• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پروفیسر نثار احمد صدیقی (مرحوم) : ایک سادہ لوح انسان اور عظیم استاد۔۔۔راشد حسین شاہ

پروفیسر نثار احمد صدیقی (مرحوم) : ایک سادہ لوح انسان اور عظیم استاد۔۔۔راشد حسین شاہ

رات آدھی سے زیادہ بیت چکی ہے مگر آج نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے، بارہا آنکھوں میں پروفیسر نثار احمد صدیقی صاحب کا ہنستا مسکراتا چہرہ اور عاجزی سے بھرپور شخصیت ہی نظر آتی ہے۔ خبر ملی کہ پروفیسر نثار احمد صدیقی، بانی اور وائس چانسلر IBA SUKKUR انتقال فرماگئے ہیں ( انا للہ وانا الیہ راجعون )

یہ سطور تحریر کرتے ہوئے یقین نہیں آرہا اور ہمت نہیں پڑ رہی کہ میں ڈاکٹر نثار صدیقی کے بارے میں “مرحوم ” کا لفظ استعمال کروں۔

سندھ دھرتی کو ہمیشہ سے یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس نے بارہا ایسے سپوتوں کو جنم دیا ہے کہ جنہوں نے اس پاک دھرتی کی آبیاری کی ہے، اپنے خون سے اسے سینچا اور پروان چڑھایا ہے۔پروفیسر صاحب کا شمار ان چیدہ چیدہ اساتذہ کرام میں ہوتا ہے جنہوں نے علم کی ترویج کے لئے بےتحاشا قربانیاں دی ہیں،    وہ اپنی ذات کو بھی پس پشت ڈال کر صرف علم کے فروغ کیلئے زندگی بھرکوشاں رہے۔

اگر میں چند سطور میں پروفیسر صدیقی صاحب کی  بابت کچھ تحریر کرنے کی جسارت کروں تو یہ  انتہائی زیادتی والی بات ہوگی، کیونکہ وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جو ہمہ وقت استاد بھی، دوست بھی، علم کا سپاہی بھی، غریبوں کا خیال رکھنے والا بھی، اور سب سے بڑھ کر ایک شفیق میزبان اور مہمان نواز اللہ کا عاجز بندہ تھا۔

آج میں پروفیسر صاحب کی مہمان نوازی کا ایک واقعہ آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا جس کا عینی شاہد یہ ادنی سا راقم خود ہے۔

پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں سوشل سائنسز کے شعبے میں تحقیق کا بیڑہ اٹھانے والے جن اساتذہ کرام کا نام آتا ہے ان میں پروفیسر صدیقی سرفہرست ہیں۔ یہ سال 2013 کی بات ہے، میں لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں بطور پروفیسر اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا، ایک 2 روزہ سالانہ کانفرنس ICOBM (انٹرنیشنل کانفرنس آف بزنس مینجمنٹ ) کے نام سے پچھلے چند سالوں سے منعقد کی جارہی تھی، جس کے روح رواں پروفیسر ڈاکٹر حسن صہیب مراد (مرحوم ) تھے اور صف اول کے سپاہیوں میں پروفیسر نثار احمد صدیقی بھی شامل تھے۔

چونکہ میں تدریس کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ایک تحقیقاتی مرکز CENTIN ( Center For Entrepreneurship and Innovation ) کے ڈائریکٹر کا چارج بھی سنبھالے ہوئے تھا ، لہٰذا ICOBM سالانہ کانفرنس (جو کہ ہر سال پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں منعقد ہوتی تھی، اور اس دفعہ پروفیسر نثار صدیقی صاحب کی خاص درخواست پر IBA SUKKUR میں منعقد ہورہی تھی) کیلئے مجھے بطور خاص پروفیسر ڈاکٹر حسن صہیب مراد (مرحوم ) کی جانب سے چند انتظامی امور کی اضافی ذمہ داری بھی تفویض کی گئی تھی جس میں لاہور سے ایک وفد کی تشکیل اور سفری انتظامات سے لے کر رہائشی اور دوسرے تمام امور کا بندوبست کرنا تھا۔ لاہور سے جانے والے وفد میں مختلف شعبہ جات کے اساتذہ اور طلباء و طالبات بھی شامل تھے۔

چونکہ ہمارا وفد اساتذہ کے ساتھ ساتھ طلباء و طالبات پر بھی مشتمل تھا اور ہم لاہور جیسے بڑے شہر سے ایک نسبتاً چھوٹے شہر سکھر کو جارہے تھے، لہٰذا کسی قسم کی بھی انجانی اور ناگہانی صورتحال کے لئے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرچکے تھے، کہ شاید ہمیں لاہور جیسی رہائش اور دوسری سہولیات سکھر جیسے چھوٹے شہر میں میسر نہ آسکیں ۔

مختصراً کانفرنس کو یادگار بنانے کیلئے فیصلہ کیا گیا کہ ہوائی جہاز کے بجائے بذریعہ ٹرین (بزنس ایکسپریس ) کے سفر کیا جائے، مگر اس میں سب سے بڑی  مشکل یہ تھی کہ ٹرین کی سکھر آمد کا وقت رات ایک بجے کے قریب تھا۔ اس سارے منصوبے میں دو بڑی رکاوٹیں تھیں، پہلی تو پروفیسر ڈاکٹر حسن صہیب مراد (مرحوم ) کو اس بات پر راضی کرنا کہ سفر ہوائی جہاز پر نہیں بلکہ ٹرین پر کرنے کی آرزو ہے اور دوسری یہ کہ پروفیسر نثار صدیقی صاحب کو کسی طرح سے مطلع کروں کہ آپ کے مہمان رات کے پہر میں آپ کے دروازے پر دستک دینے کو پر تول رہے ہیں،چونکہ میرے پروفیسر ڈاکٹر حسن صہیب مراد (مرحوم ) سےقریبی اور دوستانہ تعلقات تھے اور وہ مجھ سے انتہائی شفقت والے معاملات فرماتے تھے، لہٰذا وہ آسانی سے میری بات مان گئے مگر اس شرط کے ساتھ کہ پہلے ڈاکٹر نیاز صدیقی صاحب سے اس بات کی اجازت لی جائے، وجہ کچھ اور نہیں بلکہ صرف ٹرین کی سکھر بے وقت آمد تھی۔ چار و ناچار آخر بات تو کرنا تھی، لہٰذا ایک ای میل کے ذریعے پروفیسر صدیقی صاحب کو مطلع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور تمام ساتھیوں کو اس بات سے بھی آگاہ کردیا کہ بصورت انکار ہمیں ہوائی جہاز پر ہی جانا ہوگا۔

چونکہ میری اس سے پہلے پروفیسر صدیقی صاحب سے کوئی ملاقات نہ رہ چکی تھی اور نہ ہی میں کچھ خاص ان کی شخصیت کے بارے میں جانتا تھا، لہٰذا ایک اندیشہ یہ بھی تھا کہ معلوم نہیں کیسا جواب دیں، برعکس اس کے پروفیسر صدیقی صاحب کا جواب انتہائی پرتپاک انداز میں موصول ہوا۔ اور یوں ہم خوشی خوشی لاہور سے سکھر کی جانب بذریعہ ٹرین روانہ ہوگئے۔

رات 1 بجے سکھر پہنچنے پر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ پروفیسر نثار صدیقی صاحب کی خاص ہدایت پر IBA SUKKUR کے سینئر اساتذہ کا ایک گروہ باقاعدہ ہمارے استقبال کے لئے وہاں پہلے سے موجود تھا ۔ نہ صرف یہ بلکہ پروفیسر صدیقی صاحب نے اپنی ذاتی گاڑی  بھی ریلوے اسٹیشن بھجوائی  تاکہ ہمیں کسی قسم کی کوئی بھی تکلیف نہ ہو ۔ مزید براں یہ اساتذہ کرام اپنی ذاتی گاڑیوں میں سوار ہمیں باقاعدہ پولیس کے اضافی پروٹوکول کے ساتھ رات کے اس پہر بحفاظت سکھر میں پہلے سے ہمارے لئے مختص رہائش گاہ پر لے گئے۔

اگلا دھچکا ہمارے اندیشوں کو اس وقت لگا جب ہمیں سکھر میں ہماری رہائش پر پہنچایا گیا، یہ ایک پُر شکوہ عمارت تھی ، جسے انتہائی نفاست اور ذوق کے ساتھ سجایا ہوا تھا اور جو ہر طرح کی آسائش سے مزین تھی۔ ابھی ہم اپنے آپ میں اپنی ہی سوچ پر شرمندگی محسوس کر رہے تھے کہ ہم کیا سمجھ رہے تھے سکھر آنے سے پہلے اور یہاں تو معاملات بالکل ہی ہماری توقعات کے برعکس نکل رہے ہیں۔ ابھی انہی سوچوں میں غلطاں تھے کہ پروفیسر صدیقی صاحب کا فون آگیا اور وہ ہماری خیریت طلب کرنے لگے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے سٹاف کو ہمارے ہر طرح سے خیال رکھنے کی تلقین بھی کرتے جاتے۔۔۔

اگلے دن علی الصبح وقت مقررہ پر ہمیں ہماری رہائش گاہ سے IBA SUKKUR لے جانے کے لئے دوبارہ سے گاڑیوں کا ایک قافلہ موجود تھا۔ یونیورسٹی پہنچنے پر ہمیں پہلی دفعہ بنفس نفیس پروفیسر نثار صدیقی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

انتہائی دھیما مزاج، عاجزی اور انکساری سے بھرپور ، ہر قسم کی ذاتی نمود و نمائش سے مبرا، شفقت بھرا لہجہ اور پرخلوص انداز گفتگو۔ پروفیسر نیاز صدیقی صاحب کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ اگلے دو روز کس طرح گزرے احساس ہی نہ ہو پایا، کانفرنس کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ وہ ہمیں اپنی یونیورسٹی کے ہر شعبہ کے بارے میں بھی آگاہ کرتے جاتے اور یہ کہ کسی طرح سے انہوں نےاس نسبتاً چھوٹے اور دوسرے معاشی سرگرمیوں سے کٹے ہوئے شہرمیں ایک ایک اینٹ کو جوڑ کر سب کے ساتھ شانہ بشانہ مل کر ایک مضبوط اور پر شکوہ علمی درس گاہ کی بنیاد رکھی – جس کا شمار بلاشبہ آج ملک کی صف اول کی تعلیمی درسگاہوں میں ہوتا ہے ۔

میرے ایک سوال کے جواب میں کہ، آخر آپ نے سکھر ہی کو اپنا مسکن کیوں بنایا، باوجود اپنی تمام تر علمی قابلیت، تجربے اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک اعلی پائے کے استاد اور منتظم ہونے کے؟

پروفیسر صدیقی صاحب نے انتہائی جذباتیت سے کہا ” یہاں بہت غربت ہے، بیچارے لوگ پیٹ بھر کر کھانے کو بھی ترستے ہیں، ایسے میں ان کے لئے تعلیم کا حصول ایک خواب سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔۔۔ مگر یہ محنتی لوگ ہیں اور علم بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کا بھی زندگی کو ایک اچھے ڈھنگ سے گزارنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ میرا اور آپ کا” ۔ یہ کہتے ہوئے پروفیسر صدیقی صاحب کچھ آبدیدہ بھی ہوگئے۔۔۔

“بس یہی سوچ کر میں نے یہاں اپنا ڈیرہ ڈال لیا تھا اور آج تک یہیں ہوں اور شاید زندگی بھر یہیں رہوں گا “۔

کانفرنس کے اختتام پر پروفیسر نثار صدیقی صاحب نے ڈاکٹر حسن صہیب مراد ( مرحوم ) سے درخواست کی کہ وہ ہمیں مزید ایک روز سکھر میں اپنا مہمان بنا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ہمیں سکھر کی تاریخی اور دوسرے اہم مقامات کی سیر کرواسکیں، ان کی اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے ہم لوگ مزید ایک روز سکھر میں قیام پذیر ہوئے۔ اس دوران سندھ کے روائتی کھانے، سکھر کا تاریخی بیراج، دریائے سندھ کی کشتی پر سیر اور دریا کے بیچوں بیچ سب سے قدیم مندر کا دورہ بھی شامل رہا۔۔۔

اگلے روز ہماری واپسی کا سفر پروفیسر صدیقی صاحب سے اس وعدے کے ساتھ شروع ہوا کہ ہم دوبارہ انہیں مہمان نوازی کا موقع دیں گے۔ ہماری واپسی کے لئے بھی ہر طرح کا خیال رکھا گیا تھا اور پروفیسر صاحب کا ذاتی عملہ ہمیں ریلوے اسٹیشن تک الوداع کرنے آیا۔

وقت گزرتا گیا اور ہم اپنی زندگی میں ایسے مگن ہوئے کہ پروفیسر نثار احمد صدیقی صاحب سے کیا گیا وعدہ بھی وفا نہ کرسکے۔

آج بہت شدت سے پروفیسر صدیقی یاد آئے اور یوں محسوس ہوا جیسے کہہ رہے ہوں کہ ” دیکھ لو میں تو اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اپنی بنائی ہوئی درسگاہ میں اپنے مہمانوں کا انتظار کرتا رہا، تم ہی نہ آئے”۔۔۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ پروفیسر نثار احمد صدیقی (مرحوم ) کے درجات بلند کرے، ان سے رحم والے معاملات فرمائے، ان کی غلطیوں سے درگزر فرمائے اور انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے ( آمین )

“ہزاروں برس نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا”

Facebook Comments

راشد حسین شاہ
راشد حسین شاہ پچھلے 15 برس سے یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں. آپ کی معاشرتی امور پر اک گہری اور طائرانہ نظر ہے. آپ کی تحریروں میں جہاں سنجیدگی اور متانت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے وہیں آپ معاشرتی مسآئل کو انتہائ ہلکے پھلکے انداز میں قارئین کے گوشگزار کرتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply