• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ٹرانس جینڈرز ایکٹ – اصل مسئلہ بھی سمجھیے/شاہد عثمان ایڈووکیٹ

ٹرانس جینڈرز ایکٹ – اصل مسئلہ بھی سمجھیے/شاہد عثمان ایڈووکیٹ

وطنِ عزیز کے طول و عرض میں زیرِ بحث قانون Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018 پر مختلف پہلوؤں سے بات ہور ہی ہے۔ ہر مکتبہِ فکر کے دوست اپنی اپنی پوزیشن لئے کھڑے ہیں۔ لیکن جو نکتہ حقیقی توجہ کا متقاضی ہے اس کی جانب بہت کم لوگ توجہ دے رہے ہیں۔ یہ نکتہ “قانون کا حقیقی سوال” ہونے سے زیادہ ” امر واقعہ تحقیق طلب” ہے۔ ہمیں قانون کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے قانون کے حقیقی سوالوں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ لیکن کبھی کبھی امورِ واقعہ کو سمجھے اور اس پر نتیجہ خیز بات کئے بغیر قانون کی بات کرنا یا اس کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ زیرِ نظر موضوع کے حوالے سے ہمارے لئے یہی صورت حال ہے۔

مذکورہ قانون نے ٹرانس جینڈر کی تعریف میں تین طرح کے لوگوں کو شامل کیا ہے

(1) جو جنسی اعتبار سے پیدایشی طور پر مکمل مرد یا عورت نہیں ہیں ،

(2) جو پیدا ئش کے وقت تو عام لڑکے یا لڑکی کی طرح تھے لیکن بعد ازاں جسمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں مختلف جنس کے حامل بن گئے، 

(3) وہ جو خود کو اپنی پیدائش کے وقت سے موجود جنس سے مختلف سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں۔

معروف ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹس اپنے کیس کے حق میں پہلی قسم کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بیان کرتے ہیں، جبکہ مذہبی طبقے اور روایتی فکر کے لوگ اپنے مقدمے کی بنیاد تیسری قسم کے لوگوں کو دی گئی قانونی حیثیت کے تناظر میں امکانی مسائل کی پیچیدگیوں پر رکھتے ہیں۔

ہمیں یہ ماننے میں عار نہیں کہ عمومی سماجی تصورات کے زیرِ اثر ہم نے ماضی میں اس مسئلے کو کبھی قابلِ اعتناء  سمجھا ہی نہیں۔ حالیہ بحثوں نے احساس دلایا کہ ہم نے بطور سماج پہلی قسم کے افراد کو بھی کس بُری طرح نظر انداز کیے رکھا، کجا ہم تیسری قسم کے لوگوں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ ہم نے کسی کو یہ سنجیدہ سوال اٹھاتے نہیں دیکھا کہ جنسی خواہش جو کہ پیٹ کی بھوک جیسی بنیادی جبلت ہے اور جس کے پورا کرنے کے لئے ہم اپنے معاشرے کے مردوں کو چار شادیوں کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی کرتے رہتے ہیں، اس کے حوالے سے ہم نے پہلی قسم کے افراد کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کیا حل نکالا ہے۔ ؟

زیرِ بحث قانون پر تنقید کرنے والوں سے ہم نے تین طرح کی باتیں سنی ہیں

(1) عمومی سادگی سے بھرپور مشورہ یہ ہے کہ مرد خنثٰی کی عورت خنثٰی سے اور خنثٰی مشکل کی دوسرے خنثٰی مشکل سے شادی کرادی جائے ،

(2) کچھ بزعمِ خویش ماہرین بغیر کسی علمی و تحقیقی دلیل کے یہ فرما رہے ہیں کہ تمام قسم کے خنثٰی لوگوں کی جنسی خواہشات ہوتی ہی نہیں ہیں،

(3) ایک آدھ معزز عالم نے یہ فرمایا کہ ہاں، ان کے مسائل اگرچہ نظر انداز ہوئے لیکن نیا قانون یہ، نیا قانون وہ ۔۔۔۔

کالم نگار/شاہد عثمان ایڈووکیٹ

پہلی بات کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ جو شخص بے چارہ خود پورا مرد نہیں ہے، ایک نامکمل جسم کی حامل عورت کیسے اس کی ضرورت پوری کر سکتی ہے، یا وہ کیسے کسی بھی طرح کی عورت کی ضرورت پوری کر سکتا ہے؟

اس مسئلے کے حل کے لئے ہمارے ہاں کے علمائے بشریات اور فقہائے دین کے پاس کوئی قابلِ عمل تجویز نہیں ہے۔

دوسری بات ماہرین کی رائے کے بغیر کہی جارہی ہے، جس سے طب اور نفسیات کے ماہرین اتفاق نہیں کرتے ۔ اور تیسری بات تو محض جان چھڑانے کے انداز میں ایک ناکامی کا اظہار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

ان حا لات میں اس بات سے قطعِ نظر کہ قانون میں ترمیم ہوتی ہے یا نہیں، پارلیمان سے ہوتی ہے یا عدالت سے، اصل اہمیت کی بات یہ ہے کہ اب ماضی کی طرح محض نظریں چرائے رکھنا ممکن نہیں رہ گیا، لہٰذا علمائے دین و قانون کو علمائے بشریات و نفسیات کے ساتھ بیٹھ کر خنثٰی کمیونٹی کی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سنجیدہ حل نکالنا اور پیش کرنا پڑے گا، ورنہ محض پردہ پوشی سے کام نہیں چلے گا۔

دوسری قسم کے ٹرانس جینڈر ز سے کسی کو خاص مسئلہ نہیں۔ اصل ایشو تیسری قسم کے افراد کا ہے، جن کے لئے اپنی محسوس کردہ صنف وہ نہیں جو کہ ان کی جسمانی ساخت کے مطابق نظر آنے والی جنس سے مطابقت رکھتی ہو؛ یعنی مرد ہوتے ہوئے خود کو عورت یا عورت ہوتے ہوئے خود کو مرد سمجھنے والے افراد کا مسئلہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی صنفی شناخت کے حصول کے بعد اس کے بدنیتی سے غلط استعمال کے امکانات بھی موجود ہیں ؛ اور اس میں بھی شک نہیں کہ ہمارے ہاں کی صورت حال میں ایسی تبدیل شدہ شناخت کے بعد نئی صنف اختیار کرکے متعلقہ صنف کے افراد کے ساتھ میل جول پیدا کرنے میں سماجی و مذہبی مسائل کے علاوہ ، وراثت کے مسائل بھی پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں ( ایسے تمام مسائل کا قانونی حل دونوں طرف کے دلائل پر غور کرکے پارلیمان یا پھر عدالت کو نکالنا ہوگا) ۔

لیکن ہم جس نکتے کی جانب توجہ دلانا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ایک طبقہ ایسے افراد کے وجود سے ہی انکار کررہاہے، جو اپنی جنس کے برعکس صنفی احساسات رکھتے اور ایسے احساسات کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ اس طبقے کی نظرمیں اپنی جنس سے مختلف صنف ہونے کا احساس محض ایک ڈھونگ ہے، جس کا مقصد بدی پھیلانا یا مغرب کے ایجنڈے پر عمل کرنا ہے۔ بغیر کسی تحقیقی عمل کے نتائج پر انحصار کئے اتنی بلیک اینڈ وائٹ رائے دینا ہمارے ہاں ایک عوامی رجحان تو ہے، لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اپنے اپنے میدان کے پی ایچ ڈی حضرات بھی اس موضوع پر رائے دیتے ہوئے اپنے دلائل کے لئے کسی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ چونکہ یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے، تو کیا کسی نے اپنا مؤقف دینے سے قبل اس پر نفسیات کے ماہرین کی رائے لینے کی ضرورت بھی محسوس کی؟

ہمیں ایسی کوئی مثال نظر نہیں آئی۔ لیکن دوسری طرف دلچسپ بات یہ ہے کہ نفسیات کی ہی نہیں، دیگر تمام میدانوں کی بھی تقریباً  تمام تحقیق پچھلی چند صدیوں سے مغرب میں ہی ہو رہی ہے۔ وہاں اپنی جنس سے مختلف صنف کا احساس رکھنے کے حق کو فرد کا مقدس حق قرار دیا جا چکا ہے۔ وہاں کے ماہرین اس کیفیت کو ایک بیماری یا ڈس آرڈر بھی نہیں کہہ سکتے۔ اگر کہیں گے تو قانون ان پر گرفت کرے گا۔ ان کے لائسنس بھی ضبط ہو جائیں گے۔ اور چونکہ ہمارے ہاں بھی نفسیات کی پریکٹس میں مغرب ہی کے سٹینڈرڈ ز پر عمل ہوتا ہے، تو یہاں کے ماہرینِ نفسیات بھی اس موضوع پر اپنی رائے دینے سے کترائیں گے، تاکہ وہ جدید تحقیق اور رجحانات سے بے خبر فرسودہ قسم کے ماہرین نہ سمجھ لئے جائیں ( یہی وجہ ہے کہ اب تک کوئی ماہرِ نفسیات روایتی لوگوں کی مطابقت میں کسی بھی انداز کی رائے دیتا نظر نہیں آیا)۔

تو اب ہمارے ہاں یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا، اس پر کوئی بات نہیں ہو رہی۔ ہمارے ایک عالم دوست نے تو سیدھا سیدھا دو جمع دو چار قسم کا حل پیش کیا ہے کہ ایسے لوگوں کو بیمار سمجھ کر ان کا علاج کروایا جائے گا، اور اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہوئے تو انہیں بدی پھیلانے سے باز رکھنے کے لئے یا بدی پھیلانے کے جرم میں بندی خانوں میں ڈال دیا جائے گا۔ ایسے حل کو حل سمجھنا ہمارے لئے تو ممکن نہیں، آپ کیا کہتے ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

ایک بات البتہ ہمیں خوب سمجھ لینی چاہیے کہ زندگی کے لازمی (جبلی) مسائل کو اگر کوئی نظریہ ہمدردانہ حل نہ دے پائے تو یہ اس نظریے کے حاملین کی ایک بڑی ناکامی ہے، کیونکہ جبلی تقاضوں کو کسی معقول حد تک پابند تو کیا جا سکتا ہے، ان کی مطلق نفی نہیں کی جاسکتی۔ کامل نفی کی صورت میں جلد یا بدیر ان کے دھماکہ خیز انداز میں ابل پڑنے کا مشاہدہ کرنےکو تیار رہنا چاہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply