خوابوں تک رسائی۔۔مرزا مدثر نواز

کائنات میں موجود کسی بھی مذہب‘ مسلک‘ فرقہ‘ نسل‘ رنگ‘ زبان‘ علاقہ‘ گروہ سے تعلق رکھنے والا اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ وہ ایک محدود مدت کے لیے بظاہر اس حسین نظر آنے والی دنیا میں قیام کرے گا اور ایک نہ ایک دن مسافر کی طرح اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہونا ہے۔ کچھ کے خیال میں یہی دنیا ان کی پہلی و آخری منزل ہے‘ جو عیاشی کر سکتے ہیں کر لیں‘ محلات بنا لیں‘ مہنگی گاڑیاں خرید لیں‘ زر و زمین جتنا سمیٹ سکتے ہیں‘ سمیٹ لیں‘ اپنی مادی خواہشات کی تکمیل میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو جائز و نا جائز طریقہ سے ہٹا دیں‘ مصائب و مشکلات و پریشانیوں والی یہی دنیا ان کے لیے جنت ہے کیونکہ اس کے علاوہ وہ کسی دوسری نا ختم ہونے والی زندگی کا تصور و ایمان نہیں رکھتے۔ کچھ زبان سے تو اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ زندگی عارضی ہے اور اصل زندگی اس کے بعد شروع ہونے والی ہے لیکن آئندہ کی زندگی کو خوبصورت بنانے کی بجائے وہ اسی زندگی کی تزئین و آرائش میں مصروف رہتے ہیں‘ اکثر ان کی زبان سے یہ جملہ بھی سننے کو مل جاتا ہے کہ ”یہ جہاں میٹھا ہے تو اگلا کس نے دیکھا ہے“ یعنی جو عیاشی کرنی ہے‘ کر لو۔ بہت ہی کم ہوں گے جو حقیقی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اس عارضی زندگی میں تگ و دو کرتے ہیں‘ جو نہیں کرتے‘ دوسروں کی زمینوں پر قبضے‘ اپنا شملہ اونچا رکھنے کی پرواہ‘ خواہشِ چودھراہٹ‘ لوگوں کی عزتوں کو رسوا۔ ایسے لوگ ہمیشہ اس ڈر میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں میرا رب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے‘ جنہیں پوری دنیا کی خوشنودی کی بجائے صرف ایک اللہ کی رضا کی پرواہ ہوتی ہے‘ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو جینے کے لیے جینا گوارہ نہیں کرتے‘ جن کی زندگی کا مقصد انسانوں کے لیے آسانیوں کا سبب بننا ہوتا ہے‘ جو اپنے جیسوں کی راہ میں روڑے نہیں اٹکاتے‘ انہیں بے جاتنگ نہیں کرتے‘ خود کو دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ تیار پاتے ہیں‘
؎ یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
آج کی بے حس دنیا میں یہ جملہ سننے کو عام ملتا ہے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں‘ دفعہ کرو میں اس جھنجھٹ میں کیوں پڑوں‘ کسی کی خاطر کیوں لڑائی مول لوں‘ کوئی مرتا ہے تو مرے‘ جیتا ہے تو جئے‘ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ میں نے کوئی یتیم خانہ نہیں کھول رکھا‘ کوئی ٹھیکہ نہیں لے رکھا دوسروں کے مسائل اپنے سر لینے کا۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ دوسرے کی جان بچانے کے لیے خون کا عطیہ دینے کا کتنا اجر ہے اور اس سے صحت پر کوئی منفی اثر بھی نہیں پڑتا‘ پھر بھی اپنے بیٹے و بھائی کو ایسا کرنے سے منع کروں‘ ایسا کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں سوچتا کہ کل اگر میرے کسی عزیز کو خون کی ضرورت پڑی تو پھر کیا ہو گا؟ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ تمام انسان ایک جسم کے اعضاء کی مانند ہیں‘ جن کی تخلیق ایک ہی عنصر سے ہوئی ہے‘ جب وقت کی آفات سے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے اعضاء قرار سے کیسے رہ سکتے ہیں‘ اگر تجھے دوسرے کی تکالیف سے کوئی سرو کار نہیں یا دوسرے کے درد کا احساس نہیں تو تُوآدمی کہلانے کے لائق نہیں‘
؎ بنی آدم اعضای یکدیگرند
کہ در آفرینش زیک گوھرند
چو عضوی بدردآورد روزگار
دگر عضو ھارا نماند قرار
تو کز محنت دیگراں بی غمی
نشاید کہ نامت نہند آدمی
اس نے ابھی ہوش نہیں سنبھالا تھا کہ شفقت پدرانہ سے محروم ہو گیا‘ غربت کے باوجود ماں کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا تعلیم جاری رکھے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس کی ماں نے ہر ممکن کوشش کی‘ پڑھائی میں اچھا ہو نے کی بدولت محلے کے ایک نیک دل انسان سے ہر سال یونیفارم اور نئی بکس کا تحفہ وصول کیا لیکن صرف باپ کے سامنے رکھی جانے والی ان گنت خواہشات کا گلا اسے زندگی کے کئی موڑ پر دبانا پڑا اور احساس کمتری کے بادل ہمیشہ اس کے سر پر منڈلاتے رہے۔ میٹرک میں پہنچا تو محلے کے ایک نوجوان نے غریب طلباء کو مفت ٹیوشن پڑھانا شروع کی‘ جہاں اسے ایک چھوٹی سی لائبریری تک رسائی حاصل ہوئی‘ غیر نصابی کتب کے مطالعہ نے معاشرے میں پھیلی ہوئی طبقاتی تقسیم کے خلاف اس کے اندر چھپی ہوئی نفرت اور مظلوم کی مدد کے جذبہ کو ابھارا‘ یہیں سے وہ باغی طبیعت کا مالک ہوا‘ اسے اس بات کا ادراک ہوا کہ سب سے بڑا جہاد ظلم کے خلاف کلمہ حق بلند کرناو مظلوم کی مدد ہے اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقہ کی مدد ہی اصل نیکی و مقصد حیات ہے۔ میٹرک کے بعد پینٹرزو آرٹس کا کام سیکھا اور ملک کے مختلف حصوں میں تلاش رزق کی خاطر قیام کیا‘ بیرون ملک بھی ٹھوکریں کھائیں لیکن کچھ کر گزرنے کی لگن نے کہیں بھی ٹکنے نہ دیا اور بالآخر اپنے آبائی علاقہ میں پینٹرز و آرٹس کی دکان کھول لی۔ سوشل میڈیا کا دور آیا تو لوگوں کی مدد کے جذبہ نے پھر سر اٹھایا اور مظلوم طبقہ کی ویڈیوز بنا کر شیئر کرنا شروع کر دی جنہوں نے اسے ایک مقامی صحافی کی پہچان دے دی۔ کلمہ حق بلند کریں اور پتھروں سے واسطہ نہ پڑے‘ یہ ممکن نہیں ہے لہٰذا اسے کئی دفعہ جسمانی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا اور حوالات کی ہوا بھی کھانا پڑی۔ اسی دوران اس کا تعارف علاقہ کے ایک نیک دل و مخیر شخص سے ہوا جس کے تعاون سے وہ کئی غریب و نادار افراد کی مدد کا ذریعہ بنا۔ اسی شخص کے تعاون سے اس نے ضلع گجرات کے ایک قصبہ گلیانہ میں ایک ویب نیوز چینل  کا آغاز کیا ہے جس کے ذریعے وہ معاشرے کے مسائل کو اجاگر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تا کہ ارباب اختیار کی نظر میں آ کر ان مسائل کا حل ممکن ہو سکے۔ وہ فن کا دلدادہ ہے اور اس کی دلی خواہش ہے کہ نوجوان موبائل نشہ سے باہر آئیں اور اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کا اظہار کریں‘ وہ نوجوان جو کسی بھی میدان میں کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں‘ اپنی ہچکچاہٹ کو دور کریں ۔ ایک غریب و متوسط طبقہ سے تعلق اور بے پناہ مشکلات و چیلنجز کے باوجود اگر محمد وحید نذیر اپنے خوابوں کا تعاقب کر سکتا ہے تو پھر اس جیسے دوسرے لوگوں کو بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور اپنے مقصد کو پانے کے لیے جدوجہد سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply