نظام کائنات ایک انجان سمت کی جانب چل نکلا ہے ایک بیماری نے انسان کی وفا کی حقیقت عیاں کر دی، کرونا وائرس کے شکار انسان کو اس کے چاہنے والے ماں باپ اور شریک حیات تک اچھوت سمجھتے ہوئے بالکل تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور بیماری سے ادھ موا ہوتا انسان اپنوں کی بے اعتنائی سے بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے، انسان کے انسان سے اس گریزکو دیکھتے ہوئے قیامت صغریٰ کا گمان ہونے لگتا ہے اور انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ قیامت سے پہلے کے حالات اس قدر خوفناک ہیں تو قیامت کی ہولناکی کا عالم کیا ہو گا ۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں قرب قیامت کی نشانیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے ،ہر شخص قیامت کی نشانیوں اور موجودہ حالات کا موازنہ کر رہا ہے، حالانکہ ہمیں چودہ سو سال پہلے ہی اس بارے میں خبردار کر دیا گیا تھا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح متصل ہیں ،ساتھ ہی آپﷺ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو پھیلا کر اشارہ کیا(مسند احمد:13041)۔
اس تناظر میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی قیامت کے قریب ہونے کی خبر دے دی گئی ،ساتھ ہی ساتھ زمین و آسمان کے درمیان برپا ہونے والے عظیم ترین فتنے کے بارے میں خبردار کیا گیا۔
سنن ابی ماجہ کی ایک حدیث میں حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! بلاشبہ زمین میں دجال کے فتنے سے بڑا کوئی فتنہ نہیں۔اس فتنے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت نوح کے بعد سے پیارے آقا ﷺ تک تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنی امتوں کو دجال کے فتنے سے ڈرایا جیسے کہ حدیث میں حضرت ابی عبیدہ سے مروی ہے کہ کوئی نبی سیدنا نوح علیہم السلام کے بعد نہیں گزرا، جس نے اپنی امت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ دجال کہتے ہیں ملمع سازی کو یعنی کسی حقیقت پر کسی اور شے کا ملمع ڈال دینا، لہٰذا دجال کا مطب ہے سب سے بڑا دھوکے باز اور چالبازاوردجال بھی اپنی شعبدہ بازیوں سے لوگوں کی عقل اور آنکھوں پر پردہ ڈال کر حقیقت کے برعکس مناظر پیش کرے گا ،لیکن دجال کے فتنے سے پہلے امت مسلمہ کو ایک عمومی دجال کے فتنے سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے ،مغرب کی ٹیکنالوجی کی گہرائیوں میں اترنے سے اس فتنے کی خوفناکی انسان کو اندر تک لرزا دیتی ہے۔اس فتنے کی سب سے پہلی سیڑھی مغربی نظام تعلیم ہے جس سے گزر کر انسان لبرل ازم کے رستے پر چل نکلتا ہے اور آج تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی اکثریت قیامت کی نشانیوں اور قرب قیامت کے فتنوں پر یقین نہیں رکھتے، بہت سے ایسے نوجوانوں سے پالا پڑتا رہتا ہے جو اسلامی تعلیمات اور پیشن گوئیوں کو دقیانوسی سمجھتے ہیں، بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو احادیث میں موجود پیشن گوئیوں کو دل سے تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کے برعکس یہودی اور عیسائی احادیث نبویہ ﷺ پر دل و جان سے ایمان رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے احادیث مبارکہ کی پیشن گوئیوں سے تعلیم لیتے اور عبرت پکڑتے ہوئے وہ سب حاصل کر لیا جو ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی نہ پا سک۔
قرآن مجید اور تمام الہامی کتابوں میں غوروفکر اور سوچ بچار کو بہت اہمیت دی گئی ،قرآن مجید کا بنیادی موضوع ہی انسان ہے جسے سینکڑوں بار اس امر کی دعوت دی گئی کہ وہ اپنے گردو پیش میں رونما ہونے والے حالات و واقعات سے باخبر رہنے کے لیے غوروفکر اور تفکر و تدبر سے کام لے اور اللہ تعالی کی عطا کردہ عقل و شعور کو استعمال کرتے ہوئے کائنات کے چھپے ہوئے رازوں کو جان سکے ،سورہ آل عمران کی آیت نمبر190 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
”بیشک آسمان و زمین کی تخلیق میں اور شب وروز کی گردش میں عقل سلیم والوں کے لیے نشانیاں ہیں ”
اپنی عقل اور غورو فکر کرنے کی صلاحیت سے یہودیوں اور عیسائیوں نے ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدان میں لازوال کامیابیاں حاصل کیں ہم لوگ دجال کی آمد کے منتظر ہی رہے اور انہوں نے عملی طور پر فتنہ دجال کو دنیا بھر میں عام کرنا شروع کر دیا،ٹیکنالوجی کی مدد سے شعبدہ بازی دکھانا بہت عام ہو چکا ہے اور لوگ اس کے عادی بھی ہوتے جا رہے ہیں ،یہودی جب ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے اہداف تک پہنچ جائیں گے تو دجال کا فتنہ سامنے آئے گا ،جسے سب معمول کے مطابق ہی لیں گے اور دجال کے خدائی کے دعوے سے پہلے لوگوں کی اس مہارت سے ذہن سازی کر دی جائے گی کہ مذہب سے دوری اور مذہبی باتوں کو دقیانوسی سمجھنے والے کمزور عقیدہ لوگوں کے لیے اس دعوے پہ یقین کرنا بہت آسان ہو گی العیاذ باللہ۔
دجال کے فتنے اور دجال کے حواریوں کی کوششوں سے قطعہ نظر ہمارا طرز عمل بالکل حیرت انگیز ہے، ہم وہ قوم ہیں جنہوں نے دجال کے فتنے سے بچنے کی کوشش کرنی تھی لیکن ہمارے نوجوان مفکرین قرآن پاک سے بال تلاش کرکے اللہ پاک کی نشانیاں ڈھونڈنے سے تشبیہ دیتے ہیں، توکچھ عظیم مسلم سائنسدان سبزیوں اور جانوروں پہ اللہ لکھا ڈھونڈ کر اسے غور فکر اور تفکر و تدبر کے معنی میں لیتے ہیں ۔
دریں اثناء ہمارا پڑھا لکھا طبقہ اپنی ناکامی اور ناہلی کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے یہودونصاری کو گالیاں دے کر اپنی خفت مٹاتا ہے یونیسکو کی سائنس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ سائنسدان پیدا کرنے والا ملک اسرائیل ہے، اسرائیل کے ہر دس لاکھ یہودیوں میں سے 8337 سائنس دان یا محققین ہوتے ہیں اور یہ تعداد امریکہ وبرطانیہ دونوں ممالک سے دوگنی ہے اور ہم بائیس کروڑ کی آبادی میں ایک سائنسدان بمشکل پیدا کر پاتے ہیں، ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ زمین پر فضیلت اور برتری اسی کے پاس ہو گی جوعقل کا استعمال کرے گا ،غوروحوض اور تفکر و تدبر کے بغیر علوم کے دروازے ہم پر نہیں کھل سکتے اور جب تک یہ دروازے بند رہیں تو تاریخ کا سفر رک جاتا ہے اور انسانی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہماری تاریخ اندھیروں میں گم ہے اور ہم آندھیوں میں بھٹک رہے ہیں ،دنیا بھر میں تعلیمی ادارے لوگوں کو صاحبان عقل بنا رہے ہیں جبکہ ہمارے تعلیمی ادارے بچے بچیوں کو نچا رہے ہیں ۔
آج جب ایک وباء نے دنیا بھر کے لوگوں کوہر مصروفیت سے فراغت دے کر گھروں میں محصورکر دیا ہے ایسے میں ہمارے پا س وقت ہے کہ ہم لوگ بھی حقائق کی دنیا میں جھانکیں اپنی معلومات میں اضافہ کریں ،تاریخ کے پرانے ابواب سے سبق لے کر اس میں نئے ابواب کا اضافہ کریں سوشل میڈیاپہ وقت کے ضیاع اور فضول سرگرمیوں کو موقوف کر کے عقل کا دامن تھا،میں محققین کو پڑھیں ،نئے علوم کھنگالیں اور نئی جہت اختیار کرکے اپنے آباء کے رستے پہ چلتے ہوئے یہود و نصاریٰ کو گالیوں سے نہیں بلکہ عمل سے جواب دیں، اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور غوروفکر کرنے کو اپنا شعار بنا لیں ورنہ زوال مسلسل کو اپنا مقدر بننے سے ہم خود بھی نہیں روک سکیں گے۔
وطن کی فکر کر ناداں!مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں