• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مقتل سے براہِ راست (3،آخری حصّہ)۔۔محمد وقاص رشید

مقتل سے براہِ راست (3،آخری حصّہ)۔۔محمد وقاص رشید

مقتل سے براہِ راست (3،آخری حصّہ)۔۔محمد وقاص رشید/احساسِ زیاں ہے کہ جو دل سے جاتا ہی نہیں ہے۔ سلامتی کے مذہب کے نام پر بننے والے ایک ملک میں سلامتی ہی کو خطرہ لا حق ہے  اور وہ بھی رحمت للعالمین کی عظیم ترین ہستی اور مقدس ترین فلسفے کو گزند پہنچا کر۔ ۔اوخدایا!
ممتاز قادری مرحوم پر سیاسی و مذہبی دکاندارای چمکنے لگی۔  اس نے اپنی زندگی بچانے کے لیے ریاست کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا تو اس وقت اسکی بے بسی سے زیادہ اسکے بوڑھے والد اور ایک معصوم بیٹے کی لاچاری دل کو دہلاتی تھی ۔ موت کی جانب بڑھتے ہوئے ممتاز قادری کی بے بسی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جو کہ ممتاز قادری سے لے کر ہر اس مسلمان کے لیے ایک عبرت ہے ۔ زندگی بھر کا سبق ہے جو کہ اپنا ذہن ملائیت کے پاس گروی رکھوا کر اپنے جیون کو ان کی جوشِ خطابت کے لیے درکار ایندھن کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ ممتاز قادری نے پاکستان کی عدالت کو بتایا کہ اس نے مفتی حنیف قریشی صاحب کی ایک تقریر سے متاثر ہو کر سلمان تاثیر کو قتل کیا۔۔۔ جب عدالت نے مفتی صاحب سے استفسار کیا تو وہی ہوا جو سیاست میں ہوتا ہے ۔ مفتی صاحب نے عدالت سے کہا کہ ہم تو درود والے لوگ ہیں بارود والے نہیں۔۔۔۔میں تو ممتاز قادری کو جانتا تک نہیں۔ ۔۔قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ مفتی صاحب کی وہ تقریر اب بھی یوٹیوب پر موجود ہے ۔اس تقریر میں مفتی صاحب کی انتہاؤں کو پار کرتی جنونی حرکات و سکنات کو دیکھ اور سن کر ذہنوں میں چند سوالات تو ضرور پیدا ہوتے ہیں کہ بارود ساختہ اس تقریر میں درود کہاں ہے اور کیا مفتی صاحب اپنا عمامہ اتار کر پھینکتے اور مائیک کو اٹھا کر سامعین کی طرف اچھالتے اور اسی طرح کی مجزوبیانہ حرکات کرتے ہوئے جانتے تھے کہ مجمع میں وہ کسی “خاص آدمی” سے مخاطب ہیں ۔ اللہ جانے،لیکن بہرحال سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

کاش کہ ممتاز قادری سے میں ملتا اور اس سے مفتی صاحب کے بیانِ حلفی پر تاثرات جاننے کی کوشش کرتا۔۔۔ انہیں قلمبند کرتا ۔ ان پر ڈاکومنٹری بناتا ۔اپنے سیمنٹ فیکٹری کے جگری یار سے لے کر عزیز و اقارب کی محفل کے باریش آدمی سمیت ہر ہر شخص کو دکھاتا۔۔۔ اسکے سامنے گڑگڑاتا۔۔۔ پاؤں پڑتا۔۔۔ ہاتھ جوڑتا اور کہتا کہ خدارا یہ رحیم و کریم خدا کا رحمت للعالمین پہ اترا ہوا سلامتی کا دین ہے۔ ۔۔ اسکا تشخص بچاؤ۔۔۔ خود کو بچاؤ اور اس دیس کو بچاؤ۔ ۔اسکی آنے والی نسلوں کو بچاؤ۔۔
مگر افسوس کہ میرے جیسے گمنام لکھاریوں کی قسمت میں کفِ افسوس ملتے ہوئے قلم سے آنسو بہانے کے علاوہ کچھ بس میں نہیں ہوتا ۔

میں بتا چکا کہ ہمارے ہاں کیا عشقِ رسول ص کا معیار کیا اور کیوں بنا دیا گیا۔۔ اس لیے اسی اصول کے تحت ممتاز قادری کو سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے توسط سے اپنے عشق کی دھاک بٹھانے کے لیے مختلف طبقات نے کیش کیا۔۔ یہاں تک کہ آئین و قانون کے محافظ وکیلوں نے عدالتوں میں منہ چوما۔  پھول نچھاور کیے اور مزہبی طبقے نے تو خیر ممتاز قادری کو برینڈ بنا کر بہت اشتہار سازی کی اور خوب دکانیں چمکائیں ،لیکن کوئی عدالت جا کر قانونی طور پر یہ کہنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ ہاں ہم ممتاز قادری کے ساتھ ہیں۔
بحرحال ممتاز قادری کو پھانسی ہو گئی اور دل تھام لیجیے گا ۔ وہی مفتی صاحب ،وہی عمامہ اسکی لاش کے پیروں میں رکھتے ہوئے دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں اور دنیا کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر شئیر کرتے ہیں۔۔۔ حیرت کیسی حضور۔۔۔ سیاست میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
ممتاز قادری کے خون سے اپنے سیاسی محل کی بنیادوں کو سیراب کرنے اور اسکے تابوت کی لکڑیوں سے اسکے ستون کھڑے کرنے میں مولانا خادم حسین رضوی صاحب سب پر سبقت لے گئے اور انہوں نے تحریک لبیک پاکستان کے نام سے سیاسی جماعت قائم کر لی۔
اسکے بعد تقریبا ایک دہائی تک منبرِ رسول ص عشقِ رسول ص اور ناموسِ رسالت ص کے نام پر نفرت ،حقارت اور اشتعال انگیزی کو شدید بد کلامی کے تڑکے کے ساتھ زہر بنا کر کانوں سے دلوں تک یوں انڈیلا گیا کہ الامان الحفیظ۔

مولانا صاحب ہر اختلاف کرنے والے کو جن مغلظات سے نوازتے رہے وہ یہاں لکھی نہیں جا سکتی ۔میرے جیسے طالبِ علموں کے لیے یہی سمجھنا نا ممکن تھا کہ عشقِ رسول ص میں جان لینے دینے کی باتیں کرنے والے رسول اللہ ص کی سب سے بڑی ایک سنت خوش اخلاقی ہی نہیں اپنا سکتے تو وہ دوسروں کو پیغمبرِ اسلام کی ناموس و عزت کیا سکھلائیں گے، اور سب سے بڑا اندوہ یہ رہا کہ مولانا صاحب نے میرے جیسے لوگوں کو حیرت اور شرمندگی کے اس گڑھے میں ڈال دیا جب ایک اینکر کی طرف سے گالم گلوچ پر اعتراض کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ تو بڑے بڑے صحابہ نے بھی کیا (معاذاللہ)۔۔۔لوگ اس وقت جب یہ کہتے تھے کہ چاہے وہ گالیاں دیتا ہے لیکن اسکا مقصد ٹھیک ہے ۔میرے جیسے لوگوں کے لیے یہ سمجھنا ممکن نہیں تھا کہ کسی بیرونِ ملک میں کسی اخبار میں کائنات کے سب سے معزز پیغمبر اور رحمت للعالمین کے (نعوذباللہ) خاکے چھپنے سے اگر ہم اپنے ملک کی سڑکیں بند کر کے پولیس والوں کو قتل تک کر دیں گے اور اپنے جیسے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیں گے جو ہمیں جیسے مسلمان ہیں تو اس سے ان ملکوں کا کیا بگڑےگا۔

یہاں کیونکہ حوالہ دیا گیا اس لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم سب یا اکثریت حنفی مسلمان ہیں  اور امام ابو حنیفہ کی تعلیمات کے مطابق توہینِ رسالت ص کی سزا موت نہیں ہے بلکہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک موت کی سزا ارتداد پر ہے جو توہین کی وجہ سے ہو جاتا ہے اور یہ کہ انکے مطابق خاتون کو موت کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اور نہ غیر مسلم کو توہین میں سزا دی جا سکتی ہے سوائے یہ کہ امن عامہ کا خطرہ ہو تو حکومت یہ سزا دے سکتی ہے۔ نیز شاتم کی توبہ اور معذرت قبول کی جا سکتی ہے۔ یہ نقطہ بہت ہی اہم ہے۔۔۔ اس کا مطلب امام ابو حنیفہ جن کی مذہبی تفہیم پر پورا حنفی مکتبہ ہائے فکر کھڑا ہے انکے نزدیک غیرت میں آ کر قتل کر دینا اسکا حل نہیں ہے بلکہ تائب ہونے کا موقع اور ماحول فراہم کرنا۔۔۔ جو کہ سلامتی کے مزہب کی بنیادی روح کے عین مطابق ہے جسکا مطمعءِ نظر توہین کو روکنا بذریعہ جان بخشی کرنا ہے نہ کہ زبردستی کی توہین وغیرہ سر تھونپ کر قتل کر دینا چاہے ۔جس سے کسی کی جان بھی گئی اور رحمت للعالمین کا تشخص بھی دنیا میں متاثر ہو۔۔۔۔
عوام میں مولانا خادم حسین رضوی صاحب کی بیان کردہ ناموسِ رسالت ص کی راسخ ہوتی تشریح دیکھ کر اس میں سے اپنا سیاسی حصہ بٹورنے کی ہر جماعت نے کوشش کی۔۔ہمیشہ سے مذہب کارڈ کھیلتی جے یو آئی (ف) بھی ختم نبوت اور ناموس ِ رسالت ص کو سیاسی پوائینٹ سکورنگ کے لیے استعمال کرتی رہی ہے ۔سلمان تاثیر کے بیان کے بعد بھی اس حکومت میں باہم شیروشکر رہنے والے مولانا فضل الرحمان اپنے مبینہ فنانسر اعظم سواتی اور وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کے درمیان جھگڑے کے بعد حکومت سے نکل کر سیدھا تحفظ ناموسِ رسالت ص میں پہنچے تھے۔۔۔اگر انہیں وزارت مذہبی امور مل جاتی تو انہیں سلمان تاثیر سے کوئی مسئلہ کیوں ہوتا ۔ حتی کہ ملک کے موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب جنہوں نے بھارت میں بیٹھ کر ممتاز قادری کی مزمت کی تھی اور کہا تھا کہ “پاکستان میں گورنرز کو قتل کرنے والے بھی ہیرو بنا دیئے جاتے ہیں ” انہوں نے بھی اس فیض آباد دھرنے کے دوران اس شدت پسندی میں سے اپنا سیاسی حصہ اینٹھنے کے لیے اپنی جماعت کو “تیار” رہنے کا حکم دے دیا تھا ۔ نون لیگ کی حکومت کے دوران ممبران کے حلف نامے میں ایک مشکوک تبدیلی کے نتیجے میں فیض آباد دھرنا ، اور اس پر سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس فائز عیسی کا نوٹس اور فیصلہ اور اسکے بعد سے آج تک جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنسز وغیرہ پیارے پاکستان کی سر زمین کو ایک مقتل بنانے کی اس دہائی میں خفیہ ہاتھوں اور کرداروں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔۔حال ہی میں کیپٹن صفدر صاحب کا اس ضمن میں مزہب کارڈ کھیلنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔۔۔۔ اور تو اور آپ اندازہ لگائیے کہ محترم مفتی تقی عثمانی صاحب نے ممتاز قادری کے متعلق کہا کہ اقدام غلط ہو بھی تو نیت کا ثواب تو مل جائے گا۔۔۔۔ او خدایا

المختصر یہ کہ اسکے بعد آئے روز دھرنے اور احتجاجی جلسے جلوسوں سے عمومی اجتماعات تک مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کا ایک ضعیف حدیث اور ادھورے بیان کردہ سیرت النبی ص کے واقعات کی روشنی میں پوری قوم میں نفرت کی بارآوری ہیجان خیزی اور اشتعال انگیزی کی ایک مہم اور باقی بیان کردہ کرداروں کی افسوسناک روش اب مکمل طور پر رنگ لا چکی۔۔۔۔ اور رنگ بھی خون کا رنگ۔۔۔۔ سرخ رنگ
سیالکوٹ ہو، چکوال ہو، فیصل آباد ہو۔۔۔۔ بہاولپور ہو یا میانچنوں ہو آئے روز ہونے والے یہ سانحات اسی زہر سازی کا پیش خیمہ ہیں۔  نہ جانے کون کب کہاں کس کو سسکا سسکا کر اور تڑپا تڑپا کر انتہائی بے دردی سے قتل کر دے اور کہہ دے کے گستاخ تھا وہ۔۔۔۔ شاتم تھا وہ۔۔۔۔ اس گریہ زار ماتم کناں تحریر میں بیان کردہ حقائق جاننے کے بعد اب آپ کو حیرت محسوس نہیں ہورہی ہو گی۔۔۔۔کہ عام آدمی تو کسی بلی کتے کو پتھر مارتے ہوئے درد محسوس کرے۔  یہ سنگدلی اور سفاکی کی کون سی فصل تیار ہو گئی جو پہلے اذیت دے دے کر جان نکالتے ہیں۔۔۔ پھر چہرہ مسخ کرتے ہیں۔۔۔ پھر کہیں لاش کو جلا دیتے ہیں کہیں درخت پر لٹکا دیتے ہیں۔

اسلامو فوبیا پر تقریریں کرتے اور ہر لمحہ اسلام کے خلاف سازشوں کی بو سونگھتے پاکستانی کیا یہ غورو فکر کرنے سے بھی قاصر ہیں جب سیالکوٹ سے میانچنوں تک اس طرح کی ویڈیوز تمام دنیا میں جائیں گی کہ لوگ انسانوں کو ڈنڈوں ،لاٹھیوں ،اینٹوں اور پتھروں سے مار مار کر اذیت ناک ترین موت سے دوچار کرتے ہوئے نعرہ تکبیر اور نعرہ رسالت ص لگائیں گے۔۔۔تو اس سے رب العالمین کے رحمت للعالمین پر مکمل کیے گئے سلامتی کے دین کا کیا تشخص ہو گا ۔ ہمیں چھوڑو آپ سرکار کا کیا تاثر جانے گا دنیا میں۔۔۔
ایک اور بہت ہی دردناک پہلو یہ ہے کہ اس سے بھیانک ترین جرم اور انسانی سوچ کی پراگندگی شاید ہی کوئی اور ہو جسکی خبر قتل کے بعد چلتی ہے کہ ناموسِ رسالت ص کی آڑ میں قتل کی اصل وجہ ذاتی تھی۔۔۔ اور یہی اس پچھلی دہائی میں سیاسی مقاصد کے لیے یہ مزہبی حساسیت پیدا کرنے کی مہم نے کیا جو لوگوں کو یہ رذیل ترین راستہ دکھایا کہ ذاتی عناد کو ناموسِ مزہب کی آڑ میں پورا کیا جائے۔

ایک آواز تھی نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق جس نے سلمان تاثیر کے قتل ناحق پر واشگاف انداز میں مذمت کرتے ہوئے کہا تھا اس قتل کی اعانت مت کیجیے ورنہ گھر گھر اور گلی گلی قتل ہونے لگیں گے ۔ اس آواز کی میں اس لیے عزت کرتا ہوں ۔ وہ آواز جاوید احمد غامدی صاحب کی آواز تھی۔۔۔۔ وہی آواز جو اکثرو بیشتر مقامات پر ہمیں صائب مشورہ دیتی پائی جاتی ہے۔۔۔ مگر جواب میں نہ جانے کیسی کیسی سمع خراشی سہتی ہے۔ وہ آواز ملک کے وزیراعظم صاحب کے سوشل میڈیا پر بھی وہی بات کرتے اب سنائی دی جو تب کر رہی تھی۔۔۔ میں انکی تفہیم کا اسی لیے قائل ہوں ۔۔ اللہ انکی وسعتِ تاثیر میں اضافہ فرمائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں ایک سوال پوچھتا ہوں کہ (معاذاللہ) کسی غیر مسلم کی طرف سے توہین آمیز خاکے نے چاند پر تھوکنے کے مصداق اس عظیم ترین تشخص اور تاثر کا کیا بگاڑا ہو گا جو گزند اسطرح کے مناظر انہیں پہنچا رہے ہیں جب انکے امتی لوگوں کو تڑپا تڑپا کر مارتے ہوئے پھر لاشیں جلاتے ہوئے اور درختوں پر لٹکاتے ہوئے ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت ص کے نعرے لگاتے ہیں اور پھر یہ مناظر مقتل سے براہِ راست ان لوگوں تلک پہنچاتے ہیں جو شاید ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوں کہ لو خاکے شائع کرنے کا مقصد پورا ہوا۔۔  خدایا رحم!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply