پھرایک دن آئے گا۔۔قمر رحیم خان

ایک دن آئے گا جو کالی راتوں سے الجھے بغیر انہیں الوداع کہے گا۔ایک دن آئے گا جب سورج کی گرمی لوٹنا شروع ہو جائے گی۔ جب ٹمپریچر منفی سے اوپر اٹھ جائے گا۔ جب برف پگھلنا شروع ہو جائے گی اور جب سوئی ہوئی زمین جاگنا شروع ہو جائے گی۔ یہ مارچ کا کوئی دن ہوگا۔ جب ٹھنڈی بھُوری زمین کی گود پہ بہار کا پہلا پیلا پھول مسکرائے گا۔چھوٹی چھوٹی پنکھڑیوں والا ننھا زرد پھول ،جس کی خوشبو سے بھیڑوں کے نتھنے پھڑپھڑانے لگیں گے ۔ پھر جب تک گل لالہ کے پودے سر اٹھاتے، بھُوری زمین پہ سبز وال پیپر بچھنا شروع ہو جائے گا۔ اور بھیڑیں دو دو چار چار کی ٹولیوں میں گھاس کے میدانوں کا رخ کریں گی۔ سفید نرم اون والے بھیڑوں کے نرم و نازک خوبصورت بچّے اپنی چھوٹی چھوٹی دُموں کو تیزی سے ہلاتے ہوئے اپنی ماؤں کا دودھ پی رہے ہوں گے۔پھر جب وہ جی بھر کہ پی لیں گے تو ان کے ہونٹوں کے کناروں سے تازہ تازہ پیا ہوا دودھ ٹپک رہا ہو گا اور وہ دنیا جہان کی فکر سے آزاد ہو کر ناچنے کودنے لگیں گے۔

پھر ایک دن آئے گا جب نومولود گل لالہ لڑکپن کی دہلیز پہ پہنچ جائے گا تو ایک خوبصورت کلی سے اس کی تاج پوشی کردی جائے گی۔اس تقریب تاج پوشی میں ہر طرف خوشی کا سماں ہو گا۔سورج ایک بادشاہ کی مانند سب سے اونچے تخت پہ بیٹھا ہوگا ۔ اس کا انداز تمکنت ہر کسی کو یہ جتارہا ہوگا کہ اس خوبصورت تاج والے کی زندگی کے پیچھے اس کے جگر کی گرمی ہے۔ سارے نباتات و جمادات سر اٹھا کر اس کی طرف ، پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے اور پھر مسکرا کر خاموش ہو جائیں گے۔ہوا کو یہ خاموشی اچھی نہیں لگے گی اور وہ باد نسیم کے ایک جھونکے سے اپنے وجود اور اہمیت کا احساس دلا ئے گی۔ سبھی سر ہلا کر اسے خوش آمدید کہیں گے اور ان کے دل ممنونیت سے بھرے ہوں گے۔ زمین بالکل خاموش رہے گی۔ سب کو دیکھتی اور ان کی خوشیوں پر نازاں ہوتی ہوگی۔ وہ اپنی جھولی کو اور بھی پھیلا دے گی اور اس کا دامن وسیع سے وسیع تر ہو جائے گا۔وہ سورج کی طرف ایک نظر دیکھے گی۔ اونچے تخت پہ بیٹھا سورج شرمندہ سا ہوکر پھسلنا شروع ہو جا ئے گا۔رات کو چاند اپنی محفل لگائے گا تو دن بھرکی ساری کارگزاری جگنو اسے سنائیں گے۔وہ حاضرین مجلس کی طرف دیکھے گا تو ہر کسی کا چہرہ اس کا رگزاری پر تپ رہا ہوگا۔ہزاروں،…… کھربوں راتوں سے جاگ جاگ کر وہ زمین اور اہل زمیں کا پہرادے رہے ہیں، ان کی راتوں کو چار چاند لگا رہے ہیں۔مگر پورے فسانے میں ان کا ذکر تک نہیں ہے۔چاند کے چہرے پر مگر ملال نہیں ہے۔ وہ سب کو تسلّی دیتا ہے، غم نہ کرو تمہارے اور میرے بغیر سب کچھ نامکمل ہے۔تم یونہی راتوں کو جاگتے رہو ،کہیں تمہارے سو جانے سے پھولوں کی مہک لٹ نہ جائے اور پھل ذائقوں سے محروم نہ ہو جائیں۔ فطرت کی ہر شے برابر اپنا کام کرتی جائے گی۔ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کلی کے حُسن میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس کے رنگ بکھرتے جائیں گے اور پھر ایک دن آئے گا جب وہ کلی مکمل طور پہ کھل کہ پھول بن جائے گی۔

پھر ایک د ن آئے گا جب کھیتوں میں سرسوں کے پھول کھلیں گے جنہیں شہد کی مکھیاں تنگ کریں گی۔انہی کھیتوں کے کنارے سُنبل کی جھاڑیوں پر بھی پھول کھل اٹھیں گے۔یہ بھی شہد کی مکھیوں اورتتلیوں کے ہوائی حملوں کی زد میں ہوں گے۔ تتلیوں کے پروں کے کینوس ان گنت رنگوں اور نقشوں سے مزیّن ہوں گے۔ جنگلی پھولوں والی جھاڑیوں کے بیچوں بیچ یہ غول در غول اڑ رہی ہوں گی اور ان پھولوں کی خوشبو سے ہوا مست ہو جائے گی۔ اس منظر پر جب شام اترے گی تواسے محسوس ہوگا وہ دنیاپر نہیں جنت پر اتری ہے۔ایسے میں بچوں کی ٹولیاں اپنا ہوم ورک چھوڑ کر اور اپنی ماؤں سے چھپ کر تتلیوں کے پیچھے بھاگتے نظر آئیں گے۔ بچوں کی ہنسی اور شور سن کر جنت کی حوریں اپنے بالا خانوں سے جھانک جھانک کر انہیں دیکھیں گی ۔

پھر ایک دن ایسا آئے گا جب خوبانی، آلوچے، بادام، آڑو اور سیب کے درختوں پر بھی پھول اتر آئیں گے۔پھولوں سے لدے ہوئے درخت رنگ برنگے گلدستوں کی شکل میں دور دور تک پھیلے ہوئے ہوں گے۔ تب وادی دلہن بن جائے گی۔ اس کے لباس پرایسے ایسے رنگوں کی نقاشی ہو گی جنہیں دیکھ کر آنکھ محو حیرت ہو جائے گی۔ اس کے جسم سے ایسی خوشبو پھوٹ رہی ہوگی جوہر ذی روح کومد ہوش کر دے گی۔ہوا کے ساتھ پھولوں کی رنگ برنگی ننھی نرم پتیاں اڑ رہی ہوں گی۔ اور یہ خوشبو اور رنگوں والی ہوا ہر گھر، ہر دریچے پہ دستک دے کر بہار کا سلام پہنچا رہی ہوگی۔

پھر ایک دن آئے گاجب گھرچڑیوں کی چوں چوں سے کچے گھروں کے برآمدے آباد ہو جائیں گے۔نظر نہ آنے والے انڈوں سے بچے نکل آئیں گے۔ جن کے منہ ان کے پیٹوں سے بڑے ہوں گے اور جنہیں بھرتے بھرتے چڑیوں کو رات پڑ جائے گی اور وہ خود بھوکی سو جائیں گی۔ میناؤں کے گھونسلوں پر سانپ حملہ آور ہونے کی کوشش کرے گا جسے محلّے بھر کی ساری مینائیں اکٹھی ہو کر بھگا دیں گی۔ مگر اپریل کی بارشوں میں ان کا ایک آدھ ننگی گردن والابچہ مکان کے پچھواڑے اپنے گھونسلے سے گر کر مر جائے گا۔

پھر ایک دن آئے گا جب ہُد ہُد بھی سر پہ تاج سجائے اور لمبی چونچ لیے پہنچ جائے گا۔ اس کے گیت ایک سماں باندھ دیں گے۔ فاختائیں بھی ان کے پیچھے پیچھے آجائیں گی اور آتے ہی امن کے گیت گانا شروع کر دیں گی۔ امن کے گیت انہیں بہت مہنگے پڑیں گے اور لڑکے بالے ائر گنیں لیے ان کے شکار کو نکل کھڑے ہوں گے۔ عجیب بات ہے نہ کوئی ہُد ہُد کومارتا ہے، نہ میناؤں کو ، نہ گھر چڑیوں کو۔ اس کے بعدککّو آئے گا۔ یہ ایک نایاب پرندہ ہے۔ ککّو کی سحر انگیز آوازسیدھی دل میں اترتی ہے اور دلوں کے سارے تار چھیڑ دیتی ہے۔یہ جب بولتا ہے ،باقی پرندے خاموش ہو کر اسے سنتے ہیں۔ یہ سال میں ایک ہی بار آتا ہے اور بہار میں ہی آتا ہے۔ پورا پورا دن ککوککو کرتا رہتا ہے ۔مگر ایسے سحر کے ساتھ کہ جس سے کوئی بھی بچ نہیں پاتا۔ یہ ہمارے مرے ہوئے لوگوں پر بین کرتا ہے، پردیسیوں کو بلاتا ہے، بچوں کے دل بہلاتا ہے۔ زخموں کو تازہ کرتا ، دکھ سکھ بانٹتا ہے اور پھر سال بھر کے لیے غائب ہوجاتاہے۔

پھر ایک دن آئے گا جب کھیتوں میں ہل جوتے جائیں گے۔ ایک بیل ایک بھائی ، دوسرا دوسرے بھائی کے گھر سے آئے گا۔بیل طویل سردیاں جھیلنے کے بعد دُبلے ہو چکے ہوں گے اور سبز گھاس کو دیکھ کر بہت پرجوش ہوں گے۔ انہیں چرنے کو چھوڑ دیا جائے گا ۔ پھر کچھ دیر بعد ان کے مونہوں پر ‘‘توورے’’(رسّی کے بنے جالے) چڑھا دیے جائیں گے۔تاکہ ہل پر جوتے جانے کے بعدوہ گھاس کی طرف لپکنا چھوڑ کر صرف ہل کھینچنے کاکام انجام دیں۔کسان بسم اللہ کے ساتھ کھیت میں ہل ڈالے گا جس کے ساتھ تخلیق کے اس عمل کا آغاز ہو جائے گا جسے قدرت نے انسان کے اختیار میں دے رکھا ہے۔ یہ عمل زمین پر زندگی کے بقاکا ضامن ہے۔ ہر جاندار اس عمل سے گزر کر زندگی کو آگے بڑھاتا ہے اور فطرت ہر قدم پر اس کی مددکرتی ہے۔مکھیوں، پرندوں اور ہوا کے ذریعے پھولوں کے پولی نیشن کے عمل سے انسان کے نطفے تک……قدرت کس خوبصورت طریقے سے زندگی کے سلسلے کو چلائے ہوئے ہے۔یہ ایک آرٹ ہے جس کا خالق خدا ہے اور جواس آرٹ سے کہیں زیادہ حسین و جمیل ہے۔اور اس نے کسان سے سائنس دان تک ہر انسان کے راستے میں اپنے حسن و جمال کے مظاہر بکھیر رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ اسے پہچان سکتا ہے، اس تک پہنچ سکتا ہے۔زمین پر پہلا ‘‘سیاڑھ’’ لگتے ہی قرب و جوار کے پرندے پہنچ جائیں گے ۔اکثر پرندے زمین سے نکلنے والے کیڑوں کو چونچوں سے پکڑ پکڑ کر کھا رہے ہوں گے، کچھ ہوا میں کسان کے سر پر اپنے پر پھڑپھڑ ا رہے ہوں گے اور کچھ بیلوں کی کمر پر سواری کر رہے ہوں گے۔کم عمر بچے ، جو ابھی سکول نہیں جا رہے، اس سرگرمی سے پوری طرح محظوظ ہو رہے ہوں گے۔ کسان کی ماں ہاتھ میں درانتی لیے منڈیر پر کھڑی ہوگی۔ اچانک اس کی نظر چوزوں کی تلاش میں سرگرداں ایک چیل پر پڑے گی تووہ ‘‘ہُو ہُو ……ہُو……’’ کا شور مچائے گی تاکہ مرغی ہوشیارباش ہوکر اپنے بچوں کو پروں میں چھپا لے اور چیل بھی بھاگ جائے۔ آدھے گھنٹے بعد کسان ہل روک کر بیلوں کو کھول دے گا اور ساتھ ہی ان کا ‘‘توورا’’ بھی اتار دے گا۔ بیل خوش ہو کر اپنے کان ہلاتے ہوئے کھیت میں چرنے لگیں گے۔ کسان کو پتہ ہے کہ چھ ماہ بعد پہلے ہی دن بیلوں کو زیادہ دیر ہل پر جوتے رکھنے سے انہیں ‘‘کنّ’’ ہو جاتا ہے۔تب تک اس کی بیوی ناشتہ تیار کر چکی ہوگی۔ وہ ماں اور بچوں کے ساتھ برآمدے میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر مکئی کی روٹی سرسوں کے ساگ اور لسّی کے ساتھ کھا رہا ہو گا۔

پھر ایک دن آئے گاجب وہ اپنے خاندان کو بوسیدہ مکان کے نیچے دب کر مرنے سے بچانے اور اور اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے کے لیے بیرون ملک روانہ ہو جائے گا۔ گھر کے سارے جانوروں کو پتہ چل جائے گا کہ کچھ ایسا ہونے والا ہے جو اس سے پہلے نہیں ہوا۔صبح جب وہ روانہ ہوتے وقت اپنے بیل کی کمر پر ہاتھ پھیرے گا توبیل کی چمڑی تھرتھرانے لگے گی اور اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو جاری ہو جائیں گے۔ بھینسیں چارا چھوڑ کراسے دیکھ رہی ہوں گی۔ کتا اس کی ٹانگوں سے لپٹنے کی کوشش کر رہا ہوگا ، چڑیاں صحن میں اور درختوں پہ خاموش بیٹھی ہوں گی، مینائیں گھر کی چھت پر ایک لائن میں بیٹھی یہ سب دیکھ رہی ہوں گی اور ککّو اپنی پونچھ ہلا ہلا کر بول رہا ہوگا‘‘ککّو، ککّو، ککّو……ککّو…… ’’ اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا۔

وہ ایک لق ودق صحرا پر اترے گا۔جہاں ہر طرف اڑتی ہوئی ریت ، جلتی ہوئی دھوپ اورسلگتی ہوئی ہوا ہوگی۔دوسرے ہی دن سے وہ بھی اس میں جلنا شروع ہو جائے گا۔ یہاں وہ بیلوں کی بجائے لوہے کی ایک بڑی مشین چلا رہا ہوگا ۔ جس کی گڑگڑاہٹ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی ہو گی۔یہ مشین آگ سے چلتی ہوگی اور اس کے ارد گرد بھی آگ برستی ہو گی۔ اس کی گوری چمڑی جل کر سیاہ ہو جائے گی اور بال اڑ جائیں گے۔ اس کے کپڑوں کا رنگ اڑا ہوگا، کالر پھٹا ہو گا،کہیں کہیں پیوند بھی لگا ہوگا۔ اس کے سر کا فلسطینی رومال تارتار ہو چکا ہو گا ، اس کا تولیا اکڑ چکا ہو گااور اس کا سیفٹی شوز لوہے کا ایک شکنجہ ہو گا۔وہ تیس دن ایک ایک لمحہ گن گن کر گزارتا ہوگااور تیس دنوں بعد تنخواہ ملنے تک ہر صبح شام انتظار کی سولی پر لٹکتاہوگا۔ کبھی دو ، کبھی تین، کبھی چھ ماہ بعد اسے تنخواہ ملتی ہوگی۔فرصت کے اوقات میں وہ پرانے خط کھول کر پڑھتا ہو گا۔ اور سوچتا ہو گا کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب وہ اپنے وطن کو لوٹے گا؟ اسے واپسی کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہو گی۔ تب وہ اپنے لڑکے کو بلا ئے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھر ایک دن آئے گا جب وہ اپنے گھر لوٹنے کا فیصلہ کر لے گا۔ مگر اس سے پہلے خدا کے گھر جا کراس کا شکریہ ادا کرے گا۔ واپس جاکروہ انہی کھیتوں میں اپنا بچپن، اپنی جوانی تلاش کرتا پھرے گا۔ ماں کا چرخہ، اپنا ہل اور جندرا تلاش کرے گا۔جب کچھ نہ ملے گا تو دل کو بہلانے کا کوئی بہانہ تلاش کرے گا۔ مگر یہ بہانہ اس کا دل بہلا نہ پائے گا اور وہ اپنے ماضی کی تلاش میں کہیں دور نکل جائے گا۔
پھر ایک دن آئے گا جب طویل سفر کے بعد وہ بالآخراپنے گھر پہنچ جائے گا۔ وہیں پر جہاں وہ ہل چلا رہا تھا ، پرندے اس کے سر پہ منڈلا رہے تھے اور کیڑے کھا رہے تھے۔ اس کی ماں درانتی لیے کھیت کی منڈیر پر کھڑی تھی،چیل چوزوں کی تلاش میں سرگرداں تھی ،اس کی بیوی مکئی کی روٹیاں پکا رہی تھی اور وہ برآمدے میں چارپائی پہ بیٹھاسرسوں کے ساگ اور لسّی کے ساتھ کھا رہا تھا ۔ اسے دیکھ کر اس کے بیل کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور وہ اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور بھینسیں اب چارا کھانے لگی تھیں اور کتا دم ہلاتا پھر رہا تھا۔چڑ یاں پھُر پھُر کرتی آتی جاتی تھیں اور بچوں کو ‘‘چوغ’’ کھلا رہی تھیں، مینائیں شور مچا مچا کر اپنے بچوں کو اڑنے کی ترغیب دے رہی تھیں اور فاختائیں امن کے گیت گارہی تھیں اور ککّو اپنی دُم ہلاہلا کر پکار رہا تھا ‘‘ککّو ککّو ……ککّو ککّو ……’’۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply