رنگ ساز۔۔محسن علی خان

یہ ستمبر 2019 ء کی بات ہے۔ گھر کی دیواریں، چھتیں، کھڑکیاں اور دروازے ایک دفعہ پھر اپنے اوپر رنگ وروغن کروانے کی دہائی دے رہے تھے ،لہذا اِن کی خواہش کا احترام کرتے ہوۓ اپنے پرانے قابل اعتماد رنگ ساز جس کی انگلش“ پینٹر“ بنتی ہے، اس کو بُلا کے ان کا واویلا سنایا گیا اور ہدایت جاری کی“ پورے گھر کو رنگ چڑھا کے لَش پَش کر دیا جاۓ“۔ رنگ ساز اور اس کے باقی ساتھیوں نے حسب روایت پوری دلجمعی کے ساتھ اپنا کام شروع کر دیا۔

ایک دن جب میں اِن سب کے لئے چاۓ لے کر آیا تو پینٹر دیوار کے اوپر رنگ کرنے میں مگن تھا، میں نے اُس کو مخاطب کیا اور چاۓ کا کپ پکڑایا۔ اُس نے مُسکرا کر میری طرف دیکھا، میرا شکریہ ادا کیا اور فرش پر بیٹھ کر چاۓ پینے لگا۔ میں بھی اس کے پاس پڑی ایک پینٹ والی چھوٹی ڈرم پر بیٹھ گیا۔ چاۓ پیتے ہوۓ اُس نے افسردگی سے کہا میری آج کی محنت ضائع ہو گئی ہے، اگر میرے والد محترم آج زندہ ہوتے، وہ مجھ سے ناراض ہو جاتے اور میرا جوتا تبدیل کروا دیتے۔ میں نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا، اس نے چاۓ کا لمبا گھونٹ بھرا، گہری سانس لی اور بتایا آج اس کی جوتی کے نیچے کچھ چھوٹی چیونٹیاں آگئی ہیں۔ میں نے اُس کی دلجوئی کے لئے کہا ۔۔ایسے تو روزانہ ہزاروں چیونٹیاں ہمارے پاؤں تلے آکے مر جاتی ہیں۔

اُس نے چاۓ ختم کی، کپ کو واپس ٹرے میں رکھا، میری طرف دیکھا اور پُریقین انداز میں کہا، استاد جی، میرے والد کے پاؤں تلے آکے کبھی کوئی چیونٹی نہیں مری ہو گی۔۔

میں نے حیرانی سے اُس کی طرف دیکھا، اس نے میری آنکھوں میں چھپے سوال کو پڑھا اور اپنی بات جاری رکھی۔ اس نے کہا میرے والد نے پوری زندگی کوئی سخت تلوے والا جُوتا نہیں پہنا، تاکہ کوئی چیونٹی تلوے کی سختی سے مر نہ جاۓ، وہ نرم فوم کی ٹائپ والے تلوے کی جوتی پہنی رکھتے، ان کا خیال تھا کہ تلوے کی نرمی کی وجہ سے اوّل تو کوئی چیونٹی مرے گی نہیں، اگر مر بھی جاۓ تو اس کو اذیت نہیں ہو گی۔ وہ اس معاملہ میں اتنے حساس تھے کہ اپنی شادی والے دن بھی غیر روایتی انداز میں نرم چپل پہن کے دلہن بیاہ لاۓ۔ وہ کہتے تھے ایسے کرنے سے میرے نفس کو سکون ملتا ہے۔ انہوں نے ساری زندگی اچھے اخلاق  کے ساتھ گزاری، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ” انسان صرف اُس دن انسان بنا ہوتا ہے جس دن اُس نے کسی کو تکلیف نہ دی ہو، حتی کہ  کسی چیونٹی کو بھی“۔

رنگ ساز نے میرے چہرے کے اُڑے ہوئے  رنگ کو دیکھا، کھڑا ہوا، اپنے کپڑے جھاڑے اور یہ کہتے ہوۓ واپس اپنے کام کی طرف متوجہ ہو گیا“ ہم تو گناہ گار بندے ہیں جی“۔۔۔

مجھے وہ چیونٹی یاد آگئی جس نے سلمان کا لشکر دیکھ کر آواز لگائی کہ  میرے قبیلے والو، اپنے بِلّوں میں گھس جاؤ، کہیں یہ اشرف مخلوق تمہیں اپنے قدموں تلے روند نہ ڈالے، کائنات کے رب کو اس چیونٹی کی فِکر سے لگائی صدا اتنی پسند آئی کہ اس کے ذکر کو قرآن میں بلند کیا۔

میں کچھ دیر اپنے خالی دل اور زنگ آلود نفس کو لے کے دیوار پہ ہوتے ہوۓ رنگ کو دیکھتا رہا، برش جیسے جیسے دیوار پہ چلتا جا رہا تھا دیوار کی پیلاہٹ ختم ہوتی جا رہی تھی اور اس پہ خوبصورت روشن رنگ کی تہہ چڑھتی جا رہی تھی۔

مجھے اپنے اعمال سیم زدہ دیوار سے اُکھڑتی ہوئی سفیدی کی طرع زمین پہ گِر کے خاک چاٹتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ میں اپنی طرف سے اخلاق کی بہت سیڑھیاں چڑھ کے منازل پہ منازل طے کر رہا تھا لیکن رنگ ساز کی بات سُن کے مجھے لگ رہا تھا جیسے کسی نے میرے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی ہو۔ مجھے اپنا بے رنگ وجود ہوا میں معلق نظر آرہا تھا۔

انسان اپنے نفس مطمئنہ اور نفس اِمارہ سے لڑتے بھڑتے، نفس لوامہ اور ملحمہ کی کشمکش سے نکل کر“ اشرف المخلوقات“ کا لقب پانے کے لئے جب بلندی کی طرف جاتی سیڑھی پہ قدم بہ قدم چڑھنے کی کوشش شروع کرتا ہے تو اس کے نفس بھی اس سے ایک قدم آگے چڑھ رہے ہوتے ہیں تاکہ انسان کو راستے کی منازل جلدی طے کروا سکیں۔ انسان بہت جلد نفس کے اس جھانسے میں آ جاتا ہے کیوں کہ“ وَ کَانَ الاِنسَانُ عَجُولًا•“ اور انسان جلد باز ہے (القرآن)۔

ہم اپنے نفس کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں، ہم جلدی جلدی اشرف المخلوقات  بن کے باقی مخلوقات کو اپنے زیر تابع کرنا چاہتے ہیں۔ چاند کی فتح اور مریخ پہ قبضہ کر کے اس کائنات کے باقی تمام عالموں پہ ہماری نظر ہے لیکن ہماری سانسوں میں چلتا نفس ہم سے قابو نہیں ہو رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری جلد بازی ہی ہمیں نفس کے ہاتھوں شکست تک لے آتی ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہمیں محسوس ہو گا ، کسی کو پانی پلا کے ہم جلدی سے آخرت کے چشموں کی ملکیت کا دعویٰ  کرنے لگ جاتے ہیں، ایک پل کسی کی مدد کرتے ہیں دوسرے پل جنت میں بنے اپنے محل کی اینٹیں گننے لگ جاتے ہیں۔ کسی کو مُسکرا کے دیکھتے ہوۓ اپنا سینہ چوڑا کر کے اپنے آپ کو اخلاق کے بلند تخت پہ چڑھا لیتے ہیں۔ اگر وہ جواب میں نہ مسکراۓ تو اس کی بد اخلاقی پر تخت سے اتر کر سخت تلوے والے جوتے سے مارتے ہیں۔ اذیت دینے سے ہمارے نفس کو سکون ملتا ہے۔ اصل میں ہم اب نرم جوتا پہن ہی نہیں سکتے کیونکہ اس کے لئے ہمیں اپنے دل کا تلوہ نرم کرنا پڑے گا۔ اسی وجہ سے ہمارے دِل کی نرمی ہمارے نفس کی سختی سے شکست کھاتی رہتی ہے۔ پھر جس دن ہم نفس کو تسخیر کریں گے اس دن ہمیں آواز آجاۓ گی“ اے اطمینان والی جان، اپنے رب کی طرف واپس ہو ،یوں کہ تو اُس سے راضی ہو ،وہ تجھ سے راضی ہو، پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو اور میری جنت میں آ“۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply