میں تو چلی چین /چینی تاریخ کی پہلی انقلابی،عظیم فیمنسٹ شاعرہ چھوئے چن (قسط26) -سلمیٰ اعوان

اگر کہیں آنے سے قبل تھوڑا سا یہ جان لیتی کہ چینی شاعر خزاں سے زیادہ قربت محسوس کرتے ہیں۔ان کے ہاں یہ صرف خوبصورتی اور اداسی کی نمائندہ نہیں بلکہ یہ چینی معاشرے کی بہت سی تہذیبی و تمدّنی پرتوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہے تو یقینا ً میں بہار کی بجائے خزاں میں یہاں آنے کو ترجیح دیتی۔

دن ابر آلود سا تھا۔بیجنگ کی سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے نوخیز گلابی اور سفید شگوفوں نے متوجہ کیا۔مگر جانے کیوں اُس جیالی چینی فیمنسٹ تحریک کی بانی اور انقلابی شاعرہ چھوئے چن کے المیہ اشعار ہونٹوں پر تھرکنے لگے تھے۔
خزاں کی ہوائیں
خزاں کی بارشیں
انسان کو احساس زیاں سے مار دیتی ہیں
عمران نے مجھے بیجنگ کی Foreign Languages University کے مین گیٹ پر اتار دیا تھا۔یہ میرا یہاں کا دوسرا چکر تھا۔ اردو ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ چاؤ یوآنZhou Yuan جس کا دوسرا نام نسرین ہے سے چھوئے بارے جاننے اور اس پر لکھی گئی کتابیں دیکھنے آئی تھی۔
تو نسرین اور میں اس کے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے تھے۔اور چھوئے چن بھی ایک صدی پہلے وقت کی ٹنل سے نکل کر ہمارے سامنے آبیٹھی تھی۔
نسرین نے پوچھا تھا۔The Woman Knight of Mirror Lake کیسی لگی۔چھوئے کی زندگی پر یہ فلم ہانگ کانگ نے 2011میں بنائی تھی۔نسرین نے مجھے فون پر اسے دیکھنے کا کہا تھا۔اس کے استفسار پر میرا جواب تھا۔
‘‘یہ حقیقت،فکشن، تھرل ،ایکشن اور صدی قبل کی چینی تہذیبی زندگی کے ساتھ ساتھ ایک خاتون کی جرأت اور دلیری کی بہترین عکاس فلم ہے۔
آخرچین نے اسے اپنی جون آف آرک ایسے تو نہیں کہا تھا۔’’
نسرین نے چھوئے کی کتاب زندگی کا سب سے پہلے وہ باب کھولا تھا جو بڑا درد ناک ،بڑاالمناک اور بڑا حیرت انگیز بھی تھا۔
یہ اس کے آبائی گاؤں شے نی آن Shanyin کا پھانسی گھاٹ میدان تھا۔15 جولائی 1907کا قدرے گرم دن۔دہشت و خوف کے سائے آنکھوں میں لیے چہروں پر رنج و الم کے اثرات بکھیرے گراونڈ میں مقامی لوگوں کا ہجوم تھا۔اکتیس افراد پر مشتمل شاہی فوج کا دستہ تھا۔ مقامی پولیس کے سپاہی تھے۔
سارامجمع سوالیہ نشان بنا اُسے دیکھتا تھا۔کس شان سے کھڑی تھی وہ۔لگتا تھا بہت اہتمام سے تیار ہوکر مقتل گاہ آئی تھی۔سفید قمیض،سیاہ جیکٹ،پینٹ اور چمڑے کے جوتے۔
اس کی ٹانگوں کو آہنی کرسی سے باندھ دیا گیا تھا۔ہاتھوں کو پشت پر کسا گیا۔
فرد جرم عائد ہوئی تھی۔اعتراضات کی ایک لام ڈور تھی۔اس نے مجمع کو دیکھا۔تفتیشی افسرکو دیکھا اور بولی۔
خزاں کی ہوائیں
خزاں کی بارشیں
انسان کو احساس زیاں سے مار دیتی ہیں
بس کچھ ایسے ہی لگا تھا کہ جیسے ایکاایکی برق سی کوند جائے۔ اس کا سر تن سے جدا کردیا گیا تھا۔اکتیس سالہ دل کش چھوئے چن مٹی کے فرش پر دو حصّوں میں کٹی پڑی تھی۔
نسرین کی اردو بہت رواں اور لہجے کا اتار چڑھاؤ کمال کا تھا۔تھوڑی دیر ہم دونوں سوگواری کی سی کیفیت میں رہیں۔
اس کی تمنا تھی ۔اس کی شاعری میں اس خواہش کا اظہار تھا کہ اس کا نام تاریخ کی کتابوں میں درج ہو۔دور دیسوں کے لوگ اس کے بارے جانیں ۔خواہش تو پوری ہوئی۔ دنیا کی کتابوں میں نام کی گونج چاروں کھونٹ گونجی۔ اب ایسے ہی تو مجھ جیسی ایک سیاح یہاں نہیں آئی تھی اس کے بارے جاننے اور اس پر لکھی ہوئی کتابیں دیکھنے اور پڑھنے کی خواہش اور کشش ہی تو گھسیٹ لائی تھی۔
نسرین کی آواز جذبات کی پھوار میں بھیگی ہوئی تھی۔
اس کے اندر ایک متحرک روح تھی۔عورتوں کے مساوی حقوق کی علمبردار،اپنے وقت کی ایک بیدار مغز انقلابی شاعرہ ،ناول نگار،مضمون نگار۔

جب مزاحمت اور بغاوت ناکام ہوگئی ۔اس نے شہید ہوجانا پسند کیا۔ بجائے اس کے کہ وہ جان بچانے کے لیے روپوش ہوتی۔بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں موت کو جی داری سے گلے لگانے والی نے خود کو چین کی فیمنسٹ تحریک کی بانی اور انقلابی خاتون ہونے کا تاج اپنے سر پر سجا لیا تھا۔
پیدائش 8نومبر 1875 میں ہوئی اور صرف اکتیس سال کی عمر میں 15جولائی 1907میں دنیا سے چلی بھی گئی۔
چین کے مشرقی صوبے جے جینگ Zhejiang کے ایک شہر ‘شی آمن ’ میں اپنے بڑے بھائی اور چھوٹی بہن کے ساتھ اپنے آباواجداد کے محل نما گھر میں پلی بڑھی۔‘ شی آمن’ میں دادا باپ اعلیٰ  حکومتی عہدے دران تھے۔ یہ صوبہ عورتو ں کی تعلیم کے لیے خاصی شہرت کا حامل تھا۔ ماں کا تعلق بھی بہت پڑھے لکھے اور امیر گھر سے تھا۔ ادب اور سیاست دونوں کا گھر میں چرچا رہتا تھا۔
اس کا بچپن ہر لحاظ سے شاندار آسائشوں سے بھرا ہوا تھا۔شاہانہ انداز اور رکھ رکھاؤ والا والد کا عالیشان گھر جو آباؤ اجداد کی بھی امارت کا گواہ تھا۔

روایتی انداز میں ہی ابتدائی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ایک کھاتے پیتے امیر گھر کی بیٹی جس نے سکول میں پڑھا۔گھڑ سواری کی اور شراب نوشی سے بھی شغل کیا۔اُس وقت کے چینی سماج میں یہ مشاغل صرف لڑکوں کے لیے ہی مخصوص تھے۔نوجوان چینی عورتوں کی طرح اس تکلیف کو بھی سہا کہ جب پاؤں کو سخت کپڑوں میں باندھنا پڑتا تھا کہ وہ چھوٹے رہیں۔
چھ سال کی عمر میں رواج کے مطابق اس کی ماں نے اس کے پیر کپڑے کی پٹیوں میں جکڑنے شروع کیئے تو وہ چلّا اُٹھی ۔ قینچی سے انہیں کاٹنے لگی ۔
ماں نے گُھرکا۔ ‘‘ ارے میری بچی مت کرو ایسا مجھے تمھارے پاؤں لوٹس جیسے بنانے ہیں۔ گنواروں جیسے نہیں۔’’
‘‘ نہیں ماں جھوٹ مت بولو اس نے غصّے سے کہا ! ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ پاؤں کی ہڈیا ں ٹیڑھی میڑھی ہو جائیں اور عورت بھاگ نہ سکے ’’ ۔
ماں تو دنگ رہ گئی ۔ اس تکلیف دہ عمل پر اسے اپنا واویلا مچانا ہمیشہ اچھا لگتا۔ اس تشدد پر وہ ہمیشہ سراپا اجتجاج رہی۔ شاعری میں ، تقریروں میں اور اپنے منشور میں بھی۔
ذرا شاعری میں ایک جھلک دیکھیے۔
اپنے پیروں کو آزاد کرتے ہوئے
میں ہزاروں سالوں کا زہر صاف کرتی ہوں۔
جوش و جذبے سے بھرے دل سے
عورتوں کی روح بیدار کرتی ہوں۔
شاعری تو ابھی لڑکی ہی تھی جب شروع کردی تھی۔لکھنے سے اُسے عشق تھا۔ شاعری اور مطالعے کی رسیا تھی۔ اپنی زندگی کے اِس حصّے میں اس نے پھولوں،موسموں،کی باتیں کیں۔ تاریخی جگہوں،جیالی عورتوں ان کے حوصلے ،جرأت اور جذبوں پر مبنی کارناموں پر لکھا۔
لیکن مصیبت تو یہ تھی کہ اس کی خواہشات کا ٹکراؤ چین کی اُن روایات سے ہواتھا جو معاشرے میں بہت گہری تھیں۔جو عورت کے گھر میں رہنے پر ایمان رکھتی تھیں۔اور وہ عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہونے اور کام کرتے دیکھنے کی متمنی تھی۔
شادی اکیس سال کی عمر میں ہوئی۔ اس وقت کے چینی رسم و رواج کے مطابق یہ لیٹ شادی کی عمر تھی ۔چھوئے چن کے والد نے جس لڑکے کو چُنا۔ وہ Hunan صوبے کے ایک امیر تاجر کا چھوٹا بیٹا وانگ ٹنگ چن Wang ting Chin تھا۔

اب یہ مقدر کی بات تھی کہ اس جیسی حسّاس ، دلیر، شاعرانہ مزاج لڑکی کو جوسا تھی نصیب ہوا وہ اس کے خوابوں اور خواہشوں کے قطعی برعکس تھا۔ اُ سے تو اپنے آپ اور اپنے مشاغل سے ہی فرصت نہ تھی کہ ذرا آنکھ کھول کر لٹر لگنے والی کو بھی دیکھتا۔ دو بچے بھی ہو گئے مگر وہ ذہنی رفاقت نہ پیدا ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔ وہ اذیت کی جس بھٹی میں جلتی اس کا تحریری اظہار بھی کرتی۔چھوئے اپنے شوہر سے دن بدن دور ہوتی جارہی تھی۔
اسے اس بات کا بھی دکھ تھا کہ وانگ Wang اُسے پرکاہ برابر اہمیت نہیں دیتا تھا۔اس کا اعتماد،اس کی اپنی شاعری کو منوانے کی تڑپ اور جذبہ اس کے متعصبانہ رویوں کا شکار ہوگئے تھے۔سسرالی دباؤ اس کی صلاحیتوں کو کچلنے کے درپے تھا۔ اس کا ایک ہی حل اس کو سمجھ آتا تھاکہ وہ اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ سے زیادہ حصّہ پڑھنے لکھنے میں گزارے۔ اور وہ ایسا ہی کر رہی تھی۔

یہ چھنگ Qing بادشاہت کا زمانہ تھا۔ جب اس کے شوہر کا تبادلہ بیجنگ کے لیے ہو گیا۔1903میں نوجوان جوڑا اپنے دو بچوں کے ساتھ بیجنگ شفٹ ہوا۔
شاہی دارلخلافہ میں آ کر اُسے محسوس ہوا کہ شہر کی زندگی زیادہ فعال ہے۔اس کی ہم خیال عورتوں سے دوستی اور خیالات کے تبادلوں نے اُسے مائل کیا کہ وہ سیاسی معاملات میں دلچسپی لے۔اس نے پاؤں کھولے۔ کثرت سے شراب نوشی کی ۔لباس کی تبدیلی اور تلواری کھیل میں حصّہ بھی لینا شروع کردیا۔
کہیں ہواؤں میں ،فضاؤں میں تبدیلی اور انقلاب کی خواہش رقصاں تھی جسے وہ غیرمحسوس طریقے سے محسوس کرتی تھی اورسونگھتی تھی۔

یہ 1904تھا جب اس نے اپنی زندگی کو سمیٹنے اور اُسے کسی بڑے مقصد کے لیے وقف کرنے کا ارادہ کیا۔اس ارادے میں شادی کو داؤ پر لگانے کا فیصلہ بھی اس وقت حتمی طور پر ہو گیا تھا جب اسے معلوم ہوا کہ اس کا شوہر اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی تعطیلات گزارنے کسی دوسرے شہر کے قحبہ خانے جارہا ہے۔
اس نے خود سے کہا، ‘‘ کتنا برداشت کیاہے میں نے ان نا شائستہ رویوں کے مالک شخص کو جو ذوق لطیف سے عاری ، پڑھنے سے فراری اور شعر و شاعری اور تحریر کی اہمیت سے انکاری ہے۔ یہ دن اسے اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے چاہئیں تھے مگر وہ طوائفوں کے ساتھ گزارنے چلا گیا ہے۔ ’’
بس تو طے ہوگیا ۔زیورات بیچے، بچوں کو الوداع کہا ،شوہر کو چھوڑا ،جاپان کا ٹکٹ خریدااور اجنبی سرزمین پر جا اتری۔ ٹوکیو میں اُس کا جاپان کا چینیوں کے لیئے بنائے گئے ادارے میں داخلہ ہوا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی جاپان نے چین کی نسبت مغربی اثرات تیزی سے اپنانے شروع کر دئیے تھے۔یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ اس نے بہت سی خفیہ سوسائٹیز میں شمولیت کی جن کا مقصد موجودہ چینی حکومت کو ختم کردیناتھا۔

وہ اپنی رائے اور خیالات میں بڑی واضح تھی کہ مرد عورت جب تک برابر نہیں سمجھے جائیں گے۔ تب تک قوم اور ملک ترقی نہیں کریں گے۔اس نے مارشل آرٹس سیکھا اور مردانہ لباس پہننا شروع کیا۔ہاتھ میں تلوار تھام کرخود کو Jin Xiong سمجھاجس کا مطلب یہی تھا۔مردوں کے ساتھ مقابلہ۔
میرا جسم بے شک
مرد کی طاقت کے معیار کا نہیں ہوسکتا
لیکن میرا دماغ
مرد سے زیادہ طاقتور ہے
دوسرے لوگوں کے اثر و رسوخ سے کبھی متاثر مت ہو
سفلہ پن کس طرح میری شناخت کا باعث بن سکتا ہے
مایوسیوں میں ہیرو ہی تکالیف برداشت کرتے ہیں
اس وسیع وعریض سماج میں مجھے کہاں سے ایک سچا دوست مل سکتا ہے

یہاں جلد ہی وہ چینی کمیونٹی میں مقبول ہو گئی۔ چینی طلبہ کی لیڈر کا کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیا۔یہیں اپنی تعلیم اور قیام کے دوران اس کی شاعری نے لوگوں کی توجہ کھینچی۔ اس کی یہ طبع آزمائیMan Jiang Hong کے انداز میں ہوئی۔
Man Jiang Hong دراصل چینی غنائی شاعری کا ایک سیٹ اپ ہے ۔ لوگ اس کی کھلی ڈھلی آزاد اور بے باک سوچ و فکر سے آگاہ ہوئے ۔وہ یہ بھی جانے کہ وہ عورتوں کی ذاتی اور سیاسی زندگی مردوں کے ہم پلہ چاہتی ہے۔
اس نے کہا ۔
اگرچہ میں مرد پیدا نہیں ہوئی
مگر میری مرضی ان سے زیادہ طاقت ور ہے

ایک اور نمونہ دیکھیے۔
خزاں اپنے نشان چھوڑ رہی ہے
جہنم جیسی تنہائی نا قابل برداشت ہو گئی ہے
ان سالوں نے مجھے اپنے گھر کے لیے بے تاب کر دیا ہے
یہ تو ان کی(مردوں) ظالمانہ چال ہے کہ ہم عورتوں کو نسوانیت میں قید کر یں
ہم جیت نہیں سکتیں
قابلیت ولیاقت کے باوجود
مرد ہی اعلی ترین عہدے سنبھالتے ہیں
لیکن ہمارے دل عہدے دار مردوں سے زیادہ خالص ہیں
میرا اندر اس زیادتی پر آگ کی طرح جلتا ہے
عیار مرد مجھے جاننے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں
دلیری اس نوع کے عوارض کو کب جانتی ہے
ایسے گلے سڑے معاشرے میں دوست ملنے کا
تصوربھی میرے آنسو لے آتا ہے
دسمبر1905کا ذکر ہے۔ وہ ابھی جاپان میں ہی تھی جب اس نے چینی لوگوں کے مجمع میں ایک شعلہ بار تقریر کی۔ اس نے زور دیا کہ یہی وہ وقت ہے کہ جب چینیوں کو اپنے مادر وطن لوٹ جانا چاہیے۔ اس تقریب میں لو شیون Lu Xun بھی تھی جو آنے والے وقتوں میں چین کی بہت بڑی لکھاری بنی۔

کہیں بعد میں اس تقریب کا احوال لکھتے ہوئے لوشیون Lu Xun نے لکھا تھا کہ اس نے اپنا چاقو اپنے سامنے رکھے میز پر گراتے ہوئے اپنی اس نظم کو بھی پڑھاجو ان ہی دنوں لکھی گئی تھی۔
چاند اور سورج میں روشنی نہیں
زمین تاریک ہے
ہماری عورتوں کی دنیا کی غرقابی بہت گہری ہے
اسے اوپر اٹھانے میں ہماری کون مدد کرے گا
سمندر پار کے اِس ٹرپ کے لیے زیورات بیچ دئیے
خاندان سے ناطہ ٹوٹ گیا ہے
مادر وطن سے جدا ہوگئی ہوں
ایک ہزار سال کے زہر کی صفائی کے لیے
میں نے اپنے پیروں کوآزاد کر دیا ہے
میں عورتوں میں بیداری کی روح جگاتی ہوں
سینکڑوں پھول کھل اٹھتے ہیں
افسوس یہ نازک سا رومال
آدھا خون سے آلودہ ہے
اور آدھا آنسو وں سے گیلا ہے
پھر وہ وقت آ گیا جب ان انقلابی خیالات نے عملی صورت اختیار کرلی تھی۔ جاپان میں پڑھنے والے چینی طلبہ متحرک ہوگئے تھے۔
یہ نظم انہی دنوں کی ہے۔
مجھے یہ مت کہو کہ عورتیں
ہیرو بننے کے قابل نہیں
میں نے تنہا مشرقی سمندر کا گھوڑے پر سفر کیا
میرے شاعرانہ خیالات کی وسعت اور پھیلاؤ مستقل ہے
جیسے جنت اور سمندر کے درمیان کوئی سفر کرتا ہو
میں نے تمہارے تین جزیروں کے بارے تصور کیا
سب پتھر جو چاند کی روشنی میں جگمگاتے ہیں
میں کانسی کے اونٹوں بارے سوچتے ہوئے فکرمند ہوں
چین کے محافظ کانٹوں میں اُلجھ گئے ہیں
شرمندہ ہوں کہ میں نے کچھ نہیں کیا
میرے نام پر تو ایک بھی فتح نہیں
میں تو صرف اپنے جنگی گھوڑے کو پسینہ پسینہ کرنا چاہتی ہوں
اپنی مادر وطن پر دکھ و غم کرتے ہوئے
جو میرے دل کو تکلیف دیتی ہے۔پس مجھے بتاؤ
میں یہ دن کیسے یہاں گزار سکتی ہوں
ایک مہمان جو تمہاری بہار کی ہواؤں سے لطف اٹھائے
یہ 1906 کے دن تھے جب اُس نے 2000طلبہ کے ساتھ نئے جوش و جذبے کے احساسات سے وطن کی سرزمین پر قدم رکھاتھا۔یہاں شنگھائی کی شوشی خوا Xu Zihua
جیسی شاعرہ بھی آشامل ہوئی تھی۔
اس کی سر گرمیوں کا مرکز اب چھنگ Qing سلطنت کے مخالف دھڑوں سے ملنا اور عورتو ں میں شعور اور آگاہی بیدار کرنے کا م تھا۔

1907میں اس نے پہلے فیمنسٹ میگزین کے اجرا میں ذرا سا بھی وقت ضائع نہیں کیا۔یہ چین میں اپنی نوعیت کا پہلا رسالہ تھا۔اس کام میں اس کا بہترین معاون اس کادست راست اس کا کزن شوشی لن Xu Xilinتھا۔مگر ابھی بس دو شمارے ہی نکلے تھے کہ اس پر پابندی لگ گئی۔

وہ اپنے اہداف ، اپنے منشور بارے بڑی واضح تھی۔عورتوں کی تعلیم، انہیں برابری کی سطح پر لانا ،معاشی آزادی، شادی کا حق اور پسند ،چین کی 200ملین عورتوں کو باعزت ان کے حقوق دینا اور لوہے کے جوتے پہنانے والی غیر معمولی قبیح رسم کا خاتمہ جیسی اصلاحات کا اعلان تھا۔اس کا کہنا تھا کہ مرد غالب معاشرے میں عورتوں کے بہترمستقبل کے لیے ایک نئی ماڈرن گورنمنٹ Qingبادشاہت کی جگہ لینی ضروری ہے۔

مگر اس کی خواہش کے راستے میں بہت روڑے تھے کہ عورتیں پڑھی لکھی نہ تھیں اور اِس کی بات کو اس طرح نہیں سمجھتی تھیں جیسے وہ سمجھانا چاہتی تھی۔اب تقاریر کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔وہ بہت اچھی مقرر تھی۔بات کو دلیل سے کرتی تھی۔

اپنے اِس دائرہ کار کو مزید وسیع کرنے کے سلسلے میں اس نے ینگ شی yangtzeڈیلٹا کا چکر لگایا۔بے شمار انقلابی لوگوں سے ملی اور جانی کہ انقلاب کے لیے کن کن حربوں کی ضرورت ہے۔معلومات اور بم بنانے کا طریقہ سیکھا۔ Yu Feiکی قبر پر حاضری دی۔ Yu Feiبارھویں صدی کا وہ شہید تھا جو شمالی حملہ آوروں سے چین کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا تھا۔
گرمیوں میں اس نے Datongاکیڈیمی کی پرنسپل شپ سنبھال لی جو کہ بظاہر ترقی پسندوں کا سکول تھامگر دراصل انقلابی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔اس کا کزن شوشی لن Xu Xilin اس ادارے کا ڈائریکٹر تھا اور انقلابی سرگرمیوں کا بھی سرخیل تھا۔ چند دن پہلے اُسے حکومت نے گرفتار کیا تھا اورتحقیقات کے نتیجے میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
اس کی اِس جدوجہد میں جن ناموں نے اس کی جی جان سے معاونت کی اِن میں اس کی دو دوستوں کا کردار بہت اہم ہے۔یہ شوشوخا و شے ینگ Xu ZihuaاورWu Zhiyingتھیں۔دونوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ قسم والی بہنیں تھیں۔جیسے ہمارے ہاں ڈوپٹہ بدل ،پگڑی بدل والی یاری دوستیاں بے حد گہری اور مشکل میں ساتھ نباہنے والی ہوتی ہیں۔ایسی ہی یہ بھی تھیں۔شو شی لن کی موت کے بعد دونوں نے اُسے خبردار کیا تھا کہ بھاگ جاؤ۔ہٹ لسٹ پر آگئی ہو۔مگر اس نے کسی کی نہیں سُنی۔
ا ب چھوئے بارے بھی حکومتی ارکان کو بہت ساری باتوں کا پتہ چل گیا تھا۔ شاہی عملے، سپاہیوں اور فوجی دستوں نے Shaoxingپر ہلا بول دیا تھا۔
یہ جولائی کے دن تھے۔اپنے جرم کا اعتراف کرنے کی بجائے وہ ڈٹی رہی۔اس نے ہر طرح کے الزامات ماننے سے انکار کردیا۔اور پھر وہ دن آگیا ۔

15جولائی کا المناک دن جب اسے پھانسی میدان میں حاضر ہونا تھا۔کِس جی داری سے وہ تیار ہوئی۔اس نے سفید قمیض پہنی۔سادہ سیاہ جیکٹ اور پینٹ اور چمڑے کے جوتے اور سوئے مقتل چلی۔
اس کے ہاتھوں کو پشت کی جانب باندھا گیا اورٹانگوں کو آ ہنی کرسی کے ساتھ۔ اور پھر برق سی کوندی اور اس کا خوبصورت سر تن سے جدا ہوگیا۔
نسرین خاموش ہوگئی تھی۔ میں نے لمبی آہ بھری تھی۔مجھے محسوس ہوا تھا جیسے کمرے میں حزن و یاس میں ڈوبی ایک آواز رقصاں ہے۔
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا
وہ شان سلامت رہتی ہے
اِس جان کی تو کوئی بات نہیں
یہ جان تو آنی جانی ہے

اور جب اس کا خوبصورت جسم اور سر کٹے پڑے تھے۔دونوں حلفیہ بہنوں نے فوراً ویسٹ لیک میں دفنانے کا انتظام کرلیا کہ چھوئے کی یہی خواہش تھی کہ اُسے گذشتہ صدیوں کے ہیروز کے نزدیک دفنایا جائے۔
اس کام میں چھوئے کا بھائی بھی معاون رہا ۔ لاش کو سمیٹنے اور اُسے دفنانے اور مقبرے کی حفاظت کرنے میں اس نے تیزی اورہمت دونوں دکھائیں۔
مگر انتظامیہ قبر کو مسمار کرنے پر تلی بیٹھی تھی۔
اس کے خیر خواہوں ،اس کے چاہنے والوں سب کو شکایت تھی کہ آخر اُسے کیا ضرورت تھی خود کو ان کے حوالے کرنے کی۔

اس پر بہت کچھ لکھا گیا ۔اس کی زندگی کے ہر ہر پہلو پر لکھا گیا۔ اِس سلسلے میں مجھے ہاورڈ یونیورسٹی کے خوئے ینگHuyingکی تحریروں نے بہت متاثر کیاہے ۔ وہ Burning Autumnمیں لکھتا ہے کہ چھوئے نے اپنی زندگی ایک عظیم مقصد کے لیے قربان کی۔ایک ایسے وقت میں جب گردوپیش کی دنیا بھی ظلم ،جبر و استحصال کے خلاف قربانیاں دے رہی تھی کہ ایک بہترا ور پرامن دنیا لوگوں کو دے سکیں۔

چھوئے کی اس نظم نے بھگو دیا ہے جو اس نے اپنے شوہر کے لیے لکھی تھی۔جو یہ بتاتی ہے کہ وہ صرف انقلابی فائر برانڈ ہی نہیں تھی بلکہ جذبات و احساسات رکھنے والی ایک انسان بھی تھی۔جس نے محبت اور اس کی تلخیوں اور شیرینیوں کو محسوس کیا۔ اسوقت بھی جب وہ بڑے مقصد کے لیے کام کررہی تھی اور اس پر یقین رکھتی تھی کہ وہ راستی پر ہے۔اپنے شوہر کے لیے لکھی ہوئی اس نظم ذرا پڑھئیے۔
خزاں کس لیے اداس ہے
کوئی تحریک نہیں دے رہی ہے
میرے دل میں مچلتے جذبات کا ہجوم
غائب نہیں ہوسکتا
اس مخصوص صورت حال سے بچنا کتنا محال تھا
ہماری محبت ایک مستقل عذاب میں بدل گئی تھی
جس میں واپسی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔
میں تمہاری شکر گزار ہوں۔
پلٹ کر اس دن کو دیکھنا بڑا دکھ بھرا ہے
جب ہم جدا ہوئے تھے
میرے اس گونگے دل سے ابھی تک
ازدواجی زندگی کی تلخیاں اور شیرینیاں نہیں نکل سکیں
اگر زندگی میں کہیں حقیقتاً افسوس ہے
اُسے ہوا اور بارش کی افسردہ آوازوں سے بچنا چاہیے

ہم دونوں بہت دیر تک عجیب سے یاس بھرے دکھ میں ڈوبی رہیں۔کیسی عجیب سی بات تھی کہ دو مختلف خطوں کی عورتیں جو زبان،مذہب،کلچر اور تمدنی حوالوں سے مختلف تھیں ایک جیسے جذبات کی یلغار میں تھیں۔
پھر جیسے وہ چونک کر اپنی اِس کیفیت سے باہر آئی اور مجھے دیکھتے ہوئے بولی۔

تاہم یہ تو کہنا پڑے گا کہ ثقافتی انقلاب نے چینی عورت سے متعلق امپریلزم اور فیوڈلزم معاشروں کی سوچوں کے تابوتوں میں آخری کیلیں ٹھونک دی تھیں۔دراصل خانگی و خارجی جنگوں،کیمونسٹ تحریکوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں چینی عورتوں میں بھی آگہی اور شعور بیدار کرنا شروع کردیا تھا۔وگرنہ تو چینی عورت کی صدیوں پرانی روایاتی تصویر نزاکت ، چھوئی موئی اور بڑی فرمابردار قسم کے پیکر کی عکاس تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چینی سوسائٹی میں جو محاورہ سب سے زیادہ زبان زد عام تھاوہ یہی تھا کہ علم کے بغیر ہی ایک عورت قابل تعریف ہے۔قانون قدرت کا ڈھکوسلا بھی ہماری قدیم روایت کا حصّہ تھاجس کے مطابق عورت کا مرد کے تابع رہنا ضروری تھا۔اب ذرا سوچ دیکھو۔شادی سے قبل بیٹی کی صورت باپ کی وفادار ہو،شادی کے بعد شوہر اور اس کے مرنے کے بعد بیٹے کی۔
اُف خدایا میں نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔نری پاکستانی سوچ۔
بس اس سوچ سے نکالنے میں پہلا بڑا کردار سن یات سن Sun yat Sen جیسے انقلابی لیڈر کا تھا۔پھر سلسلہ چل نکلا۔
Wu Shugingجیسی انقلابی خاتون ،Qiu Jinجیسی شاعرہ اور فیمنیسٹ Hua Mulanجیسی بے شمار عورتیں اٹھیں۔جنہوں نے سر کٹوائے،جیلیں بھگتیں لیکن اپنے مقصد پر ڈٹی رہیں۔
چین نے اُسے اپنی جون آف آرک ایسے تو نہیں کہا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply