بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔۔چوہدری عامر عباس

گزشتہ ماہ لکشمی چوک کھانا کھانے گیا. لکشمی چوک کیساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں. دنیا نیوز ملازمت کے دوران عموماً کھانا وہیں سے کھایا کرتے. لکشمی چوک سے پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف ایک راستہ آتا ہے اسی راستے پر سینما کے سامنے کاروں کے شو روم سے متصل ایک چائے کا ہوٹل ہے جو چوبیس گھنٹے کُھلا رہتا ہے. چائے انکی بہت کمال کی ہوتی ہے. کھانا کھا کر میں ہمیشہ چائے وہیں آ کر پیتا تھا. لہٰذا اس دن بھی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کیلئے وہاں چلا آیا. دکاندار نے دور سے دیکھ کر پہچان لیا اور پیشہ ورانہ مسکراہٹ کیساتھ خوش آمدید کہتے ہوئے بولا:
“وکیل صاب بڑے دنوں بعد آج راستہ بھولے ہیں. خیر تو ہے”؟
میں نے کہا: “بس یار مصروفیت اس قسم کی رہی کہ ادھر کا چکر ہی نہیں لگا”.
یہ کہہ کر اپنے خیالوں میں گُم ایک کرسی پر آ کر بیٹھ گیا. کچھ دیر بعد ویٹر چائے لے کر آ گیا جو بول چال اور وضع قطع سے پڑھا لکھا لگ رہا تھا. گرما گرم چائے کا آدھا کپ اندر انڈھیل چکا تو ویٹر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا. حال احوال پوچھنے پر بتانے لگا کہ وہ کورونا سے چھ ماہ پہلے یورپ گیا. بہت مشکل سے وہاں ڈھنگ کی نوکری ملی کہ کورونا وبا نے آ لیا. شدید ترین کورونا پابندیوں اور لاک ڈاؤن میں اسکی نوکری جاتی رہی. ایک ڈیڑھ سال تک پوری دنیا شدید مسائل کا شکار رہی. نوکری کے بغیر اسکے لئے یہ دن کسی عذاب سے کم نہ تھے. کئی دنوں تک اس نے چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بار کھانا کھایا. میں نے اس سے پوچھا کہ پھر ان دنوں تم کیا کرتے رہے ہو؟
اس نے پیٹ پر ہاتھ مار کر جواب دیا:
“صاحب جی جو کام مل جاتا تھا اپنا پیٹ بھرنے کی خاطر وہی کر لیتا تھا. میں نے وہ کام بھی کئے جن کا مجھے آج بھی پچھتاوا سا رہتا ہے”.
میں نے پوچھا “مثلاً کس کام کا ملال ہے”؟
کہنے لگا: جہاں میں رہتا تھا وہاں مکمل لاک ڈاؤن تھا. کورونا کے شروع دنوں میں تو عبادت گاہیں بھی بند کر دی گئیں. کچھ عرصہ بعد بالآخر سخت پابندیوں کیساتھ عبادت گاہیں کھول دی گئیں. مجھے ایک دن کوئی کام نہیں مل رہا تھا اس دن ہندوؤں کی ایک عبادت گاہ میں کام کیا جہاں لکڑیاں جلانے اور دیگر کام کئے. اس طرح دو وقت کی روٹی اور چائے میسر آئی. اس سے اگلے مہینے تین دن ایک چرچ میں نوکری کی جہاں سے اتنے پیسے مل گئے کہ ایک ہفتہ روٹی کا بندوبست ہو گیا”.
یہ بتا کر وہ زاروقطار روتے ہوئے کہنے لگا:
” یورپ میں کام سیٹ نہ ہوا. لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد جیسے ہی فلائٹس کھلی میں واپس پاکستان آ گیا. کون کہتا ہے کہ یورپ میں رہنا اور وہاں کمانا آسان ہے. وہاں بہت مشکل ہے، کورونا کے دنوں میں تو خیرات بھی بہت کم ملتی تھی. مجھے فاقے کرنا پڑتے تھے. بھوک کی شدت سے نڈھال ہو جاتا تھا. صاحب جی ہمارا مذہب ہے لیکن اس بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہے. میری بھوک نے ہر قسم کی تمیز مٹا دی. اس پاپی پیٹ کا کوئی مذہب نہیں ہے”.
یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ رونے لگا اسکے آنسو ابل ابل کر باہر آ رہے تھے.
میں نے جیب سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا. اس نے نوٹ پکڑا. کچھ دیر تک نوٹ کو اپنے ہاتھ میں لے کر آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے بغور دیکھتا رہا. پھر چند لمحوں بعد میرا ہاتھ پکڑ کر وہ نوٹ واپس مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگا:
” صاحب جی اب میں بھوکا نہیں ہوں. یہ نوٹ کسی بھوکے کو دیجئے گا تاکہ اس کا پیٹ کافر نہ ہو جائے”.
یہ کہہ کر اس نے میز سے خالی کپ اٹھایا اور چلتا بنا. میں خالی نظروں سے اس پانچ سو کے نوٹ کی طرف دیکھتے ہوئے خود کو کسی اندھیرے کنویں میں گرتا ہوا محسوس کر رہا تھا.

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply