• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ادبی تخلیقات میں نفسیات کا عمل/ ڈاکٹر خالد سہیل سے ارباب قلم کینیڈا کے ادبی چہاردرویشوں کا زوم پر مکالمہ(دوسرا،آخری حصّہ)

ادبی تخلیقات میں نفسیات کا عمل/ ڈاکٹر خالد سہیل سے ارباب قلم کینیڈا کے ادبی چہاردرویشوں کا زوم پر مکالمہ(دوسرا،آخری حصّہ)

فیصل عظیم
نفسیاتی پیچیدگی اگر تخلیقیت میں معاون ہوتی ہے تو اس کا حل ہونا کیا تخلیقی اپچ کو متاثر کر سکتا ہے۔؟

خالد سہیل۔
یہ بھی دلچسپ سوال ہے اس کی ایک مثال ورجینیا وولف تھیں دوسری مثال ساقی فاروقی تھے ان کے علاوہ اور بھی شاعر اور ادیب ہیں جنہوں نے اپنے نفسیاتی مسائل کا حل تلاش نہیں کیا نہ ہی کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کیا۔ وہ اس مفروضے پر یقین رکھتے تھےکہ اگر ان کی کرئٹیویٹی کا تعلق نفسیاتی مسائل سے ہے تواگر ان کے مسائل حل ہوگئے تو پھر تو ان کی تخلیقیت بھی متاثر ہو جائے گی۔

میں اس موقف سے متفق نہیں ہوں کیونکہ پاگل پن سائکوسس اور شایزوفرینیا کا شکار انسان بعض اوقات بہت دور نکل جاتا ہے جیسے ورجینیا وولف اور سلویا پلیتھ نے خودکشی کر لی۔ تھیراپی کرئٹیویٹی کی بے ترتیبی پریشان خیالی کو فوکس عطا کرتی ہے اس کو ایک ادبی محدب عدسہ مہیا کرتی ہے۔ میں نے بہت سے شاعروں ادیبوں اور دانشوروں کی تھراپی کے زریعے مدد کی ہے اور وہ تھیریپی کے بعد بہتر ادیب شاعر اور دانشور بنے۔

فائزہ عامر
مجھے ایسے لگتا ہے کہ جن بچوں کی تھنکنگ کنورجنٹ ہوتی ہیں وہ کرئٹیو یا ڈائیورجنٹ مائنڈد بچوں کی نسبت عملی طور پر کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ ان کا فوکس بہتر ہوتا ہے۔ ڈائیورجنٹ مائنڈد بچے کی صلاحیتوں کو چینلائز chanalize کرنا والدین کے لئے زیادہ چیلنجنگ ہوتا ہے ۔ اس پر روشنی ڈالیں۔

خالد سہیل
میری نظر میں سوسائٹی کے دو حصے ہیں۔ ایک روائتی اکثریت جو روزمرہ کے کام کرتی ہے جیسے دفتر میں سیکرٹری چاہیے جو نارمل روٹین کو قائم رکھے۔روائتی لوگ بہت پرڈکٹیو کام کرتے ہیں وہ سوسائٹی کی اقدار کو انفرادی اور اجتماعی طور پر توازن میں رکھتے ہیں۔ جیسے کہ لوگ پڑھتے ہیں ، جاب کرتے ہیں ،شادی کرتے ہیں ، بچے پیدا کرتے ہیں۔یہ مڈل کلاس ویلیوز ہیں۔

کرئٹیو مائینوریٹی ان مڈل کلاس ویلیوز کو نہیں مانتی۔ وہ زندگی میں ایک نیا عنصر نیا رنگ نئی تحریک چاہتی ہے۔ استاد اور والدین کا کام ہے باغی بچے کی بغاوت کو مثبت مقصد کی طرف لے جانا ۔ اسے تعمیری سرگرمیوں کے مواقع مہیا کرنا تاکہ وہ تخریبی نہ ہو جائیں۔ ڈائیورجنٹ  تھنکنگ والے افراد کو بھی چاہیے کہ پہلے وہ روایت کو سمجھیں بعد میں نیا پن پیدا کریں۔ ادب ہو افسانہ ہو یا زندگی کے مسائل والدین ، بزرگوں اور اساتذہ کو انہیں بہتر راہنمائی مہیا کرنی چاہیے تاکہ بچے خود آگاہ ہو سکیں۔ جیسے کہ میرے خاندان میں جب میں سائنس کی بات کرتا تھا میرے والد صاحب خود راہنمائی فرماتے تھے جب میں ادب سے متعلق کچھ پوچھنا چاہتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ اس کا جواب آپ کو آپ کے شاعر چچا بہتر دیں گے کیونکہ وہ  ادب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ہاں آپس میں عزت کا رشتہ تھا ۔ وہ اس معاملے میں مجھے ان کے پاس بھیجا کرتے تھے۔ بچوں کے پاس جتنے رول ماڈل زیادہ ہوں ان کی تربیت اور نشونما میں بہتری ہوتی ہے۔

سکندر ابو لخیر
کیا تخلیق کار کی تخلیق سے اس کی اپنی نفسیاتی کیفیت کا اندازہ یا تشخیص ہو سکتی ہے؟

خالد سہیل
آپ نے بہت محنت اور ریاضت سے سوال تیار کئے ہیں۔میں سمجھتا ہوں صرف شاعر اور ادیب کا شعر ہی نہیں بلکہ کسی بھی انسان کا طرز زندگی اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہ کس طرح کے کپڑے پہنتا ہے ۔کس طرح کی گفتگو کرتا ہے۔ اس کی گفتگو میں کتنی شائستگی ہے ، وہ کتنا تہذیب یافتہ ہے یہ سب اس کی نفسیات کو ظاہر کرتے ہیں مجھے ڈاکٹر ڈینس آئزک یاد آگئے میں نے ان جیسامہذب انسان  اپنی پوری زندگی میں کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔وہ بہت ہی ویل راونڈڈ شخصیت تھے۔
اگر شاعر لکھنوی مزاج کا ہے تو اس کی شاعری میں الفاظ کی نشست و برخواست پر زور ہوگا۔ مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں
؎ رہے ان کے بہانے ہی بہانے
بہانے ہی بہانے مارڈالا
یا
دل لگاؤ تو لگاؤ دل سے دل
دل لگی ہی دل لگی اچھی نہیں
ان اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر کا سارا زور الفاظ کی تراکیب کی بندش اور چستی پر ہے جب کہ آپ غالب کو پڑھتے ہیں  تو اور بھی بہت کچھ ملتا ہے۔ غالب کہتے ہیں
؎ عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
اب عاشقی صبر طلب تمنا بے تاب صرف مصرعہ ہی نہیں اس میں انہوں نے پوری محبت کی نفسیات کو کھول کے رکھ دیا ہے یا جب وہ کہتے ہیں کہ
؎ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن  پھر بھی کم نکلے
ان میں ایک گہرائی ہے، دانائی ہے، زندگی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ میں سمجھتا ہوں جو ادیب  کی تخلیق ہے۔ اس کے دوحصے  ہیں پہلا حصہ تفریح طبع اور ENTERTAINMENT کے لیے اور دوسرا حصہ بصیرت ENLIGHTENMENT کی روشنی پھیلانے کے لیے ، یعنی زندگی کے مسائل حل کرنے کی طرف جاتا ہے جسے ہم ادب عالیہ کہتے ہیں۔  میں سمجھتا ہوں تخلیق سے تخلیق کار کی نفسیات شخصیت اور ماحول جو اس پر اثر انداز ہوتا ہے ، اس کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

حسین حیدر صاحب
ہم اپنی تخلیق کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، مشاعروں میں جاتے ہیں ، کتابیں تقسیم کرتے ہیں۔ تشہیر کی نفسیاتی توجیہہ کیا ہے۔؟ نفسیات میں  تخلیق کی تشہیر  کا کیا درجہ ہے؟

ڈاکٹر خالد سہیل
شکریہ ۔ یہ سوال ادبی ، نفسیاتی اور سماجی طور پر اہم سوال ہے۔
جب ہم کرئٹیو لوگوں کی بات کرتے ہیں  تو میں ان کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک کیٹگری  میں سائنسدان ڈاکٹر اور انجئنیر شامل ہیں، وہ بھی تخلیق کار ہیں۔ بہت سے سائنٹسٹ لیبارٹری میں پہروں منہمک رہتے ہیں، اسی طرح صوفی ہیں وہ اپنی ذات کا تزکیہ کرتے ہیں۔ ان کا مسئلہ تشہیر نہیں ہوتا۔
تخلیق کاروں کے دو مسئلے ہیں
ایک مسئلہ ان کا ہے جو علم حاصل کرتے ہیں چونکہ علم کے خمیر میں کچھ  تکبر ہے۔ اسی لیے کئی عالم متکبر ہو جاتے ہیں
دوسرا مسئلہ فنکاروں کا ہے۔ فنون لطیفہ کے خمیر میں کچھ نرگسیت ہے۔اس لیے کچھ فنکار نرگسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
وہ شخص  جس نے کچھ تخلیق کیا وہ چاہے گا اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔ مگر نفسیات دان ہونے کے حوالے سے میں یہ کہوں گا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ تخلیق کار ذہنی بلوغت کی کس سطح پر ہے جیسے کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں وہ فیس بک پر کچھ لگاتے ہیں، کوئی پیج بناتے ہیں یا آرٹیکل لکھتے ہیں پھر یہ چاہتے ہیں کہ ان کے سب دوست اسے لائک کریں اگر کوئی کمنٹ نہ کرے یا لائک نہ کرے تو وہ ناراض ہو جاتے ہیں میں سمجھتا ہوں یہ نفسیات کی زبان میں سیلف ایسٹیم کے ایشوزکہلاتے ہیں۔
اسٹیم کے دوحصے ہیں سیلف ایسٹیم  جو آپ خود کریئٹ  کرتے ہیں اور other esteem جو دوسروں  کی مدح سرائی اور واہ واہ سے ہوتی ہے  جن کی  سیلف ایسٹیم کم ہے وہ باہر کی اسٹیم سے اسے مکمل کرتے ہیں۔  یہ خود اعتمادی اور غیر اعتمادی  میں ایک تعلق ہے۔ میں نے اپنی بیٹی ایڈریانہ سے پوچھا  کہ بیٹی وہ لوگ جو بار بار لائک مانگتے ہیں ان کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے وہ بھی سوشل ورکر بن رہی ہے، تو اس کا انگریزی کا جملہ ہے
‏These people are  desperate for self esteem. میں سمجھتا ہوں کہ ادیب اگر بڑا ہے اور اسےاپنے فن پر اعتماد ہے تو وہ ایک سطح پر مدح سرائی سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اس لئے غالب نے کہا تھا
؎ نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی
جیسے جیسے فنکار فن کی پختگی کو چھو لیتا ہے وہ ان چیزوں سے ماورا ہوتا جاتا ہے۔ یہ میری  عاجزانہ درویشانہ اور طالب علمانہ رائے ہے۔

احمد رضوان
ادب کی جو بنیادی تعلیم ہے اس کے ساتھ ساتھ فلسفہ اور نفسیات کے علوم سے بہرہ مندی کسی بھی ادیب کی تخلیق کو سمجھنے میں کتنا کردار ادا کرتی ہے۔؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے اگر ہم مقابلہ میر و غالب کریں تو میر کی آشفتہ سری ان کی تخلیق اور ادبیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

خالد سہیل
بہت بہت شکریہ آپ نے اشارے جس جانب کئے میں اس سے متفق ہوں اگر ہم میر کی مثال لیں تو میر ایک زمانے میں جسے ہم سائکو سس ، بریک ڈاؤن یا عرف عام میں پاگل پن کہتے ہیں۔ اگر ہم علی سردار جعفری کی کتابیں پڑھیں تو انہوں نے میر کے بارے میں ایک جملہ لکھ دیا کہ
“آٹھ ماہ تک میر تقی میر زندانی و زنجیری ہو گئے۔”
یہ ان کے الفاظ ہیں۔ میر تقی میر کو کمرے میں زنجیروں سے باندھ دیا گیا کیونکہ جب وہ باہر جاتے تھے تو بچے ان پر پتھر مارتے تھے۔ جیسے کہ غالب نے کہا تھا کہ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
میر کو دیوانگی کے اس دور میں چاند میں ایک عورت دکھائی دیتی تھی۔ ان پر بیماری کا یہ دورہ ایک سال تک رہا۔ اس کے دو اثرات ان کی ذات پر مرتب ہوئے منفی اثر تو یہ پڑا کہ  اس  کی وجہ سے وہ مردم بیزار ہو گئے ۔ ایسے لوگ خود کو خاص لوگوں تک محدود کر لیتے ہیں جن کا کوئی ادبی قد ہو۔ مگر ساتھ ساتھ اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ اس کرئٹیویٹی کو انہوں نے اپنی  شاعری میں استعمال کیا۔ اس کرئٹیویٹی کو فرائیڈ کی زبان میں  سبلیمیشن کہتے ہیں، تو جو بڑا شاعر ہے وہ اپنے مسائل کو raw material کے طور پر استعمال کر کے ادب عالیہ تخلیق کر سکتا ہے ۔

ورجینیا وولف بھی کہتی تھیں کہ جب میں پاگل پن کا شکار ہوتی ہوں تو میرے دماغ کے وہ حصے کھل جاتے ہیں جو عام حالت میں استعمال نہیں ہوتے۔ اس کیفیت میں انسان لاشعور کی ان گہرائیوں تک پہنچ جاتے ہیں جو ایک ریشنل مائنڈ نہیں پہنچ سکتا۔ سوال یہ ہے کہ وہ جو ذہنی مسائل کا تجربہ ہے نارمل حالت میں فنکار اس کا اظہار کس صلاحیت ، کس قابلیت کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ اس کا تعلق آپ کے سوال کے پہلے حصے سے ہے۔ وہ ادیب  شاعر جو صرف شاعری ہی نہیں پڑھتے بلکہ وہ ادب فلسفہ اور جدید علوم حاصل کرتے اور جذب کرتے ہیں تاکہ وہ ہمہ جہت شخصیت بن سکیں ۔ جیسے کہ ہمارے دور میں اس کی مثال ابوالکلام آزاد کی ہوگی ۔ وہ قرآن کی تفسیر بھی لکھتے تھے۔ ادب عالیہ بھی تخلیق کرتے تھے۔ سیاست بھی کرتے تھے طب اور فلسفہ پہ بھی ان کو عبور تھا۔ایجوکیشن کے منسٹر بھی تھے۔ایسے دانشور RENAISSANCE MAN کہلاتے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں  یہ جدید دور جو سپیشلائزئشن کا دور ہے وہ mixed blessing ہے، انسان کو تخصص ایک لحاظ سے محدود کر دیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے ذہن اور دل کے دروازے کھلے رکھنے چاہییں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا

‏Human minds are like parashoots  they work only when they are open.
جب آپ کا ذہن کشادہ ہو تو آپ زندگی کے ہر مسئلے سے کچھ سیکھتے ہیں۔۔شخصیت کی نشونما تخلیقیت سے جڑی ہوتی ہے جیسے ہمارے عہد کے ہیرو مشتاق احمد یوسفی ہیں۔ وہ صرف مزاح نگار ہی نہیں بلکہ ایک فلاسفر ایک دانشور ایک ریفارمر بھی ہیں۔ ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو تھے۔کوئی شک نہیں کہ مزاح ان کا بہت ہی جاندار پہلو ہے۔ ان سے پہلے شوکت تھانوی کنہیا لال کپور تھے، ان کے مقابلے میں ان کی زبان، سماجی مسائل کا اظہار کتنا لطیف ہے۔شخصیت کی نشونما تخلیقیت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ ریاض اور محنت سے اسے چار چاند لگ جاتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ

جنید صاحب۔
میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ یہ فنکار اور لکھنے والے جو ہوتے ہیں یہ امید کا استعارہ ہوتے ہیں ۔ یہ زندگی کے روشن پہلو دکھاتے ہیں مگر بعض اوقات خود مایوسی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ خود کشی تک کر لیتے ہیں۔اس کی وجہ کیا اندرونی دباؤ ہے؟ کیا تخلیقی اظہار میں کمی اس کی وجہ بنتی ہے؟

خالد سہیل۔
یہ کافی سنجیدہ سوال ہے ۔ یہ درست ہے کہ اکثر شاعر اور ادیب جو ہیں وہ سماج کو زندگی کی مثبت اقدار کی طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک اور پہلو ہے۔ اگر آپ یورپ کی فلاسفی کو پڑھیں تو پتہ چلے گا کہ جب پہلی اور پھر دوسری جنگ عظیم ہوئی  اس کے بعد لوگوں کا امید اور آشتی پر سے ایمان متزلزل ہو گیا۔ یہ سوچ بنی کہ ہمیں زندگی میں  جو اذیت ہے ،جو دکھ ہے جو تاریک پہلو ہےاس کو تسلیم کرنا چاہیے ۔
اس کی مثال وہ جرنلسٹ  ہیں جو جنگ یا قحط کے علاقے کو کور کرنا چاہتے ہیں ، چاہے وہ بنگلہ دیش ہو افریقہ ہو گلف وار ہو۔ کیون کوسٹر نیشنل جیوگرافک کی طرف سے بطور فوٹو گرافر افریقہ جاتا ہے، اس کی بس جا رہی تھی، اس نے دیکھا کہ ایک گدھ ایک  بچے کے مرنے کا انتظار کر رہا ہے کہ وہ مرے گا تو میں اس کو کھا جاؤں گا اور کیون کوسٹر انتظار کر رہا ہے کہ میں یہ تصویر لوں کیونکہ اس کی بس جارہی تھی تو اس نے وہ تصویر لے لی۔جب وہ شائع ہوئی تو وہ مقبول ترین تصویر تھی ۔ اس وقت کی حقیقت حال کی ظالم عکا سی تھی۔ لیکن ایک اجنبی نے لکھ دیا کہ میں اس تصویر میں ایک نہیں دو گدھ دیکھ رہا ہوں۔ اس خط کو پڑھنے کے بعد کیون کاسٹر نے خود کشی کر لی۔ احساس جرم یہ تھا کہ میں نے گدھ کو نہیں اڑایا اور اس بچے کی جان نہیں پچا پایا، میرا خیال ہے کہ کیون کے ذہن میں ہو گا کہ افریقہ میں تو دس لاکھ بچے ہیں جو مر رہے ہیں ۔ میں کس کس کو بچا پاؤں گا مگر بعد میں  اس نےخود کشی کر لی۔ بعض اوقات زندگی کے تاریک پہلو اتنے قریب  سے دیکھنے کا یہ نتیجہ ہو تا ہے کہ سب کچھ برداشت کرنا ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔
زندگی کے مثبت اور منفی پہلوؤں میں توازن رکھنا بہت ہی نازک کام ہے۔

فیصل عظیم
سوال یہ ہے کہ کسی ادبی تخلیق کی تنقید میں اس کے متن کی تحلیل نفسی کے لئے کن جزئیات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے؟

خالد سہیل
جب ہم کسی تخلیق کو پڑھتے ہیں ، جج کرتے ہیں یا تنقیدی رائے دیتے ہیں تو میں اسے دو حوالوں سے دیکھتا ہوں۔ ایک حوالہ تو یہ ہے کہ اس ادیب اور شاعر کی تخلیق جو ادب کے معیار ہیں ادب کی جو روایت ہے یا کسوٹی ہے اس کے معیار پر کتنا پورا اترتی ہے۔
دوسرا حوالہ یہ ہے کہ  اس ادیب کا آدرش کیا ہے زندگی اور معاشرے کا جو معیار ہے اس پر وہ تخلیق کتنا پورا اترتی ہیں ۔
بعض تخلیقات ادب کے معیار پر تو پورا اترتی ہیں مگر وہ زندگی کے معیار پر پورا نہیں اترتی  ہیں۔ یہ جاننا اہم ہے کہ وہ تخلیقات انسانیت اور سماج کو  مثبت پیغام دے رہی ہیں یا منفی
نقاد کے لئے ادب پارے کو جانچنے کے لئے ایک بڑا عالم ہونا ضروری ہے جو اسے زندگی اور زبان کی روایت سے الگ الگ پرکھ سکے۔ بڑے نقاد میں بھی تخلیقیت کا ہونا ضروری ہے۔

انور کاظمی صاحب
ڈاکٹر صاحب میرا سوال یہ ہے کہ آپ اردو ادب میں چلنے والی تحریکوں کو سوشیو سائکالوجیکل تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟

خالد سہیل
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اردو ادب میں جو تحریکیں تھیں بدقسمتی سے وہ باہر کی تحریکوں کا چربہ زیادہ تھیں۔ وہ اندر سے نہیں پیدا ہوئیں۔ دو مثالیں آپ کو دیتا ہوں جو ترقی پسند تحریک تھی، حالانکہ میں ان کی تخلیقات سے متاثر ہوں۔ میں کرشن چندر، علی سردار جعفری، اور فیض ان کی تخلیقات کا مداح ہوں۔لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ شاعر اور ادیب روس کی  کمیونسٹ تحریک کے زیر اثر تھے۔ ادب کو انہوں نے سماجی تبدیلی کے لئے استعمال کیا۔ سماجی تبدیلی کے حوالے سے یہ ایک اچھی تحریک ہے لیکن میں سمجھتا ہوں  کہ ادب کا اپنا ایک جداگانہ معیار ہے۔ اس کے مقابلے میں جو جدیدیت کی تحریک تھی۔ جس میں وزیر آغا، مظہر الاسلام، اور انور سجاد تھے۔ یہ یورپ کی ماڈرنسٹ تحریک سے زیادہ متاثر ہوئے جس میں ایزرا پاؤنڈ ’ ٹی ایس ایلیٹ’جیمز جوئیس اور دوسرے بہت سے جدیدیت پسند ادیب شامل تھے۔
ایک ادب برائے ادب ہے دوسرا ادب برائے زندگی ہے۔
اس کا مثبت پہلو یہ تھا کہ جدیدیت نے ہم پر زبان اور ادب کے وہ راز منکشف کئے جن سے ہم پہلے واقف نہیں تھے۔  اسی طرح جو ترقی پسند تحریک تھی اس سے ہم نے سیکھا کہ ادب سماج میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ادب عالیہ میں تخلیقیت سماجیات اور نفسیات کا ایک بڑا نازک توازن ہوتا ہے۔

کرشن چندر کے کچھ افسانے ہیں جن میں سیاسی بیانات زیادہ ہیں ، افسانے کی اپنی شرائط ہیں ، شاعری کے اپنے تقاضے ، میرے چچا جان کہا کرتے تھے شعر تتلی کے پر کی طرح نازک ہے اگر ہم تتلی کے پروں پر فلسفے کا بوجھ ڈالتے ہیں تو تتلی کا پر مسل سکتا ہے۔ ادب عالیہ ہمیں سماجی نفسیات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ غالب اپنے دور کے نمائندہ شاعر تھے اسی طرح قرہ العین حیدر اپنے دور کی نمائندہ ناول نگارتھیں، جیسے فیض نے یہ کمال کیا کہ روائتی ترقی پسند تحریک کی جو رومانوی رات تھی اسے سیاسی رات بنا دیا۔ رومانوی محبت کو سیاسی محبت میں بدل دیا۔ ایک بڑا آدرش دیا۔میں سمجھتا ہوں تخلیقات نہ صرف فرد کی بلکہ سماج کی اور اس پورے دور کی نفسیات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں مگر اسے سمجھنے کے لئے بھی بصیرت کی ضرورت ہے۔ جیسے کہ میرا خیال ہے ہم ابھی تک غالب کی بصیرت  کو آدھا بھی نہیں جان پائے۔ میں ان کے اشعار پڑھ پڑھ کے زندگی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

فیصل عظیم
سکندر بھائی کا سوال ہے کہ کیا تخلیق کار ہونے کے لئےدماغی خلل ضروری ہے؟
خالد سہیل۔
مجھے اس سوال میں کچھ ادبی شرارت بھی لگتی ہے(مسکراتے ہوئے)
اعلیٰ ادب تخلیق کرنے کے لیے دماغی خلل ضروری نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ بعض شاعروں ادیبوں اور دانشوروں کو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ آئسنگ آن دی کیک ہے۔ یہاں ہم خلل ایک غیر روائتی سوچ کو کہہ رہے ہیں۔ جو غیر روائتی ادیب ہے اس کا چیلنج بڑا ہے ۔ وہ زبان کو تخلیقی طور پر استعمال کرتا ہے جس سے ہمیں نئی بصیرت ملتی ہے۔ اگر خلل پاگل پن کو کہہ رہے ہیں تو وہ بہت پریشان کن اور تکلیف دہ ہے  اگر استعاراتی طور پر کہہ رہے ہیں تو وہ آرٹسٹ کو مدد دیتی ہے۔

دعا عظیمی
کیا ہر بڑا آرٹسٹ اپنی زندگی کے کسی نہ کسی فیز میں نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتا ہے؟

خالد سہیل
جب ہم نفسیات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں پچھلے پچاس برس میں  یہ پتہ چلا کہ ہمارا ایک دماغ نہیں ہے ہمارے دو دماغ ہیں ۔ ہمارا ایک لیفٹ برین ہے ۔دوسرا رائئٹ برین ہے ، ان کے درمیان ایک بریج ہے جس کو ہم corpus callosum  کہتے ہیں۔ عام حالات میں روائتی زندگی میں ہم لیفٹ برین زیادہ استعمال کرتے ہیں جیسے گاڑی کیسے پارک کرنی ہے اگر برف یا بارش زیادہ ہوگئی تو اس مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے۔ روزمرہ کے عام مسائل کے لئے یہی ذہن زیادہ استعمال ہوتا ہے۔معاشی سماجی یا ازدواجی مسائل کو حل کرنے کے لیے لیفٹ برین کام کرتا ہے
جب ہم رائئٹ برین کی بات کرتے ہیں تو اس کا تعلق تخلیقیت، روحانیت اور دیوانگی سے ہے۔
right brain deals with creativity, insanity and spirituality
آرٹسٹ کا زیادہ تعلق رائئٹ برین سے ہوتا ہے۔ اگر ان کی شخصیت متوازن ہے تو  ان کو اپنے فن میں کامیابی ہو گی۔ اگر وہ دباؤ کا شکار رہتے ہیں  تو پھر ان کا تعلق اینزائٹی ڈپریشن اور دیوانگی سے زیادہ ہے
اپنے آپ کو جاننا ضروری ہے اپنا ذہنی اور ادبی توازن قائم رکھنا انسان کی انفرادی اور سماجی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
جنید صاحب
سلیم جہانگیر صاحب کا سوال ہے
کووڈ نے جہاں سب کچھ بدل دیا ہے وہیں ادبی محافل کا انداز بھی بدل دیا۔آن لائن تحریک ادب کی ترویج اور مقبولیت پر کس طرح اثر انداز ہو گی؟

خالد سہیل
کووڈ وبا کا نقصان تو یہ ہے کہ جو لائئو انٹرایکشن ہوتا تھا کم ہو گیا ہے۔ ایک دوسرے سے ملنے کی جو سماجی اور نفسیاتی افادیت اور معنویت تھی وہ تو آئیڈیل ہے مگر وہ تو ہم نے کھو دی مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ  زوم کی وجہ سے اس کا کینوس وسیع ہو گیا۔ ہم اپنے اپنے کمروں میں بیٹھ کر  مشرق اور مغرب شمال اور جنوب کے شعر اور ادیب سب ایک دوسرے سے انسپائر ہو سکتے ہیں۔۔ میں اس بارے میں پرامید ہوں کہ اس سے ادب کے افق پر نئے امکانات  روشن ہوں گے۔

انور کاظمی صاحب
ایک سوال کارل ینگ نے قلم کار کو کو لیکٹیو مین collective manسے تشبیہہ دی ہے اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے اور اردو ادب میں اس لیول پر آپ کن لکھاریوں کو دیکھتے ہیں۔.؟

خالد سہیل
اس سوال کو جاننے کے لئے  یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سگمنڈ فرائڈ نے کہا کہ ایک انسان کا شعور ہے ایک تحت الشعور ہے ایک لاشعور ہے اور اس کا جو انفرادی لاشعور ہے اس کا دارومدار بچپن اور جوانی کی زندگی اور نفسیاتی مسائل پر ہے۔ کارل ینگ نے کہا کہ انسان کا ایک انفرادی لاشعور ہے اور ایک اجتماعی لاشعوربھی ہے جسے وہ collective unconscious کہتا تھا۔  وہ کہتا تھا جو پوری انسانی تاریخ کے جو دیومالائی ادب ہے، آج سے ہزاروں سال پہلے کی پینٹنگز جو مختلف چٹانوں پر نقش تھیں ۔ وہ سب سوچ فکر  انسانی شخصیت کا حصہ بنتا رہتا ہے۔جوں جوں ادیب ایک بڑا ادیب بنتا ہے تو وہ صرف اپنے ذاتی مسائل کا اظہار نہیں  کر رہا ہوتا بلکہ وہ اپنے خاندان اپنے معاشرے، اس دور کی پوری انسانیت کے مسائل کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ عام ادیب ایسا نہیں کر سکتے۔ ہر دور میں کچھ ادیب کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جیسے شیکسپئیر ہوگئے، پینٹگز بنانے والوں میں پکا سو ہیں۔ اردو ادب میں۔ ہماری قرت العین حیدر  کا ناول آگ کا دریا۔ اس کی پوری پیچیدگیوں اور باریکیوں کو سمجھنا ایک مشکل کام ہے۔ کلیکٹیو مین کا اظہار بہت مشکل ہے ۔ اسے لکھنا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ سمجھنا کیونکہ اسے ادب کے زندگی کے ایک خاص  سطح پر جا کر اسے لکھنا اور سمجھنا ہوتا ہے جیسے کہ سدھارتا کو سمجھنا بھی اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ اسے لکھنا رہا ہو گا۔۔
علامہ محمد اقبال سے گو مجھے نظریاتی اختلاف ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ ایک بڑے شاعر تھے ، اردو ادب میں  اردو شاعری میں اردو نظم میں ایسے جدید تصورات، ایسے استعارے، ایسے الفاظ استعمال کئے جو نہ صرف نئے تھے بلکہ بڑے پر حکمت ، پر مغز اور دانائی سے بھرے ہوئے تھے۔  یہ شعر دیکھیے
؎ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کرگس  کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
میں اس کو بڑا شعر سمجھتا ہوں، انہوں نے مشرق اور مغرب کے علوم کو جذب کیا۔ نطشے کو پڑھا، رومی کو پڑھا۔ یہی بات آپ کو بو علی سینا میں ملے گی، جب میں ایران گیا تو ان کے مزار کے سامنے میرا کلینک تھا۔ ان کی کتاب CANON OF MEDICINE  پانچ سات سو سال نصاب  میں پڑھائی جاتی رہی کیونکہ اس کتاب میں  چینی میڈیسن، رومی میڈیسن، یورپ کی میڈیسن سمو دئے گئے تھے۔
جیسے ایک درخت  پورےجنگل سے،
ایک قطرہ سمندر سے اور
ایک انسان پوری انسانیت سے جڑا ہوتا ہے۔ کلیکٹیو مین ایک بڑا آدمی ہوتا ہےوہ شخص ایک قطرے کے اندر سمندر دیکھ لیتا ہے محسوس کرتا ہے۔ اور اس کا تخلیقی اظہار کرتا ہے۔ یہ ایک بڑے کینوس کا سوال ہے۔

وقار انیس صاحب
تخلیقی ذہنوں میں جو گروہ بندی اور معرکہ آرائی ہوتی ہے ، اس کی کیا نفسیاتی وجوہات ہوتی ہیں اور کیا اس سے ادب کو نقصان نہیں پہنچتا؟

خالد سہیل
وقار انیس صاحب  یہ ایک بدقسمتی کی بات ہے وہ ادیب اور شاعر جس کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر پورا اعتبار نہیں اسے خاص گروپ کی ضرورت ہوتی ہے جیسے  کوئی کہے کہ میں ترقی پسند شاعر ہوں، میں شیعہ شاعر ہوں رنگ نسل زبان فرقہ مسلک  یا گروہ کا سہارا لینے والا فری تھنکنر نہیں ہوتا، سچ جہاں بھی ہو وہ قبول کرتا ہے۔ گروہی سوچ رکھنے والا محدود ہو جاتا ہے، بلکہ ادبی مولوی بن جاتا ہے۔ آئیڈیل تو یہی ہے کہ انسان اس گروہی سوچ سے آگے بڑھ جائے، بڑے آدرش کو لے کر چلے تاکہ  ادب کے زریعے ارتقا کا سفر جاری رہے

انور کاظمی صاحب
آپ کا ہی ایک جملہ کوٹ کر رہا ہوں آپ نے کہا ہے کہ
” تجربہ بڑا ہوتا ہےالفاظ چھوٹے ہوتے ہیں ۔”
ادب کی تخلیق کے لئے الفاظ تو ضروری ہیں  ادب کی تخلیق کے تجربات میں سمونے کی جو دشواری ہے اس پر کیسے قابو پایا جائے۔؟

خالد سہیل
آپ نے اچھا نکتہ نکالا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں جیسے آج کے اس پروگرام کا تجربہ چہار درویشوں کے ساتھ بہت ہی قیمتی اور بھر پور تھا اب سوال یہ ہے کہ اگر میں کسی ایسے شخص کو جس نے آج کی محفل اٹینڈ نہیں کی اسے یہ بتانا چاہوں کہ آج کی محفل کا تجربہ کیسا تھا تو میں اس تجربے کا صرف دس فیصد حصہ بتا پاؤں گا۔  لیکن اگر اس  تجربےکو بڑھانا ہو تو جو بڑا ادیب ہے جو بڑا دانشور ہے وہ الفاظ کا تخلیقی اظہار کر رہا ہوتا ہے تووہ کچھ استعارے تلاش کر لیتا ہے۔استعارے سے انفرادی تجربہ ایک اجتماعی تجربہ بن جاتا ہے۔ اس کے امکانات کو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔  جو بنیاد پرست ہیں وہ آسمانی کتابوں کے لغوی معنی پر یقین رکھتے ہیں جب کہ بڑے عالم ان کتابوں کے استعاراتی معانی تلاش کرتے ہیں۔
ادیب اور شاعر اس وقت ایک بڑی جست لگاتے ہیں جب وہ لغوی معنوں سے استعاراتی معنوں کی طرف پرواز کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عارف عبدالمتین کہا کرتے تھے کسی بھی بڑے شاعر اور ادیب کو سمجھنے کے لئے اس کی تخلیقات کے کلیدی استعارے سمجھنے ضروری ہیں۔جیسے   اقبال کو سمجھنے کے لیے شاہین کو سمجھنا ضروری ہے، جو شاعر ادیب اپنے لئے کلیدی استعارے تخلیق کر لیتے ہیں ،جیسے افتخار عارف کا اپنی شاعری کے لئے کربلا کا استعارہ استعمال کرنا اردو ادب میں ایک اضافہ ہے۔
اس انٹرویو کے آخر میں میں چاروں درویشوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھے دعوت دی اور بڑے محنت سے سوال تیار کیے۔ امید ہے میں نے آپ کو مایوس نہیں کیا ہوگا۔
جنید صاحب
بہت اچھی گفتگو رہی
سفر طویل سہی گفتگو مزے کی رہی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply