک گولی ڈسپرین دے دی جائے۔ ہٹ دھرمی دکھائی اور پھر سر جھکا لیا۔

راجکو فیکٹری کی انتظامیہ کی کوتاہی یہ ہے کہ جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ صبح آٹھ بجے سے پہلے ہی باہر جمع تھے تو اس وقت پولیس سے مدد کیوں نہیں لی گئی  ؟ اگر وہ ایسا کر دیتے اور پولیس کو بروقت اطلاع مل جاتی تو معاملہ اس قدر خراب نہ ہوتا۔

سیالکوٹ کی بزنس کمیونٹی میں خرابی یہ ہے کہ اپنے معاملات کو خود ہی حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور رازداری کی انتہا یہ ہے کہ کسی غیر متعلقہ شخص کو اپنی فیکٹری کے قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتے ۔ جگہ ،جگہ لگے ہوئے سکیورٹی کیمرے ایک سوئی کے گرنے سے بھی انہیں مطلع کر دیتے ہیں ، اور یہاں اتنی بڑی تعداد میں عوام جمع ہوگئی اور مقابلے میں ایک بدھشٹ تھا ،انہیں معاملے کی نزاکت کا اندازہ کیوں نہ ہوا۔؟ لیبر ان کے لئے روبوٹ یا مشینیں ہیں جو انہیں نوٹ چھاپ کر دیتی ہیں اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ صبح آٹھ بجے سے (جبکہ عوام آٹھ بجے سے پہلے ہی جمع ہو چکی تھی )گیارہ بجے تک ان کے پاس اتنا ٹائم تھا کہ وہ سارا معاملہ حل کر سکتے تھے۔ تو پھر کیوں نہ کیا گیا؟  اس کوتاہی کے پیچھے مالکان کی حد درجہ خود اعتمادی بھی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ سیالکوٹ کے فیکٹری مالکان کو کسی بھی معاملے کا کسی دوسرے سے ذکر کرنے میں اپنی سبکی محسوس ہوتی ہے ۔اپنے ہی دائرے میں رہتے ہوئے مقابلہ اور سخت مقابلہ جیسی فضا ہے اور بس۔ اگر یہ لوگ اپنے آپسی تعلقات میں ایک دوسرے پر مہربان ہوں تو بہت کچھ بہتر ہو سکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے فکر اس بات کی ہے کہ پریانتھا کی موت ہمار ے  سری لنکا سے تعلقات اور سیالکوٹ کی معاشی خوشحالی پہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ اللہ رحم کرے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply