چار شادیاں اور پاکستانی مرد۔۔مرزا یاسین بیگ

اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دےکر مسلمان مردوں کو بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ ایک طرف چار بیویوں کا لالچ جس کے آسرے میں کئی  عورتوں کی محبت بھری نظریں ہر وقت دل پر تیر چلاتی رہتی ہیں ۔ ان کو بھی مایوس کرنے سے ایک ندامت سی رہتی ہے ۔ ضمیر کچوکے دیتا ہے کہ ہائے کس قدر اخلاص “بھری بھری” کو مایوس کررہا ہوں ۔
دوسری جانب اسلام کی اسی پیشکش کی وجہ سے بیوی آخر دم تک اس شک میں مبتلا رہتی ہے کہ کہیں شوہر دوسری شادی نہ کرلے ۔ اس ایک شک کی وجہ سے میاں بیوی کے حلال تعلقات کا نوے فیصد حصہ حرام بنا رہتا ہے ۔ بیویاں اپنا پیار آٹھ بچوں پر نچھاور کردیتی ہیں اور شوہر بازار میں بیوی کی شاپنگ کے دوران اپنی ہونے والی دیگر شرعی بیویوں کو گھورتا رہ جاتا ہے ۔

اسلام کی رو سے اگلی تین شادیوں کیلئے صرف “شیوخ” ہی پورا ُاترتے ہیں ۔ گھر کے اندر ہی تیل کے دو کنوئیں ہیں تو 4 کیا 400 بیویاں بھی پھسل پھسل کر “آرام گاہ مردانہ” میں آجاتی ہیں ۔ شیوخ کو ایک اور آسانی بھی ہے کسی بھی نمبر والی بیوی کے ساتھ ہوں کوئی  اور بیوی سامنے سے گزرجائے تو سر کا عمامہ چند گھڑی کیلئے منہ پر کھینچ لیتے ہیں ۔ بیوی اور مصیبت دونوں پاس سے گزرجاتی ہے اور آپ کا کچھ بھی بیکا نہیں ہوتا ۔

اصل مصیبت پاکستانی مردوں کی ہے ۔ جب تک حرام کی کمائی  کو منہ نہ لگالیں دوسری بیوی حلال ہونے کو تیار نہیں ہوتی ۔ مصیبت یہ ہے کہ شہباز شریف جیسا بیویاں پال مسلمان مرد پاکستان میں لاکھوں میں ایک پیدا ہوتا ہے ۔ غریب شوہر دوسری شادی تو دور کی بات ہے دوسری محبوبہ بھی دریافت نہیں کرپاتا ۔ یہی وجہ ہے کہ صرف سالیوں سے فلرٹ کرکے دل بہلالیتا ہے ۔

میرے ایک دوست کہتے ہیں “میں وہ بدنصیب ہوں کہ تین سالیاں ہیں اور تینوں میری بیوی سے کم از کم دس سال بڑی ۔ سامنے بیٹھوں تو ماں جیسی فیلنگز آتی ہیں ۔ ان میں سے ایک سالی کے شوہر کٹر پردہ دار ہیں ۔ اپنی بیوی کو چادر میں اس طرح ڈھانپ کر لاتے ہیں کہ اگر چادر سفید ہو تو کفن کا گمان ہوتا ہے اور میری بیوی یعنی اپنی چھوٹی سالی سے یوں گفتگو فرماتے ہیں جیسے وہ آدھی نہیں 80 فیصد ان کی گھر والی ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری شادی کیلئے ایک فطری بےحیائی  , چٹخارے دار زبان اور عیاری کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دوسری شادی کی جانب کچھ عورتوں کی طبیعت بلوغت کی سند جاری ہوتے ہی مائل ہوجاتی ہے ۔ وہ آؤ دیکھتی ہیں نہ تاؤ کسی بھی مال دار سے نکاح پر راضی ہوجاتی ہیں ۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ پہلی بیوی جب شوہر کے ارمانوں کا کچھ نہ بگاڑسکی تو میرا کیا بگاڑ لےگی ۔ چنانچہ جسے شادیاں کرنی ہوتی ہیں وہ کرتا چلا جاتا ہے ۔ بس ایک بار اوپننگ ہوجائے چھکے مارنے کا شوق اسے ہر گیند (خیال رہے اس میں her انگریزی والا) پر کھیلنے پر اکساتا رہتا ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply