’’نقوشِ پائے رفتگاں‘‘ ایک جائزہ …..فیصل عظیم

ستیہ پال آنند صاحب کی خود نوشت ’’نقوشِ پائے رفتگاں‘‘ پہلی بار پڑھی تو یہ قندِ مکرّر تھا کہ اس سے پہلے ان کی سوانح عمری ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ پڑھ چکا ہوں اور اس کے حوالے سے کچھ گزارشات بھی کرچکا ہوں۔ اس میں ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے خاصے اقتباسات ہیں اور کچھ اضافے بھی ہیں۔ ہمارے ایک بہت اچھے نثر اور مزاح نگار احمد رضوان جنھوں نے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے، اس میں ان کا دیباچہ بھی شامل ہے۔
کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جو گزرے زمانوں کی تصویریں دکھاتا ہے، جس سے بڑی شخصیتوں، ان کی باتوں، ان کے خیالات اور ستیہ پال صاحب سے ان کے مراسم کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کے نظریات کے بارے میں ستیہ پال صاحب کے خیالات کا بھی۔ یقیناً ان تاریخ ساز شخصیتوں کے ساتھ گزرا وقت قابلِ رشک ہے۔ ان لوگوں کی گفتگو میں البتہ ایک بات جو شدّت سے محسوس ہوئی وہ یہ تھی کہ اردو ادب اور شعری اصناف کے بارے میں ستیہ پال صاحب کے جن خیالات سے ہم واقف ہیں، کم و بیش وہی باتیں ان کی یادداشتوں میں جگہ جگہ گفتگو میں آرہی ہیں۔ ان کی زیادہ تر گفتگو کا محور وہی موضوعات ہیں جو ستیہ پال صاحب کی پہچان ہیں مثلاً اردو زبان و ادب اور ادیبوں سے شکایت، روایتی شاعری اور اس سے بیزاری اور غزل پر اعتراضات۔
تلوک چند محروم صاحب سے بات شروع ہوتی ہے۔ ستیہ پال صاحب کی خوش قسمتی کہ بچپن ہی میں ان کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ یہی وجہ ہے اور اس کی تائید خود آنند صاحب نے بھی کی ہے، کہ ان کے ادبی نظریات پر تلوک چند محروم صاحب کا بہت بنیادی اثر ہے۔ ستیہ پال صاحب کی بچپن کی تصویر تو شاید نہیں دیکھی مگر جوانی کی دیکھی ہے، وہ جوانی کی وجاہت کی طرح بچپن میں بھی یقیناً خوبرو ہوں گے اور انھیں خود بھی اس کا احساس بھی تھا جس کا اندازہ ’’میری لڑکپن کے بے داغ چہرے‘‘ جیسے جملے سے ہو سکتا ہے۔ یہ جملہ میں نے اس لیے لکھا کہ مجھے بھی پڑھ کر مزہ آیا۔ ایک اور دلچسپ جملہ ’’کچھ ایسے ڈیسک تھے جن پر چاقوؤں سے الّم غلّم کھدا ہوا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے ہر سال لڑکے بودھ غاروں میں اور بھکشوؤں کی طرح اپنی یادیں کندہ کرکے یہ یقینی بناتے تھے کہ آنے والے برسوں میں نئے لڑکے ان سے مستفید ہوں‘‘ پڑھ کر لطف آیا۔ اسی حصّے میں تلوک چند محروم نے اردو اور اردو والوں یا یوپی والوں سے شکایت کا اظہار کیا ہے، میرے خیال میں وہ شکایتیں کچھ زیادہ کر گئے مگر شاید میں اس کا ذکر ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ والے مضمون میں کر چکا ہوں۔ ایک شکایت تو یقیناً بجا ہے جس پر آزاد، حالی جیسے بزرگوں نے بھی اپنے اپنے انداز سے تنقید کی ہے، وہ ہے فارسی کے مضامین اور موضوعات کو ٹکسال بنا کر تقلیدی راہ پہ چلتے رہنا۔ ہاں، لیکن ریگستان، جنگل وغیرہ کو باندھنے پر یہ اعتراض کہ شاعروں نے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا ہوگا، تو یہ ضروری نہیں۔ ہم جیسے لوگ یہ جھلکیاں پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں تو پورے ہندوستان میں کیا واقعی ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی ؟البتہ مجموعی طور پہ ان کا اعتراض بجا ہے کہ ایسی بہت سی چیزیں باندھ دی جاتی ہیں جنھیں صرف سنا ہو۔ شاعری میں مذکر کے صیغے کے حوالے سے جو لکھا ہے، اس کی بھی ایک سے زیادہ پرتیں ہیں۔ اسے امردپرستی سے جوڑنا بھی ایک پہلو ہے مگر لازمی نہیں۔ جہاں اس کا اطلاق ہوتا ہے وہاں تو ٹھیک ہے لیکن اس کی جو مثال دی گئی ہے ’’کہا جو اس نے مرے پاؤں ذرا داب تو دے‘‘ تو اس مثال سے میں اختلاف کروں گا۔ اس شعر میں تو آپ زن مرید، ناز پروری اور دوسری کئی چیزیں بھی ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ایک اور بات، جہاں فارغ البالی کا ذکر ہے تو یہ اصطلاح اصل میں گنجے پن کے بجائے فکری آزادی کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔
اختر الایمان صاحب سے ان کی ملاقات بھی اخترالایمان کے بارے میں بہت کچھ جاننے میں مدد دیتی ہے۔ اس یادداشت کے ساتھ اگر یہ بھی لکھا ہوتا کہ کب کی ہے تو اور اچھا ہوتا۔ ان کی بات چیت کا موضوع زیادہ تر نظم میں اظہار کے اسالیب، غزل کی رومانی فضا اور بلند آہنگی ہے۔ فارسی آمیز اصطلاحات سے گریز اور کھل کر اظہار کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ فیض کے حوالے سے تنقیدی گفتگو اور ان کے ادبی اسلوب پہ کڑی نکتہ چینی کی گئی ہے۔ زیادہ تر ان کی باتوں کا نچوڑ بھی وہی تھا یعنی کلیشے سے بیزاری۔ ستیہ پال صاحب اس ملاقات میں ان کی باتوں کے نوٹس بھی لیتے رہے اور ان سے دل کی باتیں بھی کرواتے رہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کچھ باتیں ایسی ہیں جو وہ عموماً کرتے نہیں تھے۔
جوش ملسیانی کے بارے میں جو کچھ ان کی تحریر سے معلوم ہوا وہ جوش ملسیانی کی شخصیت اور ادبی رویے کا پتہ دیتا ہے۔ جہاں سیکھنے کا عمل ہے وہیں بالآخر ان سے گریز کا ذکر بھی ہے۔ ڈاکٹر تھامس گرے والا حصّہ بھی خاصہ معلوماتی ہے۔ دیگر شخصیات کے حوالے سے بھی کچھ یادیں، کچھ باتیں، کچھ شخصی پہلو، بڑوں کی بڑائیاں، زندگی کے فلسفے، سادگی اور کافی کچھ جو ہمیں فکر کی دعوت دیتا ہے، اس کتاب میں ہے۔ ادبی معاملات پر اظہارِ خیال اور بعض تنقیدی تحریرں بھی اس میں ہیں۔ لیکن تلوک چند محروم کی یادوں کے بعد جن مضامین کو میں خاصے کا کہوں گا وہ ہیں سروجنی نائیڈو، ڈاکٹر وزیر آغا اور راجندر سنگھ بیدی سے متعلّق۔
بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو پر یہ مضمون یقیناً پڑھنے سے تعلّق رکھتا ہے جس میں سروجنی نائیڈو کی نظموں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لایا گیا ہے۔ تراجم تو ہیں ہی مگر ان کے شعری محاسن پر گفتگو ادب کے طالب علموں کے لیے بہت اہم ہے جس میں منظر نگاری، تشبیہات، نظموں کی مجموعی فضا اور احساسات کی ترسیل جیسی نمایاں خصوصیات شامل ہیں۔ اس کا خلاصہ آخر میں یوں ہے کہ ’’مصوری یا لفظوں کی صنّاعی تک ہی یہ قدرت محدود نہیں، بلکہ مضمون، پیکر تراشی، انگریزی کے رومان پرور اسلوب میں بیانیہ اور پھر اس میں اشاراتی اور علامتی رموز کے تانے بانے ۔۔۔۔‘‘۔
راجندر سنگھ بیدی سے ملاقات اور ان کا اپنی ذات اور زندگی کے بارے میں کھل کر باتیں کرنا بھی دلچسپ ہے۔ اردو والے بے چارے یہاں بھی طعن و تشنیع کا شکار رہے جن کی وجوہ بھی اگرچہ بتائی گئی ہیں مگر پوری کتاب کی فضا سے لگتا ہے کہ یا تو ہندوستان کے پنجابی حضرات کی گفتگو میں یہی باتیں حاوی رہتی تھیں یا انھیں ستیہ پال صاحب سے ایسی باتیں کرنے میں سہولت ہوتی تھی یا پھر ستیہ پال صاحب خود ان کے ایسے خیالات جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ بہرحال، میرے نزدیک دونوں طرف کے لکھنے والوں کو خلیج پاٹنے کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی۔ اس مضمون میں بیدی کے افسانوں پر بھی اظہارِ خیال کیا گیا ہے جو غالباً کسی مضمون کا اقتباس ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا اس کتاب کی وہ دوسری اہم شخصیت ہیں جنھوں نے ستیہ پال صاحب کے ادبی اور فکری سرمائے اور خدوخال پر گہرا اثر ڈالا ہے جس کا کھلے دل سے ستیہ پال صاحب اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ اس اعتراف میں ہچکچاتے نہیں بلکہ مجھ سے کئی بار براہِ راست گفتگو میں بھی انھوں نے ڈاکٹر وزیرآغا کا ذکر بہت عقیدت سے کیا ہے کہ وہ انھیں بہت مانتے تھے اور مانتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے ان کی خط و کتابت اور ٹیلی فون رابطوں میں ایک تسلسل رہا جن میں بہت سے معاملات زیر بحث آتے رہے اور ان کا ذکر اس مضمون یا یادداشتوں میں موجود ہے۔ ان میں نظم، اس کے محاسن، اس کا فلسفہ اور دیگر پہلوؤں پر خیالات کا تبادلہ اور تنقیدی مسائل پر گفتگو شامل ہے۔ گھسی پٹی شاعری، جو نہیں ہونا چاہیے اور وہ جو ہونا چاہیے، نیز بااثر حلقوں کی طرف سے عدم توجہی وغیرہ کا ذکر بھی رہا۔ عالمی ادب پر تبادلۂ خیال بھی اس میں شامل ہے۔ ایک جگہ جہاں میں ٹھٹھکا وہ یہ تھی کہ اخترالایمان سے گفتگو میں جہاں کھل کر، نام لے کر، بلند آہنگ اظہار کرنے کو دونوں فریقوں نے بہت زیادہ ضروری کہا اور مانا تھا، وہیں ڈاکٹر وزیر آغا سے گفتگو میں ایسے ادب کو دونوں طرف سے ناپسندیدگی کی نظر سے بھی دیکھا گیا ہے اور اسے وقتی ادب کہا گیا ہے۔ ساتھ ہی وزیر آغا کے کلام میں اس جہت کے نہ ہونے کو ہی خصوصیت بھی مانا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان دونوں ملاقاتوں میں غالباً خاصہ زمانی فاصلہ موجود ہوگا اور وقت کے ساتھ خیالات بدلتے بھی ہیں اور بدلنا بھی چاہیے۔ یا ممکن ہے دونوں باتیں محض ایک خاص تناظر میں، نہ کہ قطعیت کے ساتھ کی گئی ہوں ۔ اسی مضمون میں ایک مقام پر ستیہ پال صاحب نے ان بزرگوں کا ذکر کیا ہے جن کا ان کی ادبی اور فکری تربیت میں کردار رہا یا جن سے انھوں نے بہت کچھ پایا اور ساتھ میں انھوں نے ہم سے، خودکلامی کے انداز میں، یہ سوال بھی کیا ہے کہ ’’کیا کسی نوجوان نے مجھ سے کچھ سیکھا بھی ہے کہ نہیں‘‘۔ یہ اقتباس من وعن ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ سے ہے اور میں نے تب بھی اس بات کا جواب اپنی ایک تحریر میں دیا تھا مگر اب ذرا تفصیل سے دیتا ہوں۔ نوجوانوں نے ان سے سیکھا، اس میں کوئی شک نہیں، آپ کو ان کے گرد طالب علم اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ میں یہ آسانی سے کہ سکتا ہوں کہ مجھ جیسے طفلِ مکتب نے ان سے ضرور سیکھا ہے جس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ میں نے مضمون کی صورت میں ستیہ پال صاحب کے کلام پر اظہارِ خیال سے پہلے محض گنے چنے مضامین لکھے ہوں گے، وہ بھی مجلسی ضرورت کے تحت، نہ کہ باقاعدہ کسی کتاب یا ادب پارے پر طبع زاد تحریر کے طور پر۔ ستیہ پال صاحب کی نظموں پہ میں نے ایک سے زیادہ دفعہ مضامین لکھے مگر میرے اندر ایک شرم اور لحاظ بچپن سے ہے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہمیں سکھایا گیا ہے کہ بزرگوں کے آگے آواز نیچی رکھو اور خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔ تو میں اختلافی یا تنقیدی بات کرتے وقت واپسی اور معذرت کے راستے کھلے رکھتا تھا تاکہ بے ادبی نہ ہو۔ یہ کسرِ نفسی یا اظہارِ عجز نہیں تھا بس بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنے کی عادت تھی۔ ایک بار ایسی ہی کسی بات پہ ستیہ پال صاحب نے مجھے ٹوکا، کہنے لگے کہ جب اپنی بات کہ دی ہے تو اس کے ساتھ یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو صحیح سمجھ رہے ہو لکھ دو اور بس۔ ستیہ پال صاحب کی یہی نصیحت تھی جس نے میری الجھن دور کر دی کہ ادب کرنے اور ادب لکھنے میں سے کیا زیادہ ضروری ہے۔ لہٰذا اب اگر میں کہیں اپنے رائے کا اظہار کرتے وقت تخلیق کار کی عمر اور مقام کو، بزعمِ خود، ایک طرف رکھ دیتا ہوں تو یہ میں نے ستیہ پال صاحب سے ہی سیکھا ہے۔
آخر میں ساقی فاروقی صاحب کے حوالے سے ایک اعترافی مضمون ہے۔ یہ بات ایسی ہے کہ بہت دور سے اس پر کچھ کہنا، سننا یا ماننا محض پڑھنے والے کی صوابدید پر منحصر ہے۔ میں دست بستہ یہی کہوں گا کہ جو ان کی زندگی میں نہیں کہا، اب بھی نہ کہتے توشاید بہتر ہوتا۔ اب یہ ’’اعتراف‘‘ شاید اپنی نوعیت میں اتنا اہم نہیں رہا۔ اس سے ساقی فاروقی کی طرح ستیہ پال آنند صاحب پر بھی سوال اٹھ جائے گا اور سوال بھی ایسا جس کا جواب ملنا اب ناممکن ہے۔ لہذٰا میری ناچیز رائے میں یہ وہ یادداشت نہیں جو دوسری کتاب میں شامل ہونا چاہیے تھی۔
خلاصہ یہ کہ یہ کتاب ایک نہایت اہم دستاویز ہے اور جن شخصیات کے بارے میں اس میں تحریریں شامل ہیں، ان پر کام ہوگا تو اس کتاب سے یقیناً رجوع کیا جائے گا یا کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ستیہ پال صاحب کو بھی مبارکباد اور اشاعت کے سلسلے میں احمد رضوان کی محبت اور کوششوں پر انھیں بھی مبارکباد۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply