وفا اور زعمِ وفا۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

انسان عجب مخلوق ہے— جب خرچ کرنے پر آتا ہے تو سب کچھ خرچ کر دیتا ہے— حدِّ اعتدال سے گزر جاتا ہے— جب کسی پر مائل ہوتا ہے تو اپنی اوقات سے بڑھ کر وعدے کر لیتا ہے، جب نبھانے کی باری آتی ہے تو یہی انسان اپنے وعدوں سے ایسے منہ موڑتا ہے جیسے وعدہ کرنے کے ہجے بھی نہ جانتا ہو۔ اِس ظرف کو کم ظرف ہی کہا جا سکتا ہے۔ اِنسان کا یہ رویہ صرف انسان کے ساتھ ہی نہیں ʻبلکہ اپنے خالق کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب یہ اپنے خالق سے وعدے کرتا ہے تو اِس میں بھی حد سے گزر جاتا ہے— اپنے وقت ، وجود اور وسائل پورے کے پورے اُس کے نام اور کام کے لیے وقف کرنے کا وعدہ اور دعویٰ کرتا ہے، لیکن جب خرچ کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو اپنی ذات کو فوقیت دے دیتا ہے— کام و دہن کے کام مقدم ٹھہرا لیتا ہے اور سب مقدس حوالے فراموش کردیتا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ جب انسان اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ ایسی کم ظرفی کا مظاہرہ کرتا ہے تو شاید کچھ جھجک بھی محسوس کرتا ہے، لیکن اپنے رب کے ساتھ بے وفائی ʻبے دھڑک کرتا چلا جاتا ہے۔ خالقِ کائنات کا شکوہ بجا ہے: وما قدروا اللہ حق قدرہٖ ( اور انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی ، جیسا کہ قدر کرنے کا حق تھا)
اپنے خالق و مالک کےساتھ انسان کا تعلق تنہائی میں دریافت ہوتا ہے اور تنہائی ہی میں پروان چڑھتا ہے۔ جب وہ خود سے ہم کلام ہوتا ہے تو اِس دو میں تیسرا وہی ہوتا ہے۔ وہ تنہائی میں وعدہ کرتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہےʻ یامالک! تیری عطا ہے، تیری امانت ہے، اِسے میں تیرے نام پر وقف کرتا ہے، میں اِس کا امین ہوں، اصل مالک تُو ہے — بس تُو ہی تُو ہے— تُو میرے مال، منصب اور صلاحیت میں اضافہ کردے، اِس میں برکت ڈال دے، بس یہ مال تیرے ہی نام پر خرچ ہو گا، یہ منصب تیری امانت ہے، تیری مخلوق کی خدمت کے کام آئے گا اور یہ صلاحیت تیرے ہی دین کی سربلندی کے لیے استعمال ہوگی۔ یہ ہیں انسان کے وعدے، اس کے دعوے اور اس کا زعمِ وفا!! دعوے اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے۔ حقیقت کھلتی ہے ʻجب وقت کا پردہ سرکتا ہے۔ جب محفل تنہائی میں بدلتی ہے —جب انسان “خود یا خدا” ایسے عظیم خیال کے دوراہے پر کھڑا ہوتا ہےʻ جب قول نبھانے کا موسم آتا ہے—جب وقتِ قیام آتا ہے تو یہ نادان سجدے میں گر جاتا ہے — سجدہ خواہ توبہ کا ہو، قیام سے افضل نہیں۔ قیام کلام کا شرف عطا کرتا ہے، سجدہ یک طرفہ سرگوشی ہے۔ سچ تو ہے کہ اللہ ہی بندے سے وفا کرتا ہے، بندے کا ”عقیدہ“ ازل سے بے وفائی ہی رہا— اسی کارن ”ظلوماً جہولا“ کہلایا۔ ایک ازلی جفاکار ʻابدی وفا شعار سے دوستی کرنا چاہتا ہے— ذرا اِس کم ظرف کی ہمت تو دیکھو— اپنی اغراض میں سرتاپا گرفتار ʻ بے غرض سے دوستی کا ناتا جوڑنا چاہتا ہے!
ع دل اٹکیا بے پرواہ دے نال
انسان کا دعویٰ ہے کہ وہ وفا شعار ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت ِ انسان ایسا جفا کار بھی کوئی اور نہیں۔ تاریخ کے ہر موڑ پر، زندگی کے ہر مرحلے پر اور وقت اور وسائل کی تقسیم کے ہر موقع پر اِس نے بے وفائی ہی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ جفا کاری گویا اِس کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ جب اسے خرچ کرنے کا کہا جاتا ہے تواسے کفایت شعاری کا سبق یاد آ جاتا ہے، جب احسان کا سبق دیا جاتا ہے تو اسے قانون کی کتاب کھولنے کا دورہ سا پڑ جاتا ہے، جب ٹھہر جانے کا وقت ہوتا ہے تو یہ جانے لگتا ہے— جب اسے ساکن ہونے کا کہا جاتا ہے ʻ تو یہ حرکت نہیں بلکہ حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اِسے سکون ملتا ہےʻ نہ گوشۂ قربت میں سکونت ہی مسیر آتی ہے!!
دراصل انسان کو اپنی اصل یاد نہیں رہتی۔ یہ ماضی کو نہیں دیکھتا، بلکہ مستقبل کی ایک موہوم شبیہ دیکھ کر اپنا قد کاٹھ ماپنے لگتا ہے۔ اگر یہ ماضی کے حوالے سے حال کو دیکھتا تو خوش ہوتاʻ خوش حال ہوتا ʻبلکہ خوش خیال ہوتا — لیکن وہ تو ممکنہ مستقبل کے حوالے سے اپنے حال کا جائزہ لینے میں مصروف رہتا ہے اور یوں ناخوش و بیزار رہتا ہے — حال سے محروم ʻ خیال سے تہی رہتا ہے۔ خیال لمحۂ حال میں وارد ہوتا ہے، اگر ہم حال میں موجود نہ پائے گئے تو اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک آدمی سو رہا ہو اور اُس کے سوتے سوتے بارش برس کر تھم چکی ہو۔ بس! یہ جلدی میں ہے، یہ جلد از جلد اپنے مستقبل کی آخری سرحد تک پہنچنا چاہتا ہے— اور بھول جاتا ہے کہ مستقبل کی آخری سرحد کے فوراً بعد موت کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ زندگی کے سارے مراحل طے کرنے کے بعد اسے موت کا مرحلہ بھی درپیش ہوگا۔ اگر زندگی کا یہ آخری مرحلہ بھی اِس کے پیشِ نظر رہے تو اِس کی رفتار آہستہ اور شائستہ ہو جائے۔
بہرطور بات ہورہی تھی ʻانسان کے بلند بانگ دعووں اور وعدوں کی — انسان رہتا زمین پر ہےʻ لیکن زمین پر رہنا نہیں چاہتا۔ زمین پر رہنے والے کو اِک عجب لپک آسمان کی ہے۔ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اِسے کیا چیز بے کل کیے دیتی ہے— زمین کی لٹک یا آسمانی کی لپک؟ مشکل یہ ہے کہ اِس کا جسم زمینی ہے اور اِس کی روح آسمانی— آسمان پر بادلوں کی طرح اِک تہہ در تہہ مشکل یہ ہے کہ یہ آسمان کا سفر بالوجود کرنا چاہتا ہے۔ زمین پر رینگنے والا —قول کا بندھا— یہ مٹی کا مادھو آسمانوں پر پرواز کرنا چاہتا ہے۔ روح مجرد ہے، جسم مرکب۔ اِسے کوئی ایسی ترکیب نہیں سوجھتی جو اِس کے کثیف مرکبات کو لطیف مجرّد فضا میں محوِ پرواز کر سکے۔ حضرتِ انسان کے پاس ایک فوری حل یہ میسر ہوتا ہے کہ وہ عالمِ جسم میں ہوتے ہوئے روح کے تقاضے نبھانے کا قول و قرار کر لے۔ یہ قول ادا کرنے کے بعد پھر اِسے قرار نصیب نہیں ہوتا— روح اور بُت کا جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی بُت پرستی بمعنی نفس پرستی غالب آتی ہے اور کبھی روح کی محراب روشن ہو جاتی ہے۔
روح اور جسم کے تقاضوں میں اعتدال کی بات کی جاتی ہے لیکن یہ اعتدال جب عدل کا خیال رکھے بغیر اختیار کیا جائے تو بات حد ِعتدال سے نکل جاتی ہے۔ عدل کا تقاضا ہے کہ ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھا جائے۔ روح کا مقام بلند ہے ، اسے اور اس کے تقاضوں کو ترجیحات کے باب میں بلند تر مقام پر رکھا جائے، جسم عارضی ہے، اس کے تقاضے بھی عارضی ہیں، اسے اس کے عارضی محل میں رکھا جائے۔ جسم کبھی روح کا ”کفو“ نہیں بن سکتا، اس لیے روح اور جسم کے تقاضوں میں برابری کا سوال کھڑا نہ کیا جائے۔ جب رُوح اور رُوح کے تقاضے اپنے مقام پر قائم ہو جائیں گے تو جسم اور جسم کے تقاضے اَز خود اپنی حیثیت اور مقام پر آ جائیں گے۔ جسم کبھی اتنا بلند قامت نہیں ہوتا کہ روح کی برابری کرنے لگے۔ اس لیے جسم اپنی حد اور قد میں رہے۔ روح ہی کو زیبا ہے کہ وہ وجود کے محراب میں کھڑے ہو کر امامت کا فریضہ سرانجام دے! امام کا مقام اور ہے، مقتدی کا مقام اور!! مقتدی اپنی صف میں رہے، ترتیب اور تہذیب کی صفیں پھلانگ کر امام کے پہلو میں جا کھڑا نہ ہو۔
جب نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو دل میں ہر چیز کا تصفیہ ہو جاتا ہے— کون سی بات کہاں سے تعلق رکھتی ہے اور کس بات سے کتنا تعلق رکھنا ضروری ہے— ہر حکم صاف صاف واضح ہو جاتا ہے۔ قیام کے وقت سجدہ نہیں ہو گا اور سجدے کی حالت میں سرِمُو ʻسر نہیں اٹھایا جائے گا۔ ہر طریق اور طریقہ دور دور تک واضح ہو جاتا ہے۔ دل کے سودے پر عقل مزاحم نہیں ہوتی اور عقل کے میزان میں جذبات خلل نہیں ڈالتے۔ تزکیہ پاکیزگی ہے ، یہ پاکیزگی ʻفکر سے شروع ہوتی ہے اور عمل پر منتج ہوتی ہے۔ پاکیزگی کا وعدہ اور دعویٰ اور چیز ہے، پاکیزگی کا مقام ʻمقامِ دگر۔ وہ ذات سبحان ہے، پاک ہے— پاکیزہ نفوس کو پیدا کرتی ہے۔ جس نفس میں پاکیزگی کی طلب پیدا ہو جاتی ہے وہ پاکیزہ نفوس کا طالب بن جاتا ہے۔ نفس ہی نفس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی، پاکیزگی عطا ہوتی ہے۔ انسان کے ذمے طلب ہے، وہ اپنی طلب کا کاسہ تھامے رکھے۔ مایوس نہ ہو!! مایوسی کفر کی طرف لے جاتی ہے، اُمید ایمان کی طرف!!
درِ نبیؐ پر پڑا رہوں گا، پڑے ہی رہنے سے کام ہوگا
کبھی تو قسمت کھلے گی میری ، کبھی تو میرا سلام ہو گا
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتےʻ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمت للعالمینؐ سے تعلق میں کمزور نہ ہونا— درِ رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ رحمت للعالمینؐ کے دَر سے ٹیک لگائے رکھنا— مدینے والےؐ کے ہاں شفا بھی ہے اور شفاعت ہے— گناہوں کے مرض سے شفا— اور جرمِ گناہ کی سزا سے رہائی — شفاعت!! ہمارا ہر روز ہی روزِ حساب ہے — اور روزِ حسابʻ شافعِﷺ روزِ جزا ہی سزا سے بچاتے ہیں!!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply