یادوں کی الماری (2)۔۔ کبیر خان

یادوں کی الماری میں ’’چودہ اُنّی‘‘( ۱۴۱۹) ، پہاپولہ ٹرانسپورٹ اور موٹرسائیکل کو صفحہ در صفحہ ’’ٹاپو ٹاپ‘‘دوڑتے دیکھ کر ایک طرف ہمارے کان بجنے لگے:
میری جھانجر چھن چھن چھنکے ، چھنکارا جاوے گلی گلی
میری جُگنی چم چم چمکے ، چمکارا جاوے گلی گلی
اور دوسری اور اپنے ’’بڑے پہائی‘‘ کا چھکڑا، بزرگوارم چیئرمین سلیمان خان کا پھٹپھٹا اور بھگت کبیر کی کاربے طرح یاد آ گئے۔ اس عجیب الخلقت مخلوق میں کوئی بھی سیلف اسٹارٹ نہیں تھا ، سب ’’دھکے جوگے‘‘ تھے۔ یوں توکسی کا بھی سائلنسر سالم نہیں تھا لیکن سب سے زیادہ واویلا چیئر مین صاحب کا پھٹپھٹا مچاتا تھا۔(اسی کی ہمدمی کا اعجاز تھا کہ چئیر مین صاحب کو جلسہ عام میں بھی لاوٗڈ اسپیکر کی محتاجی نہیں رہتی تھی۔ بڑے سے بڑے مجمعے کا ’’تراہ‘‘ نکالنے والے پھپھڑے اور دل گردے رکھتے تھے) ۔ پھٹپھٹا سویرے ، پھجڑ سے پرے ہورنہ میرہ میں دھکا اسٹارٹ ہوتا تو بھینسیں اور بھیںسوں والیاں پوٹھی پدّر سے بڈالی نکّر تک سنگلیں،باگیں ،گلاں، کِلّے کھونٹے تڑوا کر بے سمت بھاگ نکلتیں ۔ (اس تقریب میں اکثر گھر والے کانوں تک خوش ہوہو لیتے لیکن دوپہر تک ادھر اُدھر منہ ماری کے بعد ہر دو طرح کی بھگوڑیاں باجماعت اپنے اپنے استھان کھُرلی پر لوٹ آ تیں ۔ پھر وہی راگ ، وہی ’راڑ‘، وہی ڈاہڈ)۔
بڑے پہائی کا ٹرک پھجڑ اور پِڑکوٹ کی چڑھائی ’’ہلّے جَلّے‘‘ بغیراور بھگت کبیر کی کار پتھر گِیٹے ، دھکّے مُکّے سوا نہیں چڑھ پاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہر دو مقاماتِ آہ و فغاں پر مقرّرہ اوقات میں درجن بھر رضاکار ’’دھکّا شاہی‘‘ اور شاہ سواری کے لئے موجود رہتے تھے۔ یوں فریقین کا بھرم رہ جاتا تھا۔ (رہنے کو اور بھی بہت کچھ رہ جاتا تھا، جیسے پڑوسی کا پوُلا، سواری کا ’’توڑا‘‘ اور طالب علم کا جھولا۔ لیکن قدم قدم ایمرجنسی نہ ہو تو راولاکوٹ کی سڑکیں راولاکوٹ کی سڑکیں کیونکر کہلائیں) ۔ ہمارا نیک خیال تو یہ ہے کہ راولاکوٹ کی شاہرات کو دیکھ کر ہی شاعر نے کہا تھا:
انہی پتھروں پر چل کر آسکو تو آوٗ
ہمیں یاد نہیں کہ عزیزی پہاپولے کے علاوہ یادوں کی الماری میں پائی جانے والی مخلوق ( چودہ اُنّی وغیرہ) بھی دھکّا اسٹارٹ تھی یا نہیں ۔ لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ راولاکوٹ کی زندگی تھی ہی اُترائی (بلکہ اولوکاہی) میں پارک ۔ جب تلک پہیّے کے آگے سے بٹّا نہ ہٹتا ، پہیّہ چکّہ جام رہتا۔۔۔۔۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ اور پھر زمین اسقدر زور سے ہلی کہ خود تہہ و بالا ہو گئی۔ چنانچہ زلزلہ کے بعد گُل محمد حرکت میں آئے۔ اور اب ہمہ اطراف چمچماتی سواریاں ہی سواریاں ہیں ۔ چودہ اُنّی ،پہاپولہ ٹرانسپورٹ، سردار سلیمان خان کا پھٹپھتا، دُگّولے کا موٹرسائیکل ، اُستاد چِھکّے کا ریڑا،حمید کامران کا ’’رشکہ‘‘، بڑے پہائی کا چھکڑا ، ادّھے کی لال پری (سوزوکی)،پورے کی چھمک چھلّو(فورڈ ویگن) ،اُستاد سیالے کی لاڈلی گُل بہاراور بھگت کبیر کی کارہی نہیں اپنے نِکّولے کی ’’میڈم رِینگولی‘‘اور نخولے کی اے جے کے ۴۲۰ بھی قصّہ پارینہ ہو گئی ۔ اب سڑک کنارے کجا گہل کے وسط میں بھی ’’بوراں‘‘ اور’’ساوی‘‘ کی جگہ ’’ٹوٹا‘‘ اور ’’چہوسُکّی‘‘کھڑی ’’نِکّی سِکّی‘‘ کر تی پائی جاتی ہیں :
’’نی میرا مالک ڈاہڈا کنجوس بندہ ہے، موم لیل کی جغہ تارے مِیرے کا تیل پلاتا ہے۔ ربّ کی پناہ ! پیٹ میں بھانبڑ بھخنے لگتے ہیں ،آندریں لوسنے لگتی ہیں ۔ لیکن میں بھی کچھ گھٹ کمینی نہیں ہوں، وہ دھواں چھوڑتی ہوں کہ اوانڈی گوانڈی بھی مجھ پر( بے ٹکٹے ) سوار نہیں ہوتے۔۔۔۔۔‘‘
’’میرا خصم کھوجہ کون سا گھٹ ہے۔۔۔۔۔‘‘دوسری کہتی ہے’’نی بھابیئے ! کاغذ پتر کے بغیر دبّی رکھتا ہے۔ بہت ہوا تو جمعرات کے جمعرات بھائی پاس والے سارجنٹ سے ہاتھ ملا کر کانپی کی دستی منظوری لے لیتا ہے۔ وہ جنے کا پُترایسی مہر لگاتا ہے جو پارے ٹہاکے والے اندھے موڑ سے بھی صاف پڑھی جاتی ہے۔ ۔۔۔۔ ’’چل جان دیس اُستاد‘‘
ابھی تو ’’شڑکو شڑک‘‘ہم ’’ہاڑیاں والے موڑ‘‘تک بھی نہیں پہنچے ، جہاں سےاصل رونق میلہ شروع ہوتا ہے ۔ اور ہم ٹھہرے ’’شوکن میلےدے‘‘۔ لیکن میلے میں پھنس گئے تو گئے کام سے ۔ چنانچہ نسیم سلیمان کے ایک جملے پر اپنا ’’بیان‘‘ ختم کرتے ہیں:
’’ اور یہ طویل اور تھکا دینے والا ’’پہاپولہ ٹرانسپورٹ‘‘سے ۵ اگست ۱۹۹۹کو شروع ہونے والا سفر پورے ۹ سال ۱۰ ماہ ۱۳ دن بعد ۷ جولائی ۲۰۰۹ کو اختتام پذیر ہوا۔۔۔۔‘‘
’’یادوں کی الماری‘‘یادوں کے انبارسے ’’مونہومونہہ‘‘ بھری پڑی ہے۔ نسیم سلیمان خاتون ہیں ،اور خاتون بھی سلیقہ شعار ۔ ورنہ ایک سو ساٹھ صفحات کی چھوٹی سی الماری میں اس قدر بکھرا اور بپھرا ہوا ’’سمیان‘‘ سمودینا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پوری الماری کو کھولا ہے نہ پھرولاہے۔ ہمیں بکھرے ہوئے سامان اور خیالات کو تہہ لگانا نہیں آتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply