اخلاقی نفسیات (27) ۔ مشرق کا سفر (الف)/وہاراامباکر

مندرجہ ذیل احوال جوناتھن ہائیٹ کا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“میں اپنی تحقیق کے لئے تین ماہ کے لئے انڈیا میں اڑیسہ گیا۔ میری میزبانی بہت گرمجوشی سے کی گئی۔ ایک خوبصورت اپارٹمنٹ ملا جس میں ایک باورچی اور ذاتی ملازم بھی تھا۔ مقامی یونیورسٹی میں نفسیات کے شعبے سے ایک ریسرچ ٹیم ملی۔ ہماری تحقیق تقدیس کی اخلاقیات پر تھی۔ لیکن جو میں نے سیکھا وہ اس تحقیق سے نہیں بلکہ انڈیا کے اس چھوٹے شہر کے پیچیدہ سماجی نظام میں رہنے سے اور اپنے میزبانوں سے اور ساتھیوں سے گفتگو سے تھا۔
میری کنفیوژن کی وجہ یہ تھی کہ میں ایک نوجوان شخص تھا جس کے نزدیک صحیح اور غلط کے بہت خاص معیار تھے۔ میں امریکہ کے بڑے شہر کی خاص اقدار رکھتا تھا۔ میرے لئے ان کے سوا کچھ اور ناقابلِ قبول تھا۔ جبکہ دوسری طرف اس سفر میں کھلا ذہن بھی رکھنا چاہتا تھا۔ میرے لئے نتیجہ ذہنی خلفشار کی صورت میں نکلا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا میں صرف اپنی اقدار کو ہی درست سمجھنے پر قائم رہوں؟ کیا ان لوگوں کو اپنے سے اخلاقی لحاظ سے کمتر سمجھوں؟ یا شویڈر جیسے سکالرز کی طرح مختلف طرزِ زندگی کو سمجھنے کی جرات پیدا کروں؟ یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔
سائنسدان کے لئے کسی کو سمجھنے کے لئے اپنے ذاتی معیار، مرضی، پسند و ناپسند کی عینک اتار کر مشاہدہ کرنا ضروری ہے۔ لیکن مجھے احساس ہوا کہ یہ کرنا کس قدر مشکل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جن لوگوں کے ساتھ کھانا کھاتا، ان کی بیویاں خاموشی سے کھانا میز پر رکھ جاتیں اور مجھ سے کوئی بات نہ کرتیں۔ مجھے بتایا گیا کہ ملازمین سے سنجیدہ رہیں اور ہنسی مذاق نہ کریں۔ میں نے لوگوں کو واضح طور پر گندے پانی میں نہاتے دیکھا جس کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔ میں جس سوسائٹی میں تھا، یہاں صنفی علیحدگی تھی۔ سماجی رتبے تھے۔ یہاں پر کٹر مذہبی سوچ تھی۔ اور میرے لئے اپنا ذہن کھولنا مشکل تھا۔
اس سب سے مانوس ہوتے چند ہفتے لگے۔ یہ اچھے لوگ تھے اور میں انہیں پسند کرتا تھا۔ لوگ میرے ساتھ مہربان تھے اور جب آپ لوگوں کے شکرگزار ہوں تو پھر ان کی نظر سے دیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ میرا ذہنی ہاتھی ان کی طرف جھک رہا تھا اور اب میں ان کے حق میں آرگومنٹ سوچ سکتا تھا۔ ان کو ظالم سماج کے طور پر دیکھنا اور یہاں کے “مظلومین” پر ترس کھانے والی سوچ کی لہر غائب ہو گئی تھی۔ میں اب ایک الگ اخلاقی دنیا دیکھ رہا تھا جس میں معاشرے کی اکائی فرد نہیں بلکہ خاندان ہے۔ اور اس خاندان کے لوگ (ملازمین سمیت) ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ میری دنیا کے برعکس اس دنیا میں برابری اور شخصی آزادی مقدس اقدار نہیں تھیں۔ خداوں، بزرگوں اور مہمانوں کا احترام، زیردستوں کی حفاظت اور اپنے کردار کے فرائض ادا کرنا زیادہ اہم تھا۔
میں نے کمیونیٹی کی اخلاقیات کے بارے میں پڑھا تو تھا۔ لیکن اب پہلی بار اسے محسوس کر رہا تھا۔ میں ایسے اخلاقی ضابطے کی خوبصورتی محسوس کر سکتا تھا جس میں ذمہ داری پر زور تھا۔ بڑوں کا احترام تھا۔ گروپ کے لئے خدمت تھی اور اپنی ذاتی خواہشات کی نفی تھی۔
میں اس کے بدصورتی والے پہلو بھی دیکھ سکتا تھا۔ طاقت کئی بار غلط استعمال ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہ یہاں پر زیردست، خاص طور پر خواتین، کو کئی بار بزرگ مرد و خواتین کی طرف سے ان کی خواہشات سے بلاجواز روک دیا جاتا ہے۔ لیکن زندگی میں پہلی بار میں اپنے سیکھے گئے اخلاقی ضابطوں سے باہر نکل کر ایک مختلف دنیا کو سمجھ سکتا تھا۔ اور مجھے کئی بار اپنی اخلاقی اقدار خودغرضی پر مبنی لگنے لگیں۔
جب تین ماہ کے بعد میں نے شکاگو واپسی کی پرواز لی تو جہاز میں مجھے اپنے کسی ہم وطن کی آواز سنائی دی۔ “دیکھو، یہ کمپارٹمنٹ میری سیٹ کے اوپر ہے۔ اسے استعمال کرنے کا حق میرا ہے”۔ پہلے یہ عام سا فقرہ لگتا لیکن اب مجھے یہ سن کر جھرجھری آ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن میرے لئے ہونے والی بڑی دریافت اخلاقیات کا ایک اور پہلو تھا جس کا تصور میرے لئے اجنبی تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply