خدا بھاری پلٹنوں کے ساتھ نہیں۔۔محمد خان داؤد

والٹئیر نے لکھا تھا کہ ”خدا بھی بھاری پلٹنوں کے ساتھ ہوتا ہے“
دنیا میں مظلوم کو پٹتے دیکھ کر اور مظلوم کو آہ و بکا کرتے،ماؤں کو دھول اُڑاتی ایمبولینسوں اور پولیس موبائل کے پیچھے بھاگتے،ایمبولینسیں اور پولیس موبائلیں بہت آگے نکل جا تی ہیں اور دھول اور مائیں بہت پیچھے رہ جا تی ہیں۔ ماتمی ماؤں کو دیکھ کر،سفید داڑھیوں میں پہلے سردار،جاگیر دار،وڈیرے،بھوتار کا ہاتھ بعد میں تھانیدار کا ہاتھ دیکھ کر اور اپنی میلی قمیض کے میلے قف سے آنسو پونچھتے بوڑھے باباؤں کو دیکھ کر،ویران زمینوں میں،خالی نہروں میں،بہتے پانیوں میں،سیاہ راتوں میں ڈھلتی شاموں میں،ہو تی صبحوں میں (ان ابھرتی صبحوں میں سحر بھی ہو تی ہے پر یہ وہ سحر نہیں ہو تی جس کا وعدہ ہے)جھوٹی گواہیوں میں،پرانی قسموں میں،انسانی نازک نفیس جسموں کو سگ زدہ دانتوں میں،دھول آلود ہو تی پگڑیوں میں،عزتوں کی نیلامی میں،کانپتے ہاتھوں میں،لزرتے ہونٹوں میں،معافیوں میں،ایلازوں میں،بوڑھے لزرتے ہاتھوں کا جوان پیروں کو چھونے میں،بارود بارود ہو تے سینوں میں،لہو لہو ہو تے جسموں میں،دھونہ دھونہ ہو تے جسموں میں،راتوں کے ٹھہر جانے میں،صبح کی بے قراری میں،گرم دپہروں کا شاموں میں ڈھل جانے میں،ہجوم میں،ہجوم کے بے ہنگم شور میں،مصلوب مسیح کے شِل کاندھوں میں،کاندھوں کے زخموں میں،زخموں پر بھنبھانتی مکھی کی اُڑان میں اور اس مکھی کے سبب مسیح کی بے قراری میں!
اور مسیح کی اس التجا میں
”مولا!میں نے آج تک آپ سے کچھ نہیں مانگا
بس آج یہ مانگ رہا ہوں
پیروں میں پھسے پتھروں کو نکال دے
اس پتھر کے سبب پیروں میں کچھ تیزی آ گئی ہے
اور پیچھے ماں چل نہیں پا رہی
وہ گر رہی ہے
وہ ٹھوکریں کھا رہی ہے
مولا!پیروں میں پھسا پتھر
اور زخمی پر بھنبھا تی مکھی دور کردے!“
مسیح کی تمام دعاؤں میں،مریم کے سفر میں،بے قراری میں،مریم کی جوتیوں کی اُلجھوں میں اور پیروں کی ٹھوکروں میں،ماؤں کی میلی مانگوں میں!
اداس بہتی آنکھوں میں
دعا کو اُٹھتے ہاتھوں میں
بے قرار دل میں
بے قرار دنوں میں
سیاہ راتوں میں
دروازوں کی آہٹ میں
دلاسوں میں
اور طویل انتظاروں میں
کہیں خدا نہیں
کیوں کہ وہ سب اکیلی اکیلی ہیں
مریم سے لیکر سمی تک
اور سمی سے لیکر شام کی رقعہ حسین تک
سب اکیلی ہیں
وہ پلٹن نہیں،ہجوم نہیں،وہ نہتی ہیں۔وہ سچ ہیں۔وہ حق ہیں یہاں تک کہ وہ اناالحق کا نعرہ ہیں
والٹئیر نے لکھا کہ
”خدا بھی بھاری پلٹنوں کے ساتھ ہوتا ہے!“
زمانہ بیت گیا وہ تنہا ہی رہی ہیں،وہ اکیلی ہی رہی ہیں علی نے سچ کے لیے پہلی بات جو کہی وہ یہ تھی کہ
”سچ کی پہلی پہچان ہی یہی ہو تی ہے کہ اسے اکیلا کر دیا جائے!“
سچ جیسی سمی اکیلی ہے
سچ جیسی مہلب اکیلی ہے
سچ جیسی شام کی رقعہ حسین اکیلی تھی
سچ جیسی کریمہ اکیلی تھی
جو سچ،دھرتی اور اناالحق پر واری گئیں،
وہ سب سچ جیسی سکھیاں اکیلی ہیں جو جہاں بھی ہیں،پر ان کا نعرہ اناالحق تھا،ہے اور رہے گا
والٹئیر کا خدا بھلے بھا ری پلٹنوں کے ساتھ ہو
پرحسین کا خدا سچ کے ساتھ ہے،شاہ عنایت کا خدا سچ کے ساتھ ہے،مولا علی کا خدا سچ کے ساتھ ہے۔کریمہ کا خدا سچ کے ساتھ ہے،لطیف کا خدا سچ کے ساتھ ہے۔سرمد کا خدا سچ کے ساتھ ہے۔سمی کا خدا سچ کے ساتھ ہے رقعہ حسین کا خدا سچ کے ساتھ ہے،اسیروں کا خدا سچ کے ساتھ ہے،رو تی ماؤں کا خدا سچ کے ساتھ ہے۔مسافر ماؤں کا خدا سچ کے ساتھ ہے۔دھول آلود پیروں اور اجڑی مانگوں والی بیٹیوں کا خدا سچ کے ساتھ ہے،قرت العین طاہرہ کا خدا سچ کے ساتھ ہے۔ابھرتی سویروں اور ڈلتے دنوں کا خدا سچ کے ساتھ ہے،ٹھہر جانے والی موسموں اور برستی بارشوں کا خدا سچ کے ساتھ ہے،مصلوب مسیح کا خدا سچ کے ساتھ ہے سچائی کی گیت لکھتی طاہرہ اور سچائی کے گیت سنتے محمد علی باب کا خدا سچ کے ساتھ ہے مسیح کے پیچھے ہجوم ِ یاراں میں چلتی مریم کا خدا سچ کے ساتھ ہے
وہ خدا کسی بڑی بھا ری پلٹن کے ساتھ نہیں ہو سکتاجو شہہ رگ کے قریب ہے
جو دل کی بستی کا پہلا اور آخری مکین ہے
جس نے انسانوں،کوہساروں،دریاؤں،ندی نالوں،جنگلوں اور صحراؤں میں اپنی محبت کے پرتو دکھائے
وہ خدا سچ کو تنہا اور اکیلا کیسے کر سکتا ہے
والٹئیر کا ”خدا بھی بھاری پلٹنوں کے ساتھ ہوتا ہے!“
پر مظلوم کا خدا سچ کے ساتھ ہو تا ہے
ڈرپھوک ہاتھ رقعہ جیسی دلیر بیٹیوں کو قتل کرتے ہیں سمی،مہلب جیسی بیٹیوں کو دکھ دیتے ہیں
پر یہ سچ جیسی بیٹیاں پھر گلاب کی کلیوں کی ماند اُگ آتی ہیں
آج کوجانے کہ شام کی گلیوں میں کون کون مارا گیا اور کون کون کہاں کہاں دفن ہے
پھر سب جانتے ہیں کہ سچ جیسی بیٹی رقعہ شام کے کس پھانسی گھاٹ میں فائرنگ اسکوائڈ کے سامنے کھڑی کی گئی اور کہاں دفن ہوئی اور اس کے لحد پر اب کون سا پھول مسکرا رہا ہے؟
کون جانے کہ بلوچستان اور کراچی کی شاہرا ہ پر کون کون سے پیر گزرے؟
پر جہاں جہاں سے سمی گزری وہاں پھول اُگ آئے اور لہو بھرے پسنے سے وہ
سُرخ بھی ہیں
اور جھوم بھی رہے ہیں!
سچ وہ کلی ہے جوں جوں جہاں جہاں سے قتل ہو تی ہے پھر نئے سرے سے نمودار ہو جا تی ہے
سچ مارا تو جا سکتا ہے
پردفن نہیں ہو سکتا
شام کی رقعہ حسین
اور بلوچستان کی سمی سچ ہیں!
رقعہ پھول بن کر شام کی دھرتی میں سما گئی
اور سمی سفر در سفر بن کر بلوچ دھرتی پر گھوم رہی ہے
سچ پتنگا ہے
دیپک ہے
لہو ہے
لاٹ ہے
ساز ہے
سُر ہیں
اور ہماری بیٹیاں رقعہ حسین شامی
اور سمی بلوچ بھی
سچ ہیں
دیپک ہیں
لہو لہو ہیں
ساز ہیں
گیت ہیں
سُر ہیں
ان کو کوئی آنچ نہیں سچ کو کوئی آنچ نہیں
روز پتنگے جل جا تے ہیں
دیکھ دئیے کی لاٹ وہی ہے
ایک بجھے تو دوجے دیپک
روز جھروکے جھمکاتے ہیں
دیکھ دئیے کی لاٹ وہی ہے
کچھ دل والے ویرانوں میں
ہنس کر لہو کھلاجاتے ہیں
دیکھ دئیے کی لاٹ وہی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply