قیامِ کربلا! قیامت سے پہلے قیامت(1)۔۔نذر حافی

قیامت ضروری ہے۔ یہ ضروریاتِ دین میں سے بھی ہے۔ ضروریاتِ دین میں سے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان قیامت کے ہونے پر ایمان رکھے۔ انسان اگر مسلمان نہ بھی ہو تو اُسے ایک قیامت چاہیئے۔ ایک ایسا دِن کہ جس دِن ستارے بکھر جائیں، زمین پاش پاش ہو جائے، سورج اور چاند گہنا جائیں اور سارے ظالموں کو مظلوموں کے سامنے صف بستہ کھڑا کیا جائے۔ اُس دِن لوگوں کے اعمال کے مطابق اُنہیں پوری کی پوری سزا یا جزا ملے۔ یہ ہے وہ دِن جو ہر مظلوم کی تمنّا، ہر مومن کی آرزو، ہر نیک و کار کی دُعا اور ہر ظالم کا انجام ہے۔ اِس دِن کا انتظار ہماری طرح گذشتہ اقوام نے بھی کیا۔ تاہم مجھے اِس دن کو سمجھنے کیلئے کچھ آزادی چاہیئے۔ وہی آزادی جو اللہ کی آخری کتاب اور آخری پیغمبرؐ نے ہمیں دے رکھی ہے۔ وہ آزادی غوروفکر کرنے، سوال پوچھنے، آواز اٹھانے اور تحقیق کرنے کی آزادی ہے۔ ہمیں آزادی سے یہ سوچنے کا حق دیا جانا چاہیئے کہ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید نے اور اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہﷺ نے ہمارے لئے ہدایت کا کیا بندوبست کیا ہے۔؟

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید قیامت تک کیلئے اللہ کی آخری کتاب ہے اور حضرت محمد رسول اللہﷺ قیامت تک کیلئے اللہ کے آخری رسول ہیں تو پھر ہمیں اور ہماری قیامت تک آنے والی نسلوں کو مکالمے کی مکمل آزادی ہونی چاہیئے۔ یہ آزادانہ بات چیت اُس وقت تک نہیں ہوسکتی، جب تک ہمیں آزادانہ طور پر یہ نہ سوچنے دیا جائے کہ قرآن مجید اور نبی اکرمؐ کی نصوص کی روشنی میں نبی اکرم کے بعد نبیؐ کا جانشین اور خلیفہ کون ہے اور قیامت تک نبی کے بعد ہمیں کس کی اطاعت اور بیعت کرنی ہے۔؟ جب دینِ اسلام نے ہمارے لئے بیت الخلاء کے احکام بھی بتائے ہیں تو کیا یہ نہیں بتایا کہ اب قیامت تک کے انسان، خلافتِ رسولؐ سے متصل ہو کر ختمِ نبوّت پر کیسے قائم رہیں گے۔؟ اگر قیامت تک ختمِ نبوّت پر قائم رہنے کا طریقہ قرآن مجید اور رسولِ اسلام نہیں بتائیں گے تو پھر قیامت کے دِن ہم سے سوال کس چیز کا ہوگا۔؟ لہذا یہ تو پیغمبرؐ ِ اسلام کو ہی بتانا ہے کہ اُن کے بعد قیامت تک اُن کے جانشین کون لوگ ہونگے۔؟

جس طرح قیامت کا دِن ایک اٹل، عقلی، منطقی اور ضروری دِن ہے، اِسی طرح قیامت تک کا لائحہ عمل بھی اٹل، عقلی، منطقی اور ضروری ہے۔ نجاتِ بشر کیلئے فقط یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ قرآن مجید اب قیامت تک اللہ کی آخری کتاب ہے اور حضرت محمدﷺ قیامت تک اللہ کے آخری رسول ہیں۔ درحقیقت حضرت انسان نے قیامت تک اس کتاب اور اس رسولؐ کے خلفاء اور جانشینوں کے نقشِ قدم پر چل کر زندگی بسر کرنی ہے۔ دیگر واقعات کو چھوڑیں، صرف اسی واقعیت کو ہی لے لیجئے کہ اِس آخری کتاب اور آخری رسول ؐ کے آنے کے بعد بھی لوگ زمانہ جاہلیت کی مانند زندگی بسر کر رہے ہیں! اسی کتابِ ہدایت کی جھوٹی قسمیں کھا کر اور اِس کو لوگوں کے سروں اور نیزوں پر بلند کرکے اُنہیں دھوکہ دیا جاتا ہے۔ اِسی رسول ؐ کے امتیوں کو ایک طرف تو بدعتی کہہ کر قتل کیا جاتا ہے اور دوسری طرف وہی بدعتی بدعتی کے نعرے لگانے والے ہی ایک نئے درود شریف کی بدعت ایجاد کرتے ہیں۔ “صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم۔” یہ درود نہ نبی اکرم ؐ نے پڑھا، نہ ہی صحابہ کرام نے پڑھا اور نہ ہی کبھی کسی صحابی نے یہ دعوی ٰ کیا کہ میں آلِ رسولﷺ کے مساوی اور برابر ہوں۔

سب جانتے ہیں کہ اگر نماز میں پڑھے جانے والے درودِ ابراہیمی میں اصحابہِ کا اضافہ کیا جائے تو نماز ہی باطل ہو جائے گی، لیکن اس کے باوجود عہدِ جاہلیت کی طرح کتابِ خدا اور سنّتِ رسول ؐ کی ضد میں بدعات گھڑی جا رہی ہیں اور زبردستی لوگوں سے اُن پر عمل کروایا جا رہا ہے، حالانکہ ضروری تو یہ ہے کہ جو لوگ دینِ اسلام کو قیامت تک کیلئے اللہ کا آخری دین سمجھتے ہیں، اُنہیں قیامت تک اللہ کی آخری کتاب اور آخری رسولؐ سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھنا چاہیئے۔ آگے بڑھنے والے تو اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ ایک طرف تو نیا درود شریف ایجاد کرتے ہیں اور دوسری طرف اللہ کے آخری نبی ؐ کے والدین کو نعوذ باللہ کافر اور مشرک کہتے ہیں۔ جب اللہ کے آخری نبی ؐ کے بعد خلافت کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہوگا تو پھر اسی طرح بدعتی افراد قیامت تک بدعات ایجاد کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ اس کا اختیار قیامت تک کے ہر انسان کو دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو اللہ اور اُس کے رسولوں اور اُن کے حقیقی خلفاء کے نقشِ قدم پر چلے اور چاہے تو آیاتِ خدا کو بیچ کھانے والوں اور بدعتیں ایجاد کرنے والوں کی پیروی کرے۔ ایسے لوگ گذشتہ اقوام میں بھی موجود تھے اور تا قیامت رہیں گے۔

اس کائنات میں گذشتہ اقوام کے ساتھ ساتھ تاریخِ اسلام بھی رقم ہوئی ہے۔ تاریخِ اسلام میں پیغمبرِ اسلام ؐکے خاندان کے اجتماعی قتل کا واقعہ بھی موجود ہے۔ یہ واقعہ بھی ایک قیامت خیز واقعہ ہے۔ یہ واقعہ بھی اس امر کی تاکید کرتا ہے کہ قیامت ضروری ہے۔ میرے نزدیک یہ واقعہ چونکہ پیغمبرِ اسلام کے خاندان کے بے دریغ قتل پر مبنی ہے، لہذا دوسرے ہر واقعے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ اگر میں ایک سچا اور پکا مسلمان ہوں تو پھر تو مجھے آزادانہ طور پر یہ تحقیق کرنی چاہیئے کہ آخری نبی کی آل اور خاندان کو اُسی نبی کی اُمّت نے کیوں قتل کر دیا۔؟ انسان اگر مسلمان نہ بھی ہو تو ایک باشعور انسان کیلئے یہ سوال بہت اہم ہے۔ قیامت تک کی نسلِ اِنساں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ اگر امام حسینؑ آخری نبی ؐ کے وارث ہیں تو ان کی شہادت کا راستہ کیسے ہموار ہوا۔؟ پھر اگلا سوال تو یہی بنتا ہے کہ کیا یزید ایک شب میں آسمان سے نازل ہوا تھا؟ پھر وہ کیسے اسلام کے تخت پر براجمان ہوگیا ہوا۔؟

اس طرح کی قیاس آرائیوں سے کوئی بھی عقلمند آدمی مطمئن نہیں ہو، تاکہ امام حسین ؑ بہت نیک انسان تھے اور یزید بہت بُرا اور فاسق تھا، سو امام ؑ نے اُس کی بیعت نہیں کی۔ گویا اگر یزید فاسق و فاجر نہ ہوتا اور بہت بڑا متقی و پرہیزگار ہوتا تو پھر امام حسینؑ اُس کی بیعت کر لیتے۔ آہ! تحقیق اور سوچ سے عاری یہ اُمّت ابھی تک یہ سمجھنے اور سمجھانے سے قاصر ہے کہ یزید کی بیعت سے امام حسینؑ نے انکار کیوں کیا!؟ حقائق کو پوری طرح سمجھنا ہر باشعور کا فطری حق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یزید جا کر اللہ کے آخری رسول ؐ کے مقام اور منصب پر بیٹھ گیا تھا۔ یہ اسلامی خلافت حضرت آدمؑ سے لے کر پیغمبرِ اسلامؐ تک سب انبیاء کی مشترکہ جدوجہد کا ثمر تھی۔ یعنی یہ تختِ اسلام سارے انبیا کا تخت ہے۔ مثال کے طور پر اگر اس تخت پر فرعون بیٹھ جائے اور وہ بہت نیک اور دیندار ہو تو کیا نعوذ باللہ حضرت موسیٰ اُس کی بیعت کر لیں گے۔؟ کیا اگر ابوسفیان بہت نیک اور متقی ہوتا تو نعوذ باللہ پیغمبرِ اسلام ؐ اُس کی بیعت کر لیتے۔؟

بات یہ ہے کہ یزید اُس منصب پر بیٹھ گیا تھا کہ جو پیغمبرِ اسلام کا منصب تھا۔ لہذا اگر امام حسینؑ اُس کی بیعت کر لیتے تو پیغمبرِ اسلام کے وارث ہونے کی وجہ سے یہ بیعت نعوذ باللہ سارے انبیاء اور پیغمبرِ اسلام کی طرف سے یزید کی بیعت قرار پاتی۔ یہاں پر لفظِ بیعت کی بھی وضاحت ضروری ہے۔ بہت سارے لوگ بیعت کا مطلب منتخب کرنے کے لیتے ہیں، جو کہ سراسر غلط ہے۔ بیعت میں اور منتخب کرنے میں فرق ہے۔ بیعت اور چیز ہے اور انتخاب کرنا چیزِ دیگر۔ ایک تحقیقی مسلمان ہونے کے ناتے میرے لئے لفظِ بیعت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ بیعت کا مطلب کسی کو ووٹ دے کر منتخب کرنا نہیں ہے، بلکہ کسی کو تسلیم کرنا ہے۔ لوگ نبی ؐ اکرم کی جب بیعت کرتے تھے تو آپ کو منتخب نہیں کرتے تھے، بلکہ آپ کو تسلیم اور قبول کرتے تھے۔ یہی صورتحال سقیفہ بنی سعدہ میں پیش آئی تھی۔ وہاں جمع ہونے والے لوگوں کی کُل تعداد بارہ سے تیرہ افراد کے لگ بھگ تھی۔ وہاں کسی قسم کی رائے شماری نہیں ہوئی تھی۔ وہاں صرف بیعت لی گئی تھی۔

رائے شماری کے بغیر بیعت
سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کیلئے ووٹنگ یا رائے شماری نہیں ہوئی بلکہ بحث و جدال کے عالم میں خلیفہ دوّم نے آگے بڑھ کر خلیفہ اوّل کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جس کے بعد وہاں بھی اور وہاں سے باہر جا کر بھی لوگوں سے بیعت لی گئی۔ صحابی رسولؐ حضرت سعد بن عبادہ شہید، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت عمار یاسر شہید اور حضرت علی کرم اللہ وجہ سمیت متعدد جیّد صحابہ کرام ؓ سقیفہ بنی سعدہ میں قائم شدہ خلافت پر معترض تھے۔ خود خلیفہ اوّل نے اپنے بعد والے خلیفہ کے انتخاب کیلئے سقیفہ والا انداز اپنانے کے بجائے نیا طریقہ اختیار کیا۔ اسی طرح دوسرے خلیفہ نے اپنے بعد تیسرے خلیفہ کے انتخاب کیلئے بھی ایک جداگانہ راستہ اپنایا۔ اگر ان میں سے ایک طریقہ بھی قرآن و سنّت کے مطابق ہوتا تو پھر اُسے ترک نہ کیا جاتا۔ پس میرا سوال اپنی جگہ مزید مضبوط ہوگیا ہے کہ پھر قرآن و سنّت کے مطابق رسولِ اسلام ؐ کے بعد معیّن شُدہ خلیفہ کون ہے۔؟ کیا ایسا پیغمبر جو قیامت تک کیلئے آخری دین لے کر آیا ہے، وہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ معیّن کئے بغیر چلا گیا ہے۔؟ پس اگر ختمِ نبوّت کے بعد قیامت تک کیلئے خلافت و ہدایت کا کوئی نظام موجود نہیں تو پھر قیامت کس بات کی۔؟

قیامت کے دِن یہی تو پوچھا جائے گا کہ زندگی کس کی اطاعت میں گزاری ہے۔؟ اگر ختمِ نبوّت کے بعد قرآن و سنّت نے اطاعت کرنے کیلئے خلیفہ ہی نہیں معیّن کیا تو پھر حساب کتاب کس بات کا ہوگا۔؟ عقلِ سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ تکمیلِ دین، ختم نبوّت اور کتابِ خدا کے مکمل ہونے کے بعد انسان کی نجات کیلئے سب سے پہلے قیامت تک کیلئے نظامِ خلافت کو معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کا خلیفہ صریحاً کتاب و سنّت کے مطابق ہونا چاہیئے اور اُسے منتخب کرنے میں کسی قسم کے جغرافیائی و لسانی نیز نسلی اور قبائلی تعصب کا عمل دخل بھی نہیں ہونا چاہیئے۔ حضور نبی ؐ اکرم کے لئے قریشی و حبشی و عربی و عجمی و مکی و مدنی و مہاجرین و انصار سب ایک جیسے تھے۔ سب کیلئے میزان تقویٰ تھا۔ سب کو بیت المال سے بھی ایک جیسا حصّہ ملتا تھا۔ آپ لوگوں کا تذکیہ نفس کرنے اور انہیں تعلیم دینے میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے تھے۔ آپ نے مدینے میں مواخاتِ مدینہ قائم کرکے عملی طور پر ان تعصبات کی بیخ کنی کر دی تھی۔

مہاجرین و انصار کو بھائی بھائی بنانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ اب کوئی تقسیم اور تفریق نہیں، اب جو ایک بھائی کے حقوق و فرائض ہیں، وہی دوسرے کے بھی ہیں۔ جو ایک کا مقام و منزلت ہے، وہی دوسرے کا بھی ہے۔ سب کو بیت المال سے بھی ایک جیسا حصّہ ملتا تھا۔ پیغمبرِ اسلام کی اس عدالت و مساوات کا سب سے بڑا دھچکا قریش کو لگا۔ قریش میں یہ غرور تھا کہ وہ نسلِ اسماعیل میں سے ہونے، سابقہ کتابوں کے وارث ہونے اور کعبے کے متولّی ہونے کی وجہ سے مکّے کی اشرافیہ ہیں۔ پیغمبر اسلام کی عادلانہ تعلیمات نے قریشیوں کے اس تعصب کو چکنا چور کر دیا۔ آپؐ کی بارگاہ میں حبش کے بلالؓ، یمن کے مقدادؓ، قریش کے عباس ؓ، فارس کے سلمانؓ اور مدینے کے ایوب انصاریؓ کے درمیان کوئی فرق اور امتیاز نہیں تھا۔ سب کیلئے ایک ہی پیالہ اور ایک ہی نوالہ تھا۔ نہ کوئی عربی تھا اور نہ عجمی، نہ قریشی تھا اور نہ حبشی، نہ کوئی مکّی تھا اور نہ مدنی، نہ کوئی مہاجر تھا اور نہ انصار۔۔۔ سب ایک جیسے اور بھائی بھائی تھے۔

مکّے کے قریشیوں نے ایسی انسانی مساوات کا پیغام سُنا تو انہوں نے مل کر نبی ؐ اکرم پر مکّے کی زمین تنگ کر دی۔ یہانتک کہ آپ رات کی تاریکی میں مکّے سے چھپ کر نکلے۔ پھر مدینے میں بھی ان قریشیوں نے نبی ؐ پاکؐ کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دوسری طرف مدینے میں بسنے والے یہودی بھی نسلی طور پر انتہائی متعصب تھے۔ وہ بھی اپنے آپ کو حضرت موسیٰ کا وارث، اہلِ کتاب اور ایک برجستہ و پڑھی لکھی نسل سمجھتے تھے۔ چنانچہ نبی ؐ اکرم کی تمام تر رحمت و مہربانی کے باوجود مدینے کے یہودی مکّے کے قریشیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں مگن رہے۔ غزوہ بدر سے لے کر فتحِ مکہ تک ہر جنگ میں کفّار کے علمدار و سرخیل یہی قریشی رہے اور انہیں مدینے کے متعصب یہودیوں کا تعاون حاصل رہا۔ اسلام ان دونوں (مکّے کے قریشیوں اور مدینے کے یہودیوں) کا مشترکہ دشمن تھا، چونکہ اسلام انسانی برتری کا معیار نسلی تعصب کے بجائے تقویٰ کو قرار دیتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply