• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک خط اپنے والد مرحوم کے نام (اپنے بیٹے کی پندرہویں سالگرہ پر)۔۔محمد وقاص رشید

ایک خط اپنے والد مرحوم کے نام (اپنے بیٹے کی پندرہویں سالگرہ پر)۔۔محمد وقاص رشید

پیارے بابا!
امید اور دعا کہ آپ جنت میں ہونگے۔۔کہ وہاں خدا کا ذوق رکھنے والے ہی جا سکیں گے،اور آپ ازل کے باذوق۔(آمین)
آج 17 مارچ ہے۔ یہ دن میری زندگی کا اہم ترین دن ہے۔ آج سے 15 سال پہلے ۔۔17 مارچ 2007 کو میری ماں نے میری آغوش میں جب ایک روح کو لا کر رکھا۔ مجھ سے پیدا ہو کر میری ہی تکمیل کرتے ایک جسم کو مجھے سونپا تو ایک لمحے کے لیے تخیل زمان و مکاں کی قید سے آزاد تصورات کی دنیا میں کھو گیا۔ تب سے ٹھیک دو سال پہلے آپ اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ مجھے اس لمحے تک صرف یہ پتا تھا کہ “باپ سراں دے تاج محمد” لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ کیسے۔ میرے سینے میں دل نے وہ دھڑکنیں وقت سے مستعار لے لیں جب مجھے کسی نے آپ کی آغوش میں لا کر رکھا ہو گا۔۔ میں چشمِ تصور سے تشکر کی وہ مسکراہٹ اپنے چہرے پر لانے لگا جو مجھے پا کر آپ کے چہرے پر آئی ہو گی۔ کیا لمحہ تھا۔ کیا جادو تھا ان کیفیات میں ۔ کیا طلسم تھا ان احساسات میں کہ جس میں میں ایک باپ بن گیا۔۔میں آپ بن گیا۔۔ہاں وہ لمحہ آپ کے سنگ بیتے یادگار بچپن کی تجدید ہو گیا۔۔۔ میں وقاص سے رشید ہو گیا۔۔ اپنی گود میں لیٹے اپنی جانب پہلی نگاہ ڈالتے بیٹے کی آنکھوں سے خود کو دیکھنے لگا۔ اس کے بعد سے آج تک خود کو نگاہوں سے آزاد نہ کر پایا۔ یہ اولاد اور باپ کے رشتے کا فیض ہے۔ اس لیے اسکا نام محمد فیضان رشید ہے۔
عجیب پُر کیف لمحہ تھا بابا۔ جیسے خزاں رسیدہ چمن میں پیامِ بہار آتا ہے جیسے دہکتے صحرا میں یکسر برکھا رت آ جاتی ہے۔ جیسے اندھا کرتی تیرگی میں ایک دیپ تاباں ہو جائے۔ جیسے بیمار جبیں کو دوا نہیں کسی کے دستِ الفت کا انتظار ہو اور وہ میسر آ جائے۔ جیسے کوئی سہانہ خواب تعبیر ہو جائے۔ جیسے تصور تصویر ہو جائے۔
عجیب عالم ہے بابا۔ اسکے بعد سے آج تک یہی معلوم نہیں پڑتا کہ اسکے ساتھ محبت سے کس کی تسکین ہوتی ہے۔ میرے اندر کے آپ کی۔۔ایک باپ کی۔۔ یا اسکے باطن کے احساس کی وقاص کی۔۔لیکن محبت انسانیت کا فیضان ہے۔ اس لیے ہر انسان کی تسکین ضروری ہے۔ ہر فیضان کی تسکین ضروری ہے۔
زندگی ایک صنم خانہ ہے۔ ضرورت کے بتوں کے سامنے یہاں لوگ سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ جفا کی عبادت بڑی دقت آمیز ہوتی ہے۔ آپ نے غربت میں اپنے کردار کا الم تھامے رکھا۔ اسی کو بطورِ ترکہ ہمیں عطا کیا۔ سلام پیش کرتا ہوں آپ کو عالی مقام!
میں کیا میری بساط کیا اوقات کیا۔ جب اپنے فیضان کو ہر صورت میں اس کردار ہی کو دستار بنا کر سر پر اٹھائے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ جب اقدار کو ایمان بنانے کی تربیت دیتا ہوں۔ لیکن وہ ایمان جو ظاہری تشہیر کی بجائے باطنی تطہیر کا ذریعہ ہو تو دل کو یقین ہو جاتا ہے کہ آپ گئے نہیں کہ آپ جیسے لوگ جانے کے لیے نہیں آتے بابا۔۔۔
بابا ایک تھیوری میں نے پیش کی سوشل میڈیا پر کہ ماں باپ بننے سے پہلے انسان کو سماج کے اس سب سے بڑے انسانی عہدے کے لیے تیار ہونا چاہیے اور میری نظر میں سب سے بڑی تیاری یہ ہے اور یہی میری تھیوری بھی ہے کہ ہر انسان کو اسکے ماں باپ کی طرف سے گھر کے تربیتی ماحول میں مثبت چیزیں بھی ملتی ہیں اور منفی بھی۔ خود ماں یا باپ بنتے وقت اسکا یہ فرض بنتا ہے کہ یہ ٹھان لے کہ مثبت چیزیں مزید بہتر بنا کر اپنی اولاد کو پیش کرے گا اور منفی چیزوں کو وہیں دفن کر دے گا۔ یہ سماج نسل در نسل چلتی برائیوں سے اسی صورت نکل کر ایک بہتر انسانی جائے پناہ بن سکتا ہے۔۔
بس بابا پھر وہ دن اور آج کا دن۔ ان پندرہ سالوں میں اسکی زندگی کا ہر دور مجھ سے ہو کر گزرا۔ میں اسکے بچپن میں اسکو لوریاں سنا کر سلاتا۔ اپنی سائیکل کے پیچھے اسکی ٹرائی سائیکل رکھ کر اسے خواب نگر ملکوال کے ریلوے اسٹیشن پر جاتا۔ اسکے ساتھ گھر میں کرکٹ کھیلتا۔ اسکے پیارے پھپھو زادوں اپنے بیٹوں حسیب اور معید کے ساتھ ریلوے کیبن پر فٹبال کھیلتا۔ مرشد جان وہ جو آپ کہا کرتے تھے کہ بخار ہے تو کیا ہوا کیا سر باندھ کے پڑے ہوئے ہو۔ آج اسے کسی زیادہ تکلیف کو بھی صبر سے برداشت کرتا دیکھ کر میں کہاں کہاں سے نہیں ہو آتا ایک لحظے میں۔
وہ جو آپ مزہبی سماجی اور عائلی ہر معاملے میں تعقل پسندی کے قائل تھے۔ علمیت و منطق کے سفیر تھے۔ اندھی تقلید سے دور رہتے اور ہمیں رکھتے تھے۔ آج اسے اس جزباتیت سے دور دیکھتا ہوں (جس سے میں خود بروقت نہ ہو سکا) تو بڑا اطمینان ہوتا ہے۔
آپ نے ہماری ایک ہی بڑی بہن ایک عظیم خاتون کو گھر کا وی آئی پی بنا کر آج میری بیٹی کو اسکا حق وراثت میں دے دیا دعائیں دیتی ہے آپ کو۔ بننا چاہتی ہے اپنی پھپھو کی طرح یعنی آپ کی طرح بابا۔
چھوٹے چھوٹے اسٹیشنز جیسے ہریا ،ڈنگہ ،چالیسا ، پنڈ دادنخان سے لے کر خواب نگر ملکوال کے اسٹیشن تک آپکی حق حلال کی کمائی کا ایک ایک دانہ خدا کے فضل سے نہ جانے کتنے گنا ہو کر ایک فیضان کی صورت فیضان تلک پہنچا۔ زندگی میں یہ احسان آپکا اتار نہیں سکتا بابا
اسکا سکول شروع ہوا تو گویا میں سکول ہی داخل ہو گیا دوبارہ۔ ایک بہت ہی دلچسپ بات کہ اس بچے نے ہوش کی آنکھ کھولی تو مجھے گھر کے تکنیکی کام کاج میں دیکھا۔ کہیں ڈرل مشین چلاتے کہیں تیسی کانڈی پکڑے کہیں لکڑی کا کام کرتے تو پہلا کام یا کھیل جو اس نے شروع کیا وہ ماچس کی ایک تیلی پکڑ کر دیوار میں ڈرل مشین کی طرح سوراخ کرتے ہوئے منہ سے آواز نکالنا تھا اور وہاں سے اسکے سفر کا آغاز آج ماشاللہ موٹر سائیکل اور گاڑی تک کی “مکینکی” تلک پہنچ چکا۔
بس کیا بتاؤں بابا۔ جب وہ آیا تو اسکے بعد وقت کو یوں پر لگے کہ ڈیڑھ دہائی کا پتا ہی نہیں چلا۔ اس عرصے میں سچ یہی ہے کہ آپکے فیضان یعنی فیضان رشید کے سوا کچھ نہیں کیا۔ خود کو اور زمانے کو اسکی ننھی آنکھوں سے دیکھا۔ اسکی خوشیاں میری مسرت ہوئیں ، اسکی کامرانیاں میری سرخروئی ، اسکا فخر میرا تشکر بنا ، اسکا دکھ، میرا درد۔
میں نے اپنی تھیوری کے مطابق اسکو وہاں وہاں سنائی دیا جہاں جہاں آپکو سننا چاہتا تھا۔ وہاں وہاں دکھائی دیا جہاں آپ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اور تب تب دستیاب رہا جب جب آپکا غیاب محسوس کرتا تھا۔ میرا لفظ لفظ میرا حرف حرف ریلوے کوارٹر کی اس الماری میں سجی آپکی کتابوں کہ نام کہ فیضان کو انہی کا فیضان حاصل ہوا۔۔
بس اب انتظار ہے امید ہے اور دعا کہ وہ سماج میں جائے تو یہ نظر آئے کہ آپ جیسے نظریاتی لوگ مرتے نہیں زندہ رہتے ہیں۔۔نسل در نسل جاوداں۔۔۔ رشید سے فیضان رشید تک۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply