فیصلہ ساز کون ۔۔شاہریز شفیق

فیصلہ ساز کون ۔۔شاہریز شفیق/ایتھنز میں سقراط کی پھانسی سے لیکر جرمن میں یہودیوں کے قتلِ عام تک ہمیشہ فیصلہ کرنے والی قوتیں معاشرتی سدھار اور بگاڑ کا سبب بنتی رہی ہیں ۔ اور سب سے زیادہ بغاوتیں حقوق کے غصب کیے جانے پہ ہوئیں ،ان بغاوتوں کے بعد بننے والی حکومت میں عام طور پہ عوام کی رائے کو بھی ترجیح ملی۔ لیکن کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ اکثریت کی رائے نے اقلیت کو ایسا کچلا کہ  اندلس سے مسلمان ناپید ہوئے اور فلسطین سے یہود ۔ اس کا سبب صرف یہ بات تھی کہ کس قوم یا شخص کا کتنا حق ہے اور یہ کون طے کرے گا ۔ جب بادشاہوں ، علما  (پوپ)یا اس وقت کے کرتا دھرتا جو بھی اتھارٹی ہو ،اس نے یہ فیصلہ اپنی ذاتیات سے یا اکثریت عوام کی رائے سے کیا ،تو اقلیت کے جائز حقوق بھی غصب ہوئے ۔ جسے اس وقت بھی بُرا نہ سمجھا گیا۔ اور آج تو اسی کو جدید ریاست سمجھا جاتا ہے جہاں یہ سارا اختیار ہی عوام کا ہے جو بنیادی حقوق(آئین )اور معاشرت کو چلانے کے لیے اسی آئین کے تحت مزید قوانین بناتی ہے ،آئین بنانے کے لیے کہیں دو تہائی اکثریت درکار ہے تو کہیں تین چوتھائی۔
کیا اس طریقہ کار نے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا ہے؟

یہ ایک ایسا سوال ہے جس پہ دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ملکِ پاکستان میں یہاں کی اکثریت(مسلمان) جو کہ ہر صورت %90 سے زیادہ ہے یہ فیصلہ کرے کہ یہاں کی ساری اقلیت کو قتل کیا جائے، یہ بات آئین بھی بن جائے گی اور قانون بھی ۔اسے دو تہائی اکثریت بھی سپورٹ کرے گی اور قانون کے لیے بھی %51  اکثریت  مل جائے گی، تو کیا یہ فیصلہ اور اس پہ عمل درآمد درست ہو گا۔ کوئی بھی عامی جو عقل و شعور سے دور کا بھی واسطہ رکھتا ہو وہ اس بات سے کسی صورت اتفاق نہیں کرے گا لیکن ایک مسلمہ حقیقت(جمہوریت) جس کے لیے آج سب سے زیادہ جدو جہد ہے وہ اپنے اصولوں کے تحت اس بات کی پابند ہے کہ %90 لوگ %10 کو قانونی طور پہ قتل کریں ۔

جمہوریت کے اسی اصول کے تحت فلسطین کے لوگ آج سب سے بڑی انسانی جیل میں قید ہیں ،جسے ان کی عدالت عالیہ بھی تحفظ نہیں دیتی اور کشمیر کے نوے لاکھ مسلمان تقریباً ڈیڑھ ارب ہندوستانیوں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ کئی بلوچ قبائل بھی اسی کا رونا روتے ہیں ۔ اور اب تو بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ %13 مسلمان %79.8 ہندوؤں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔یرغمال بننے کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے بنیادی حقوق کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا ،اگر قانون بننا ہے تو %51 اور اگر آئین بننا ہے تو %75 دونوں صورتوں میں مسلمانوں کے ہاتھ کچھ نہیں آتا ۔ اگر آئین آپکو تحفظ دے تو اس آئین کی تشریح کورٹ کرے گا یا پارلیمنٹ ۔ لیکن اصل طاقت پارلیمنٹ کے پاس ہی ہے، سپریم کورٹ بھی اسی قانون کے مطابق چلنے کا پابند ہے۔

اب پابندی صرف اخلاقی ہے یا دینی، دین جدید ریاست میں آپکا ذاتی فعل ہے اس کا پبلک کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے دین کے تو ہم پابند نہیں، بے شک میں نے ووٹ دینی بنیاد پہ ہی لیا ہو ۔ اور اخلاقیات کو مفادات ایسے کھاتے ہیں جیسے لوہا  زنگ کو۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک متشدد اکثریتی ٹولہ اقلیت کے حقوق کھا جاتا ہے، جسے جدید دنیا ان کا اندرونی معاملہ کہہ کر اس پہ کوئی حرف نہیں اٹھاتی، کیونکہ ان کے ہاں بھی اصول یہی ہے ۔ اس متشدد ٹولے کو اگر کوئی ڈھونڈنا شروع کرے تو ہر ملک میں آپکو ضرور ملے گا، کچھ اکثریت حاصل کر چکے اور کچھ اسکی تگ و دو میں مصروف ہیں۔۔سوئزرلینڈ سمیت سات ملکوں نے حجاب کو بنیادی حقوق سے نکالا تو سب نے اسے ان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ۔آج انڈیا نکال رہا ہے تو ہمیں یاد آئی صرف اس لیے کہ وہ ہمارا روایتی حریف ہے ۔ وگرنہ ہم بھی اسی اصول پہ قائم ہیں ۔

اس طرح عوام کے حقوق غصب کیے گئے چاہے وہ وقت کے بادشاہ ہوں یا پوپ کی حکمرانی ، کیمونزم ہو یا جمہوریت یا قبائلی طرز زندگی۔ اس کا حل ناقص عقل میں یہ آیا کہ بنیادی حقوق کا تعین وہ کرے جس کے ہاں سب انسان برابر ہیں، جسے کسی شخص خاندان یا قوم و قبیلے سے کوئی غرض نہ ہو۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار اپنایا جائے گا تو شاید کسی مخصوص علاقے میں کچھ انسانوں کو بنیادی حقوق مل جائیں لیکن اس کے لیے کسی دوسرے ملک یا علاقے کے لوگ قربانی دیتے نظر آئیں گے۔ دنیا کے تمام مہذب کہلوانے والے ملک اپنے لوگوں کو مال و دولت سے سرفراز کرتے ہیں اور ان کی پیدائش سے لے کر مرنے تک کے نخرے اٹھاتے ہیں لیکن اس کی قیمت شام و عراق دیتے ہیں یا افریقہ جیسے امیر ترین بر اعظم جہاں کے لوگ صرف دو وقت کی روٹی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں
بقول اقبال

Advertisements
julia rana solicitors

سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حُکمراں ہے اک وہی، باقی بُتانِ آزری
از غلامی فطرتِ آزاد را رُسوا  مکُن
تا تراشی خواجۂ از برہَمن کافر تری
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طِبِّ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply