نکاح ایک شرعی عمل ہے، جو بنیادی طور پر دو فریقوں میاں اور بیوی کے درمیان مل جل کر ایک نئی زندگی کو قانونی و شرعی طور پر آغاز کرنے سے عبارت ہے۔ اسلام سے پہلے عرب میں نکاح کے بہت سے طریقے رائج تھے، اسلام نے ان میں کچھ طریقوں سے منع کر دیا اور کچھ طریقوں کو جزئی تبدیلیوں کے ساتھ اختیار کر لیا۔ اسلام نے نکاح کرنے کے اصول و ضوابط کو بیان کر دیا ہے، اسی طرح سے اسلام نے جب اس عقد یا معاہدہ کو ختم کرنا ہو تو اس کے بھی طریقے بتا دیئے ہیں کہ نکاح ان ان طریقوں سے ختم ہو جاتا ہے۔ فقہائے کرام نے ان طریقوں کو بڑی وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ گلی گلی میں بکتا فتویٰ فقہی و عقلی استدلال سے عاری ہوتا ہے۔ اسی لئے یہ فتویٰ دینے والے معاشرے میں ہیجان پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ پہلے تو یہ ہوا کرتا تھا کہ فتویٰ دینا صرف اہل علم کا ،کام تھا، وہ بہت سوچ بچار کے بعد فتویٰ جاری کیا کرتے تھے۔ اہل علم سے یہ فتویٰ گلی محلہ کے عام سطح کے علماء تک پہنچا اور اب تو یوں لگتا ہے جیسے علم کی شرط ہی ختم ہوگئی ہے، یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر چھوٹی چھوٹی بات پر درجنوں فتوے منٹوں میں حاصل کرنے کا تجربہ کر لیں۔ ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا، جس میں ایک شخص جو کسی سرکاری محکمہ کا ریٹائرڈ افسر ہے، ایک شخص کو گستاخ رسول ﷺ کہہ قرار دے کر علی الاعلان قتل کرنے کا کہہ رہا تھا۔
آج ہمارے اہل علم ،اہل حدیث دوست پروفیسر طاہر اسلام عسکری صاحب نے جنازہ پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جانے کے مسئلہ پر اپنی رائے میسج کی کہ ایک خاتون فوت ہوگئیں، کچھ دوسرے مسلک کے لوگوں نے اس کا نماز جنازہ پڑھ لیا۔ اب ان کے ہم مسلک لوگ ایک سند یافتہ مفتی صاحب سے فتویٰ لکھوا لائے ہیں کہ جو جو لوگ اس جنازہ میں شریک ہوئے ہیں، وہ سب دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے ہیں اور ان کے نکاح ٹوٹ گئے ہیں، ان کی بیویاں ان پر حرام ہوگئی ہیں اور حیرت کی بات یہ تھی کہ جن لوگوں کو یہ پتہ بھی نہ تھا کہ خاتوں تو مخالف مسلک کی ہے، ان کے بھی نکاح ٹوٹ گئے ہیں۔ “انا للہ و انا الیہ راجعون” یہ پڑھتے ہی مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آگیا، ہمارے قریبی گاؤں میں اسی طرح ایک جنازہ پڑھنے سے پورے گاؤں کا نکاح ایک ساتھ ٹوٹ گیا اور ساتھ میں جنازہ پڑھنے والے دائرہ اسلام سے بھی خارج ہوگئے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ مولوی صاحب نے اس فتویٰ کا اعلان باقاعدہ مسجد سے بھی فرما دیا اور تاکید کی کہ خواتین خانہ اس اعلان کو دوبارہ سن لیں کہ ان کے وہ شوہر جنہوں نے یہ جنازہ پڑھا ہے، وہ ان پر حرام ہوچکی ہیں اور ان کے درمیان اب کوئی رشتہ باقی نہیں رہا، لہٰذا تمام تعلقات کو تا اعلان ثانی حرام سمجھا جائے۔
اعلان کے ساتھ ہی پورے گاؤں میں بھونچال آگیا، سادہ لوح دیہاتی خواتین نے اپنے شوہروں سے تفشیش شروع کر دی کہ تم تو ہر جنازے میں پہنچے ہوتے ہو، اس جنازے میں بھی ضرور گئے ہوگے۔ کوئی قسم کھا رہا ہے تو کوئی گواہ لا رہا ہے کہ جس وقت جنازہ ہوا، میں تو کھیتوں میں کام کر رہا تھا، کوئی کہہ رہا ہے میں تو شہر گیا ہوا تھا۔ عجیب صورتحال تھی، ساٹھ ساٹھ سال کے سفید ریش بزرگ بچوں کو یقین دلا رہے تھے کہ وہ تو مسجد میں ہی بیٹھے رہے، جنازہ نہیں پڑھا۔ کسی دل جلے نے کہا کہ میں تو ایسے ہی کھڑا ہوگیا تو میرے تو دادا کو بھی نماز جنازہ نہیں آتی۔ ایک بزرگ گویا ہوئے کہ میں تو وضو سے ہی نہیں تھا۔ بہرحال پنچائت ہوئی جس میں مولوی صاحب کو بلایا گیا کہ اب اس سارے مسئلہ کا حل بتا کر اس مصیبت سے نجات دلائی جائے۔ مولوی صاحب نے کہا اس کا حل بہت سادہ سا ہے، تمام مرد دوبارہ کلمہ پڑھیں اور ساتھ میں تجدید نکاح بھی کروائیں۔ بہت سے بزرگ چیں بچیں ہوئے مگر کیا ہوسکتا تھا، گھر میں داخلہ پر پابندی کے خوف سے ہی حالت پتلی ہو رہی تھی، مرتے کیا نہ کرتے، سب لوگ لائن میں لگ گئے۔
اب ایک نئی صورتحال جنم لے چکی تھی، مولوی صاحب نے فرمایا کہ کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہونا خوشی کی بات ہے اور اسی طرح نکاح بھی خوشی کی علامت ہے، لہٰذا خوشی کے دو الگ الگ مواقع کی فیس بھی الگ الگ ہوگی۔ مولوی صاحب نے کلمہ پڑھانے کی فیس پانچ سو اور نکاح کی ایک ہزار فِکس کی، لیکن کچھ اہل علاقہ کی یہ دھمکی مشکل کشا واقع ہوئی کہ اگر فیس کم نہ ہوئی تو ہم ساتھ والے گاؤں سے مولوی صاحب لے آئیں گے۔ اس کے بعد باہمی اتفاق رائے سے کلمہ شریف پڑھانے کی فیس دو سو روپے طے کی گئی اور نکاح کی فیس بھی مولوی صاحب نے ہزار سے کم کرکے عوامی سہولت کے لئے پانچ سو رکھ دی۔
جن حضرات پر شک تھا کہ وہ شریک جنازہ تھے یا نہیں تھے، ان سے بھی کلمہ پڑھا کر ان کا دوبارہ نکاح پڑھایا گیا۔ قصہ مختصر، صاحبو مذہب کے نام پر یہ کھیل جاری ہے، جو لوگوں کو دین سے دور کر رہا ہے اور اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ایسی بہت سی ویڈیوز یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہیں، جہاں پر باقاعدہ بین الاقوامی میڈیا پر ایسی خبریں دکھائی جا رہی ہیں کہ دیکھیں کس قسم کا مذہب ہے۔؟ ہر مسلک کے اہل علم کو چاہیے کہ وہ گلی محلے میں بیٹھے نیم پڑھے لکھے لوگوں کا محاسبہ کریں کہ وہ اس قسم کے اختلافی فتوے نہ دیں، جس سے مسلمانوں کے درمیان نفرتیں جنم لیں اور معاشرے کا عام مسلمان اضطراب کا شکار ہو جائے۔ یہ ہمارا مشترکہ المیہ ہے، جس سے شائد ہم نمٹ نہیں سکتے، کیونکہ مذہب کا سہارا لیکر ہی مذہب کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
Facebook Comments
اعلی تحریر ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا کوئی دو سال پہلے پڑوس والے گاؤں میں اہل تشیع کے جنازے میں شرکت پر مجھے اور میرے دوست کو کافر قرار دیا گیا ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ مولبی صاب نے خوب ڈھونڈرا پیٹا پھر بات ٹھنڈی پڑ گئی سال بعد وہ مولبی صاب چلے گئے نئے آنے والے مولانا صاب نے پرانے والے کے فتوے کو کالعدم قرار دیا اور یوں مجھ عاجز کو محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت ملی