• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان کو جس رُخ پر ڈال دیا گیا ہے،وہ اس کا راستہ نہیں تھا۔۔اسد مفتی

پاکستان کو جس رُخ پر ڈال دیا گیا ہے،وہ اس کا راستہ نہیں تھا۔۔اسد مفتی

خبر آئی ہے۔۔
پاکستان نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی یا دریائے چناب اور دریائے نیلم پر متنازع ڈیموں کی تعمیر جاری رکھی،تو پاکستان اس بات کا حق محفوظ رکھتا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر متعلقہ عالمی اداروں سے رجوع کرکے کاروائی عمل میں لائے گا۔۔
خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت نے حسبِ معمول،حسبِ عادت نئی دہلی میں ہونے والے سالانہ اجلاس میں ڈیم بنانے والی جگہوں کا معائنہ کرانے کا مطالبہ مسترد کردیا،پاکستان نے بھارت کو وارننگ دی ہے کہ وہ پن بجلی منصوبے پر ہونے والےء اختلافات تین ماہ کے اندر طے کرے بصورت دیگر یہ معاملہ سندھ طاس معاہدے کی دفعہ 8(2)1کے تحت عالمی ماہرین کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
1960میں ہونیوالے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کو دریائے جہلم،دریائے چناب،اور دریائے سندھ کے پانی کے تمام حقوق حاصل ہیں،ایوب خان اور پنڈٹ نہرو کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ فریقین کا سال میں م از م ایک بار مل بیٹھنا ضروری ہے،بھارت کو ملنے والے پانی میں سندھ طاس کے مشرقی دریاؤں ستلج،بیاس اور راوی کے پانی کے استعمال کا حق حاصل ہے۔
ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کا کُل زیرِ کاشت رقبہ35ملین ایکڑ ہے جس میں دریائے جہل،چناب سے ملحقہ علاقوں کا زیرِ کاشت رقبہ 13ملین ایکڑ کے قریب ہے،ان ماہرین کے مطابق موجودہ حالات میں پاکستان کو دفاعی اور اقتصادی طور پر بچانے کی واحد دفاعی لائن کشمیر ہے،بھارت جب چاہے پاکستان کو اقتصادی مسائل کے حوالے سے ایتھوپیا بنا سکتا ہے،اس لیے کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ نہیں،بلکہ شہ رگ ہے،بھارت کی موجودہ حکمراں جماعت بی جے پی اور اس کے انتہا پسند لیڈر،اور فرقہ پرست رہنماؤں نے سب سے پہلے دریائے سندھ طاس معاہدہ منسوخ کردینے کا مطالبہ یا تھا، لیکن پاکستان کا واضح موقف دیھتے ہوئے انہیں خاموشی اختیار کرنی پڑٰ،مگر جیسا کہ کہتے ہیں کہ رسی جل گئی،مگر بل نہیں جاتا کہ مطابق ریاست جموں و کشمیر میں انہی انتہا پسندوں نے اسمبلی میں یہ قرار داد پیش کی تھی،کہ سندھ طاس معاہدہ پر نظر ثانی ہونی چاہیے،کہ یہ معاہدہ دریائے چناب کے پانی کے استعمال کی مخالفت کرتا ہے،جس سے مقبوضہ کشمیر وکو ماہانہ لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا ہے،وغیرہ وغیرہ۔۔
موجودہ حالات میں کسی جنگ کا امکان نہیں ہے،کارگل جیسے واقعات بھلے ہی دہرائے جائیں،اور ان دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑنے کا امکان تو تقریباً صفر ہے،لیکن میرے حساب سے مستقبل میں پاکستان و بھارت کے درمیان جھڑپیں ہونے کے امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔یہ جھڑپیں مختلف معاشی مفادات،قدرتی وسائل پر قبضہ اور پانی کے لیے ہوں گی۔
گزشتہ سال ہونے والی سندھ طاس کمیشن کی سالانہ میٹنگ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے ،اس میٹنگ میں پاکستان کے چھ ماہرین نے حصہ لیا،یہ میٹنگ ایسے حالات میں ہوئی جب سرحدوں پر حالات اشتعال انگیز ہیں،اور بھارت کے متعدد مرکزی وزراء آر ایس ایس کے لیڈر دفاعی ماہرین اور فرقہ پرست جماعتیں کھلم کھلا یہ مطالبہ کرچکے ہیں،کہ ہمیں یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ توڑ کر پاکستان کو پانی کی سپلائی بند کردینی چاہیے،ان کا خیال ہے بلکہ کام خیالی ہے کہ پاکستان کو کشمیر پر جھکنے کے لیے مجبور کرنے کا پانی کی سپلائی کرنے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان میں بہنے والے پانچ بڑے دریاؤں کا رُخ بحرِ عرب کی طرف ہے،اور یہ صدیوں سے اسی ڈگر پر بہہ رہے ہیں،ان کا موڑنا،روکنا یا بند بنانا کسی طور بھی ممکن نہیں،کہ 1960کے معاہدہ کے تحت پاکستان کو ان کے پانیوں کا مکمل حق حاصل ہے،1965اور 1971کی جنگوں میں بھی اس معاہدہ کی عمل داری پر کوئی حرف نہیں آیا تھا۔
لیکن آج جنگ کے بغیر ہی اس معاہدہ پر یکطرفہ روک ٹوک کی تلوار لٹک رہی ہے،تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان و بھارت کشمیر پر چاہے نہ لڑیں،پانی پر ضرور لڑسکتے ہیں،جب ہم نے تین دریاؤں ستلج،بیاس اور راوی پر بھارت کا حق تسلیم کررکھا ہے،تو بھارت کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے حصے میں آنے والے تین دریاؤں سندھ،چناب اور جہلم پر روک ٹوک لگانے کا سوچے؟۔۔
میرے حساب سے اسے یہاں منہ کی کھانی پڑے گی،ماہرین آب نے اس بات کا بھی تجزیہ کیا ہے کہ بھارت نے اگر چھی چھاڑ کے ذریعے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا انتہائی اقدام اٹھایا یا پاکستان کا پانی بند کیا تو نا صرف یہ فوری طور پر اسے اقدام کا کوئی ٹھوس فائدہ نہیں ہوگا بلکہ وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی ہوجائے گا،کہ کسی ملک کا پانی بند کرنا عالمی قانون کے مطابق بذاتِ خود ایک عمل ِ جنگact of warہے۔اس لیے میں اپنی اس امید میں حق بجانب ہوں کہ دونوں ملکوں میں جنگ ہو نہ ہو، کم از کم بندشِ آب یا منسوخیء آب جیسی غیر انسانی صورتِ حال نہی ں ہونے دی جائے گی۔
ہم بھی کرلیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply