• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • تاریخ کا جدلیاتی مادیت پرستی کا نظریہ۔۔عامر حسینی

تاریخ کا جدلیاتی مادیت پرستی کا نظریہ۔۔عامر حسینی

کیا تاریخ کا جدلیاتی مادیت پرستی کا نظریہ علی ابن ابی طالب کو اسلام کی ابتدائی تاریخ میں امن کا دشمن اور جنگ پرست ثابت کرتا ہے؟
کیا علی ابن ابی طالب اسلام کے ابتدائی دور میں ہونے والی خانہ جنگی اور ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے؟
کیا بعد از شہادت عثمان جو جنگیں ہوئیں وہ علی ابن ابی طالب کی اقتدار پرستی کا نتیجہ تھیں؟

ایک شخص جسے یہ دعویٰ ہو کہ وہ مادی جدلیاتی سائنس کی روشنی میں علم تاریخ کو جانچتا ہے اور وہ اسلام کی ابتدائی تاریخ کے ایک واقعے کو اس کے سیاق و سباق سے جوڑ کر اُس زمانے میں جس مکان میں وہ زیر بحث واقعہ رونما ہوا کی سماجی طبقاتی گروہی تقسیم کو زیر بحث لائے بغیر کسی شخصیت پہ الزام دھر دیتا ہو اور پھر وہ ایک طرف تو مذہب پرستوں اور لبرلز کو دو مخالف انتہاپسندیاں قرار دے اور انسان کی آزاد سوچ کو اُن سے بچانے کی کوشش کرے لیکن خود بھی انتہاپسندی کی ایک تیسری انتہا کو پہنچ جائے –

ابتدائی اسلام کی تاریخ بارے اب تک جو موقف اس زمانے کے سماج کی سماجی گروہی تقسیم اور حرکیات کو نظر انداز کرکے بعد ازاں فرقہ بندی کی شکل میں سامنے آئے اُن میں ایک موقف اہلسنت کے مذاہب اربعہ کے جمہور علما  کا عقیدہ ہے جو “حضرت علی ابن ابی طالب کی حکومت کو خلافت راشدہ کی چوتھی کڑی بتاتے ہیں اور اُن سے لڑنے والوں کے اقدام کو غلط قرار دیتے ہیں اور جنگ جمل، صفین اور نھروان میں وہ حق پہ علی ابن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کو قرار دیتے ہیں – لیکن وہ اسلام میں سبقت، شرف صحابیت کے سبب ان جنگوں میں علی ابن ابی طالب کے مقابل آنے والوں کو بُرا بھلا کہنے سے روکتے ہیں اور اسے فعل حرام کہتے ہیں۔“

دوسرا موقف جمہور شیعہ کا ہے ۔یہاں شیعہ سے مراد وہ تمام گروہ ہیں جو حضرت علی ابن ابی طالب کے مدمقابل آنے والوں نہ صرف خطاکار مانتے ہیں بلکہ اُن سے اظہار برات و بے زاری کو بھی لازم قرار دیتے ہیں ۔

تیسرا موقف ناصبیت کا ہے جو اس باب میں حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کو ناحق قرار دیتا ہے اور یہ گروہ علی ابن ابی طالب پہ خون عثمان اور بعد میں ہونے والی ساری قتل و غارت گری کا مرتکب ٹھہراتا ہے  اور علی ابن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کی مذمت کرتا ہے ۔

چوتھا موقف جو اگرچہ اب تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا ہے آج اس موقف کا حامل باقاعدہ کوئی نظریاتی گروہ موجود نہیں ہے وہ خوارج کا تھا جن کے نزدیک جنگ صفین میں ثالثی سے پہلے تک علی ابن ابی طالب حق پہ تھے اور اس کے بعد وہ اور ان کے مدمقابل دونوں اور ان کے ساتھی اسلام سے خارج ہوگئے ۔

پاکستان میں اس وقت سطحی علمیت اور جذباتیت کے ساتھ ایک اور پوزیشن رفتہ رفتہ باقاعدہ ایک ڈسکورس کی شکل میں سامنے آرہی ہے اور وہ ڈسکورس کے سبب ایک ایسا بیانیہ تشکیل دے رہی ہے جو ہمیں بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث کے زیادہ شدت پسند حلقوں میں مقبولیت پارہی ہے – یہ ڈسکورس یہ بیانیہ دیتا ہے کہ علی ابن ابی طالب اور ان کے مدمقابل شخصیات کے درمیان سرے سے کوئی نظریاتی اختلاف موجود ہی نہیں تھا، نہ قتل عثمام جمل، صفین وغیرہ ان کے درمیان اختلاف کے سبب ہوئی بلکہ یہ تو تینوں فریقین کے اندر موجود ایک فرقہ سبائیہ کی کارستانی تھی اور یوں یہ پوزیشن لینے والے امیر شام اور ان سے جڑی شخصیات کو بھی گلوریفائی کرتا ہے ۔

عمران شاہد بھنڈر نے اپنی ایک پوسٹ میں نہایت غیر علمی نری جذباتیت پہ مبنی موقف اختیار کیا-۔وہ ایک مارکس وادی دانشور کے طور پہ خود کو پیش کرتے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پہ ابتدائی مسلم عرب سماج میں حضرت عثمان رض رونما ہونے والی بہت بڑی سماجی بغاوت کی تحریک اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات اور خانہ جنگی کے پیچھے موجود سماجی تضادات کو زیر بحث لانے کے وہ ان سارے واقعات کی ذمہ داری ایک شخص پہ ڈال دیتے ہیں – وہ ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ شخص “کم عقل” اور “بزدل” تھا جبکہ یہ دو الزامات تو ان کے سخت ترین مخالف نے بھی نہیں لگایا تھا –
وہ مذھب پرستوں اور لبرلز کو طعنہ دیتے ہیں وہ آزاد تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں جبکہ دوسری طرف وہ ہمارے دوست وجاہت ہمدانی کو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ “پرانی مذہبی باتیں” کررہے ہیں اور محبت میں ایسا کہتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ ایسا کہنے والا خود کون سا “جنگ جُمل” کا آزاد تجزیہ کررہا ہے اور اگر وجاہت شاہ نے پرانی مذہبی بات محبت میں کی تو خود بھنڈر نے بھی تو “انتہائی نفرت” کے زیر اثر سارا الزام علی ابن ابی طالب رض پہ ڈال کر کون سا آزاد تجزیہ کیا ہے ۔
وہ اپنی پوسٹ میں کہتے ہیں
“شیعہ کے پاس ساری کی ساری  جھوٹی روایات ہیں“

یہ بات اس موضوع پہ اُن سنجیدہ تحقیق کرنے والوں نے بھی نہیں کی جو شیعہ کے موقف سے کلی اتفاق نہیں کرتے – پہلی اور دوسری صدی ہجری کے اب بہت سارے متون موجود ہیں اور پہلی و دوسری صدی ہجری میں لکھے گئے ان واقعات بارے متن ہمارے سامنے ہیں اور ان متون کا تجزیہ و تحلیل “نفرت اور محبت” کے جذبات کے زیر اثر کرنے سے “نراجیت” تو پھیل سکتی کوئی سنجیدہ تجزیہ سامنے نہیں آسکتا-

میرا اپنا تعلق اسلام کی ابتدائی تاریخ پہ تحقیق کرنے والے اس گروہ سے ہے جس کا موقف ہے کہ جس دور کو “فتنہ (آزمائش)” کا دور کہا جاتا ہے اس دور کے بڑے بلاد اسلامیہ ( مدینہ و مکہ و کوفہ و بصرہ و شام) کی سماجی معاشی اور سماجی سیاسی ترکیب اور قائم اسلامی امارت کے طرز حکومت اور ان کے پس منظر میں اٹھنے والی تحریک میں شامل گروہوں کی سماجی طبقاتی ہئیت کا تجزیہ کیے بغیر اور ان بلاد اسلامیہ کے اندر موجود حکمران طبقات /اشرافیہ کی نشان دہی اور ان کا ردعمل جانے بغیر ہم کوئی سماجی سائنسی تجزیہ جس کو کم از کم شدید نفرت یا شدید محبت کے زیر اثر بنایا جانے والا تجزیہ نہ کہا جاسکے نہیں بناسکتے –

Advertisements
julia rana solicitors

علی ابن ابی طالب کا جو کیمپ تھا اس کیمپ میں ہمیں ابو زر غفاری سے لیکر جتنے بھی اصحاب و اہل بیت نظر آتے ہیں اُن کا سب سے بڑا وصف “اشرافیت” کے خلاف ہونا ہے اور اُن کے اسی وصف کی وجہ سے بلاد اسلامیہ میں سماجی انصاف کی جتنی تحریکیں ابھریں اُن سب نے اپنے آپ کو علی ابن ابی طالب کے کیمپ سے جوڑا، کیوں؟ آخر مدینہ سے لیکر کوفہ و بصرہ و یمن و جزیرہ اور پھر فارس تک اور اس سے آگے مصر تک سماجی انصاف کی تحریکیں علوی جھنڈے تلے کیوں جدوجہد کرتی رہیں؟ مظلوم کا ساتھ دینے کے علمبردار شاہد بھنڈر جیسے مہان انقلابی اس سوال پہ غور کیوں نہیں کرتے؟ ان کی انقلابیت اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اشرافیت اور ملوکیت کی حامی تعبیرات سے نکلنے والے تصورات سے کیسے مطابقت پیدا کرلیتی ہے؟

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply