طاہرہ اقبال کی’نیلی بار(2 )-راجہ قاسم محمود

فوجی نصیر کا کردار بڑا دلچسپ ہے۔ جب ایوب خان کا مارشل لاء لگتا ہے اور زرعی اصلاحات کا اعلان ہوتا ہے تو فوجی نصیر جو دیہاتیوں میں پڑھا لکھا مشہور ہے جو دیہاتیوں کو عالمی خبریں بھی سناتا ہے۔ زرعی اصلاحات پر وہ گاؤں والوں کو امید دلاتا ہے کہ اب مزارعوں کے حالات بدلنے والے ہیں اب زمینں وڈیروں سے لیکر مزارعوں کی دی جائیں گی۔ فوجی نصیر کی باتیں سن کر دیہاتی ذیل دار کے خلاف اگلے دن بغاوت کر دیتے ہیں جس پر پولیس کے ذریعے سے قابو پایا جاتا ہے۔ مزارعوں کی عورتیں ذیل دار کی بیوی سے منتیں کرتی ہیں کہ انہیں کچھ بھی معلوم نہیں تھا یہ سب فوجی نصیر کے کہنے پر کیا گیا۔ اس مکالمے میں ایک دلچسپ بات جب فوجی نصیر زرعی اصلاحات کا ذکر کرتا ہے تو انپڑھ دیہاتی تو درست لفظ ادا نہیں کر سکتے اس کو ‘زرعی الات’ کہتے ہیں۔ پولیس ایکشن کے بعد فوجی نصیر بھاگ جاتا ہے۔ بعد میں بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ جب بھی حکومتی سطح پر انقلابی اقدامات کا اعلان ہوتا ہے تو فوجی نصیر کی امید جاگ جاتی ہے کہ اب حالات بدل جائیں گے اور محرومیاں ختم ہو جائیں گے یہ طبقاتی تقسیم ختم ہو جائے گی۔
ہم دیکھیں تو ہمارے اردگرد بہت سے فوجی نصیر بستے ہیں جو ہر ایسے حکومتی اعلانات کے بعد پر امید ہو جاتے ہیں کہ اب تو سب معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ حکمران کے ایک اعلان سے پورا سسٹم ہی بدل گیا ہے۔ یہ خیالات کی دنیا میں بسنے والے اور باتوں سے خوش ہونے والے ہر ایسے اعلانات پر ایمان لے آتے ہیں۔ جیسے کہ آج ہماری مقتدرہ کسی شخص کو مسیحا بنا کر پیش کر رہی ہے تو ہمارے ہاں کے فوجی نصیر اس پر یقین کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن اب خوش آئند بات یہ ہے کہ فوجی نصیر اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سرحدوں کی حفاظت پر مامور نے ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کا فیصلہ فرمایا تو ایک دو فوجی نصیروں سے سنا کہ اب ڈنڈا چل گیا ہے اب ملک پٹری پر چلے گا۔ کامران خان کی شکل میں بھی کچھ فوجی نصیر ایسی قوتوں کو میسر ہوتے ہیں جو جھوٹے خواب دکھاتے ہیں۔
زارا فتح شیر اور پاکیزہ دو نسوانی کردار ہیں جو کہ تقریباً ایک ہی طرح کے خاندانی پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یہ دونوں جاگیردارانہ گھر میں پیدا ہونے والی ہیں لیکن زارا فتح شیر کی خوش قسمتی کہ اپنے باپ کے قتل کے بعد ماں کے ساتھ وہ اپنی بہن کے ساتھ لاہور میں آٹھ کنال کی کوٹھی میں چلی جاتی ہے۔ یہاں وہ تعلیم حاصل کرتی ہے اور پھر اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیتی ہے۔ وہ ایوب دور کے آخر میں ہونے والے طلباء مظاہروں کو بھی قریب سے دیکھتی ہے۔ وہ بھٹو کے سوشلزم اور اس سے متاثر ہونے والوں سے بھی براہ راست بحث کرتی ہے۔ وہ اعلی ایوانوں اور وہاں کی شخصیات سے بھی وابستہ ہے۔ وہ ناصرف بے باک ہے بلکہ ساتھ ہی اس میں کسی حد تک سسٹم میں بہتری کی خواہش بھی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جس سسٹم کے خلاف وہ تقریریں کرتی ہے بعد میں وہ خود اس سسٹم کا حصہ بھی بنتی ہے۔ وہ اعلیٰ ایوانوں میں رہنے والی شخصیات کے دوغلے پن اور شاہ خرچیوں کو بھی ملاحظہ کرتی ہے۔ وہ ان کے مابین ہونے والی گفتگو کا بھی حصہ بنتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان ایوانوں میں ہونے والی گفتگو کا معیار ہی عام آدمی سے الگ ہے۔ بلکہ اس کو اس عام عوام کے مسائل کے حل میں دلچسپی بھی نہیں ہے۔ عام آدمی جب ان لوگوں کی گفتگو سنے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک الگ دنیا میں بستا ہے۔ اس گفتگو کی ایک جھلک مصنفہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں
“اسی دان میں پاکستانی سیاست بند ہے۔ کسے الیکشن جتوانا ہے۔ کس کی حکومت بنوانا،یا گرانا ہے۔ کس نے کب اپنی ازلی مخالفین کو بھلا کر دشمنوں سے دوستی کر لینی ہے۔ کس کس کو وزیر اور سیکرٹریز لگانا ہے پھر انہیں کب مری مکھی کی طرح اقتدار کے دودھ سے نکال باہر پھینکنا ہے۔ کس کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھانا ہے۔ اپنے اپنے حصے کا گیٹ اپ ہر ایک کو اچھی طرح سمجھا دیا جاتا ہے۔ آپ جانو زارا بی بی! پالیٹکس کی سائنس میں پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کر لینا اعزاز کی بات سہی لیکن پاکستانی پالیٹکس کو سمجھنا ایک الگ ایشو ہے”
زارا فتح شیر کا اور علی جواد کا تعلق کوئی عجیب ہے۔ اس کو نفرت و محبت کا تعلق کہہ سکتے ہیں۔ زارا علی جواد سے بھرپور نفرت کا اظہار بھی کرتی ہے جبکہ اس کے بارے میں اکثر سوچتی بھی ہے۔ وہ اس کی احتجاجی سرگرمیوں کے خلاف بھی ہے مگر بعد میں جب علی جواد پناہ لینے آتا ہے تو اسی کے گھر میں رہتا ہے۔ پہلے ہم علی جواد کے کردار کو دیکھتے ہیں کہ وہ کون ہے۔ تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ ایک بہروپیا، موقع پرست اور مطلب پرست شخص ہے۔ جو زمانہ طالب علمی میں جبکہ سوشلزم کی ہوا چل رہی ہوتی ہے تو سوشلسٹ بن جاتا ہے۔ وہ سٹوڈنٹ لیڈر بنتا ہے اور اپنی ناموری کے لیے کئی لوگوں کو احتجاج کی آگ میں جھونک کر خود نکل جاتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ بھٹو کے سوشلزم کا سب سے بڑا داعی ہے اور جب بھٹو کی حکومت آئے گی تو وہ اس کے مشیروں میں سے ہو گا لیکن بھٹو دور میں وہ کوئی اتنا خاص خوش نہیں ہوتا پھر معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو کے لیے طلباء کے احتجاج منعقد کرانے والا بھٹو کی موت پر مٹھائی بانٹنے والوں میں سے ہوتا ہے۔ پھر افغان جنگ شروع ہوتی ہے تو یہ علی جواد ایک نیا روپ اور نیا نام اختیار کرتا ہے وہ علامہ محمد علی معاویہ کا۔ مطلب ایک زمانے کا سوشلسٹ اب ایک عالم دین کا روپ اختیار کر جاتا ہے۔ علامہ محمد علی معاویہ جنرل ضیاء کے افغان وار سے فوائد سمیٹنے والوں میں سے ہے۔ اس کو سرکاری سرپرستی میں مدارس کی ایک کھیپ مہیاء ہوتی ہے جہاں وہ روسیوں کے خلاف مجاہدین تیار کرتا ہے۔ اس سے اس کے مالی حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ اس کا کردار مکمل طور پر ایک منفی کردار ہے جس میں ہمیں کہیں بھی بھلائی نظر نہیں آتی بلکہ موقع پرستی اور مطلب پرستی کی مجسم تصویر ہمیں اس کردار میں نظر آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ابن الوقت کردار پائے جاتے ہیں اور بہت سے لوگ پائے بھی جاتے ہیں جو پہلے اشتراکیت کے مبلغ تھے اور اب سرمایہ دارانہ نظام کے وکیل ہیں۔ ہمارے ہاں کا اکثر لبرل کہلانے والے لوگ اس کی مثال ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں کہ جب حکومت کا زور سوشلزم کے فروغ پر تھا تو وہ اس کے حق میں دلیلیں گھڑتے ، پھر افغان جنگ میں روسی خطرے کے بارے میں بتاتے، جب روش خیال اعتدال پسندی حکومتی پالیسی ٹھہری تو وہ اس کے حق میں جواز پیش کرنے لگے نیز جو حکومت وقت کا نعرہ تھا تو یہ اس کو دستیاب تھے۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسے لوگ حکمرانوں کو ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں جو ان کے اقدامات کے لیے حیلہ سازی کر کے ان کو درست قرار دیتے ہیں ۔ علی جواد بھی ایک ایسا ہی کردار ہے۔ علی جواد کے کردار میں ہم کو ماسوائے منفیت کے کچھ نظر نہیں آتا، یہ کچھ غیر حقیقی بات ہے۔ پھر جہاں بھی علی جواد یا پھر محمد علی معاویہ کا سامنا زارا فتح شیر سے ہوتا ہے تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ وہ ہر وقت زارا فتح شیر سے اپنی جنسی خواہشات ہی پوری کرتا ہے جس کو زارا چاہ کر بھی روک نہیں پاتی۔ شروع میں زارا فتح اس کی بیوی بھی رہتی ہے اور پھر زمین کے عوض اس نکاح سے آزاد ہوتی ہے۔ اس نکاح اور اس سے پہلے اس کے حمل کے بارے میں بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ لاہور جیسے شہر میں رہنے والی امیر کبیر لڑکی کو مانع حمل ادویات بھی نہیں مل سکیں تاکہ وہ یہ حمل ضائع کر سکے۔ اس کے بعد جب زارا پیر اسرار احمد شاہ کی چوتھی بیوی بنتی ہے جس کی تینوں بیویوں سے اپنی اولاد ہے۔ زارا کا سال تک اولاد کے لیے محمد علی معاویہ سے تعلق کا انتظار کیوں کرنا پڑا۔ یہ ان دو کرداروں کے تعلقات کے حوالے سے کچھ کمزور پہلو ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب محمد علی معاویہ خود تو لوگوں کے بچے افغان جنگ کے ایندھن میں جھونک رہا ہوتا ہے لیکن جب زارا فتح شیر کا بیٹا جو کہ محمد علی معاویہ کا بھی بیٹا عسکریت پسند بن کر افغان وار میں امریکیوں کے خلاف جاتا ہے تو وہ اس کو کیسے بچاتا ہے۔ نیز زارا فتح شیر کا بیٹا جو کاغذی طور پر پیر اسرار احمد شاہ کا بیٹا ہے کے عادات و اطوار کبھی بھی مقتدر طبقے والے نہیں بلکہ اس کے اندر وہ انقلابی بستا ہے جو کبھی علی جواد یعنی علی محمد معاویہ کے ہاں بسا کرتا ہے۔ زارا جو کہ اس وقت وفاقی وزیر بھی ہوتی ہے کا بیٹا ایک ایسے سکول میں ہوتا ہے جہاں پر فقط مقتدر حلقوں کے بچے ہی جاتے ہیں اور ان کو وہاں آداب حکمرانی سکھائے جاتے ہیں مگر زارا کے بیٹے کی عادات واطوار میں مڈل کلاس سوچ پائی جاتی ہے وہ طبقاتی تقسیم پر سوال اٹھاتا ہے وہ خدا کے حوالے سے بھی سوال اٹھاتا ہے کہ کیا غریبوں کا خدا اور امیروں کا خدا اور ہے۔ وہ جہادی لٹریچر سے متاثر ہو کر افغان جنگ میں جاتا ہی تو اس کا اصل باپ اس کو چھڑا لیتا ہے۔ حالانکہ روسیوں کے خلاف حکومتی سرپرستی میں وہ دوسروں کے بچوں کی کھیپ تیار کر کے انہیں افغانستان بھیج رہا ہوتا ہے تو جب امریکہ افغانستان میں آتا ہے تو یہ کام چھپ چھپا کر ہوتا ہے۔ اس میں کئی دفعہ مقتدرہ کی جانب سے کارروائی ہوتی ہے تو کئی دفعہ ان کو جانے دیا جاتا ہے تاکہ اگلے وقتوں کے لیے دوسری جانب ہمارا احسان رہے۔
جب امریکہ افغانستان آتا ہے تو اس گاؤں سے لوگ بھی اس ایندھن میں جھونکے جاتے ہیں وہ سادہ لوح لوگ جنہیں یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اس جنگ کا مقصد کیا ہے، یہ زمینوں پر کام کرنے والے لوگ جنہوں نے کبھی جمعے کی نماز بھی نہ پڑھی ہو اپنے گاؤں کے مولوی کی تقریروں سے متاثر ہو کر اس جنگ میں جھونک دئیے جاتے ہیں اور ان کے لواحقین کے لیے یہ باتیں کتنی تکلیف دہ ہوتی ہیں ان کو بھی ڈاکٹر طاہرہ اقبال نے ذکر کیا ہے۔ اس پر ان کا یہ اقتباس پڑھنے کے لائق ہے
“گندم گنا اور کپاس اگانے والے اس جفا کش لیکن ست رو زرعی معاشرے میں حیات و ممات، جنت و دوزخ، جیسے اجنبی مسائل کبھی متعارف ہی نہ ہوئے تھے۔ ان کی جنت اناج کے موسم تھے اور دوزخ بھوک کے موسم ۔ان کی زندگی وہی تھی جو وہ جیتے تھے موت وہ جو اللہ کے اختیار میں تھی۔خود موت کا انتخاب کرنے اور بعد از موت زندگی کو یقینی بنانے جیسا فلسفہ یہاں پہلی بار متعارف ہوا تھا۔ یہ امریکہ میں کیسا انقلابی واقعہ ہوا تھا کہ انہیں بھی، زادگانِ فطرت کو بھی مذہب جیسے دور افتادہ آسمانی قضیے کا حصہ بنا گیا تھا۔ وہ مٹی میں مٹی بنے رہنے والے عرش کے سربستہ رازوں اور رفعتوں کے شریکِ کار بنا دیے گئے تھے”
لیاقتی اور فوقی جو اس جنگ کا ایندھن بنتے ہیں اور پھر جب وہ یہاں یا علی کا نعرہ لگاتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعرہ لگانا حرام ہے۔ یہاں وہ مذہب کا ایک نیا روپ دیکھتے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اگر اس نعرہ لگانے کی وجہ سے وہ اپنے کمانڈر کے ہاتھوں قتل کر دئیے گئے تو وہ جنت میں جائیں گے یا دوزخ میں۔ مذہب کی پابندی اور پھر اس کا علم نہ ہونا لیاقتی اور فوقی کو عجیب الجھن اور کشمکش میں ڈال دیتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply