• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خصوصی افراد کی ممکنہ بحالی اور ہماری معاشرتی ذمہ داریاں۔۔سیّد عمران علی شاہ

خصوصی افراد کی ممکنہ بحالی اور ہماری معاشرتی ذمہ داریاں۔۔سیّد عمران علی شاہ

معاشرہ افراد کے اس بامعنی مجموعے کو کہا جاتا ہے، جہاں ہر ایک فرد اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھا کر، اس معاشرے کی نوک پلک سنوارنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے،یہ تعریف دنیا کے مہذب معاشروں پر عین اسی طرح صادق آتی ہے،ترقی یافتہ ممالک یا معاشروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو، اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ  وہاں معاشرے میں موجود ہر ایک فرد کو بلا امتیاز رنگ، نسل، زبان، جنس اور کسی بھی قسم کی معذوری کو بنیاد بنائے بغیر  اپنی اہلیت اور ہنر کو بروئے کار لا کر معاشرتی ترقی میں اپنا مکمّل کردار ادا کرنے کے تمام مواقع فراہم ہوتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً اس وقت دنیا میں تقریباً ایک ارب افراد کسی نہ کسی طرح کی معذوری کا شکار ہیں،اس معذوری کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں؟
کچھ لوگ پیدائشی طور پر کسی معذور پیدا ہوتے ہیں،
کچھ افراد کی معذوری کی وجہ کوئی خطرناک بیماری مثلاً پولیو وغیرہ، اور کچھ افراد کی معذوری میں پیدا ہونے معذوری کسی حادثے کے نتیجے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔

یہاں ایک بات کا تذکرہ کرنا بہت اہم اور ضروری ہے کہ  کسی بھی معذوری کا شکار ہونے والے افراد کے لیے اب لفظ معذور کے متبادل کے طور پر خصوصی افراد یا خصوصی ضروریات کے حامل افراد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کو اس بات کا ادراک دیا جائے کہ  ہمارے درمیان یہ ہم جیسے ہی لوگ ہیں مگر ان کو ہماری طرف سے زیادہ توجہ اور معاونت درکار ہے، ان ضروریات ہم سے زیادہ اور مختلف نوعیت کی ہیں۔پاکستان کا شمار دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے، یہاں تو اچھے خاصے صحتمند اور نارمل زندگی گزارنے والے افراد کے لیے ڈھیروں مسائل ہیں،تو خصوصی افراد کے حوالے سے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔

وطن عزیز میں خصوصی افراد کی بحالی اور ان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے اور فلاحی اداروں نے اپنا بہت موزوں کردار ادا کیا ہے،پاکستان میں ایدھی،الخدمت، پلان انٹر نیشنل، سولیڈار سوئٹزرلینڈ، سی بی ایم، ہیلپ ایج انٹرنیشنل، آکسفیم اور چیزوی جیسے فلاحی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے خصوصی افراد کے حقوق کی بابت بہت ٹھوس کردار ادا کیا اور ان کے لیے قانون سازی کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔

دوسری جانب ان فلاحی تنظیموں اور غیر سرکاری تنظیموں نے عوام الناس میں خصوصی افراد کے حقوق کی آگاہی اور شعور بیدار کیا ساتھ میں ان افراد کی ممکنہ بحالی کے لیے، معاونتی آلات جیسے کہ مصنوعی اعضاء، وہیل چئرز، سماعتی آلات اور سفید چھڑی بھی تقسیم کیے،پاکستان میں سرکاری ملازمت میں خصوصی افراد کا 3 فیصد کوٹہ مختص ہے۔اگر خصوصی افراد کی تعلیم کے بنیادی حق کی بات کی جائے تو پاکستان میں ان کے لیے پرائمری سے لے کر ماسٹرز اور اعلیٰ تعلیم کی سہولت موجود ہے۔

موجودہ دور حکومت میں خصوصی افراد کے لیے سب سے اہم اقدام ان کے الگ شناختی کارڈ کے حوالے سے اٹھایا گیا ہے، جس پر ان کی معذوری کا اندراج بھی کیا گیا ہے، تاکہ اس بناء پر ان کو وہ تمام ترسہولیات دی جا سکیں جن کو حکومت کی جانب سے ان کے لیےمخصوص کیا گیا ہے، اس کارڈ کی بدولت ان افراد کو ٹیکس پر مکمّل چھوٹ ہے، ان افراد کی جانب سے گاڑی امپورٹ کرنے پر ایکسائز ڈیوٹی کی قطعی طور پر چھوٹ حاصل ہے، اسی کارڈ کی بدولت یوٹیلیٹی سٹورز میں خریداری پر 50 فیصد تک کی رعایت حاصل ہے۔حکومت کی طرف سے پبلک ٹرانسپورٹ میں خصوصی افراد کے لیے  نشستیں مخصوص کی گئی ہیں تاکہ ان کو سفری سہولیات سے مستفید ہونے کا موقع ملے۔

بہت سی خصوصی  افراد کے عالمی اور بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے خصوصی افراد نے ملک و قوم کا بھرپور نام روشن کیا، مگر ان افراد کے لیے کھیلوں کی ٹریننگ اور  سہولیات کا فقدان رہا ہے، اگر حکومت ان خصوصی افراد کی سرپرستی کرے، تو بہت شاندار کھلاڑی سامنے آ سکتے ہیں، جو اپنے اعلیٰ کھیل کی بنیاد پر پاکستان کا روشن پہلو اجاگر کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

یہاں ایک بات کا ذکر کرنا لازم ہے کہ حکومت اور فلاحی اداروں کی خصوصی افراد سے متعلق محنت کی بدولت، حکومتی اداروں، بینکس اور دیگر نجی اداروں کی عمارتی ڈھانچوں کی تعمیر میں اس امر کو یقینی بنایا جارہا ہے کہ  یہاں خصوصی افراد کی آمد و رفت کو ممکن بنایا جاسکے۔

سپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ترقی کے لیے  حکومت کو چاہیے کہ خصوصی تعلیم کی منسٹری اور الگ ڈپارٹمنٹ کا قیام کرے ،یہ اقدام ان افراد کی بحالی کے لیے ایک عظیم سنگ میل ثابت ہوگا،
لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود بھی خصوصی ضروریات کے حامل افراد کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اگر ان کی حقیقی معنوں میں بحالی اور ملکی ترقی میں شمولیت کو ممکن بنانا مقصود ہے،
سب سے اولین پہلو یہ ہے کہ ہمیں بحیثیت معاشرہ خصوصی افراد کے لیے اپنی رویے اور ترجیحات کا ازسر نوء جائزہ لینا ہوگا۔

ان پر ترس کھانے کی سوچ کے بجائے خود کو ان کی رکھ کر سوچنا ہوگا کہ ان افراد کو اپنی روز مرہ زندگی گزارنے میں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا،اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بڑے شہروں میں ٹریفک کی روانی بہت برق رفتار ہوتی ہے، اسی وجہ سے کئی بار جسمانی معذوری کے حامل خصوصی افراد کی مخصوص سواریاں حادثات کا شکار ہوتی ہیں،یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ارد گرد ٹریفک میں موجود باہمت خصوصی افراد کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے اور ان کو ترجیح دے کر راستہ دینا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ بڑی اور اہم شاہراہوں پر خصوصی افراد کی آمدورفت کو یقینی بنانے کے لیے الگ اور محفوظ ٹریک بنانے چاہیے جہاں ان افراد کے علاوہ کسی اور کو جانے کی اجازت نہ ہو۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے وقت لوگ خصوصی افراد کیلئے رکھی نشستوں پر بیٹھ جاتے ہیں،عمارتوں میں سیڑھیوں کے ہوتے ہوئے لفٹ صرف اس لیے نصب کی جاتی ہے تاکہ بزرگوں اور خصوصی افراد کی آمدورفت کو سہل بنایا جائے، لیکن اس سہولت کو بھی عام صحتمند لوگ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں، جس وجہ سے اس سہولت کے اصل اہل افراد کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ جن خصوصی افراد کی معذوری کم نوعیت اور شدت کی ہے اور ان کو عام بچوں کے ساتھ رسمی اور ریگولر اداروں میں تعلیم دلوانی جانی چاہیے تاکہ معاشرے میں بسنے والے عام لوگوں میں ان افراد سے متعلق مثبت رجحان فروغ پائے،تفریحی مقامات کے حوالے سے بھی خاطر خواہ انتظامات کا ہونا ناگزیر ہے تاکہ، کسی بھی قسم کی معذوری کا شکار خصوصی افراد ان مقامات سے بھرپور لطف اندوز ہو سکیں،حکومت نے خصوصی افراد کے لیے ملازمت کے لیے عمر کی بالائی حد میں رعایت دی ہوئی مگر سرکاری ملازمتوں میں ایک فیصد کوٹہ مزید بڑھایا جانا چاہیے،موجودہ دور میں حکومت نے نجی شعبے میں بھی خصوصی افراد کی ملازمت کے مواقع کو یقینی بنایا ہے۔

لیکن پھر بھی حکومت اور متعلقہ اداروں کو اس بات کا بھرپور جائزہ لینا چاہیے، کہ نجی ادارے خصوصی افراد کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں کس قدر آسانیاں فراہم کر رہے ہیں، اور ادارے اس بابت قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں کر رہے ان کے خلاف حسب ضابطہ کارروائی کرنی چاہیے تاکہ، مستقبل میں کسی دوسرے ادارے کو خصوصی افراد کی کسی بھی قسم کی حق تلفی کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
جب تک معاشرے میں موجود ہر ایک شخص خصوصی افراد کی بحالی اور ان تمام شعبہ ہائے بامعنی شمولیت کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرے گا،ان اہم افراد معاشرہ کی صلاحیتوں سے نہ ہی معاشرہ فیضیاب ہوگا اور آبادی کا ایک اہم حصہ بھی اپنے ملک کی ترقی اور فلاح میں اپنا جامد کردار ادا کرنے سے بھی قاصر رہے گا،آئیے ہم سب مل کر بحیثیت ایک ذمہ دار قوم، اپنے ساتھ بسنے والے خصوصی ضروریات کے حامل افراد کوئی ہر ممکن معاونت کریں اور معاشرے میں ہمارے ہم قدم ہونے کا بھرپور موقع فراہم کریں،تاکہ یہ افراد بھی ملک و قوم کا نام روشن کریں
بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال

Advertisements
julia rana solicitors london

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply