اَنا اور عقلی شعور۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسان کی انا اور اس کا عقلی شعور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے آگے چلتے ہیں، البتہ ان دونوں میں واضح فرق یہ ہے کہ عقلی شعور مکمل طور پر حواس خمسہ کا محتاج ہے، اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے کسی تجزیئے یا فیصلے تک پہنچتا ہے، انا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی ساخت میں پہلے سے ایک ڈیٹا موجود ہے جو فرد کی پرورش، تربیت، تعلیم ، سماجی تعلقات اور جزوی طور پر جینیاتی ترتیب سے وجود میں آتا ہے، اسی فرق کی وجہ سے انا اور عقلی شعور میں تضاد بھی سامنے آسکتا ہے ۔
انسان کی اندرونی شخصیت کا سب سے بیرونی عنصر اَنا ہے، یہ فرد کے اندر اور باہر ، دونوں اطراف پہ اپنی نظر رکھتی ہے، ایسے ہی جیسے کھڑکی پہ بیٹھی بلی باہر گلی کا منظر بھی دیکھ رہی ہے اور گردن گھما کے کمرے کے اندرونی ماحول کا جائزہ بھی لے لیتی ہے ۔

بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے موجودہ دور کے کامیاب لوگوں کا معروف العام بنیادی فلسفہ ایک نظر دیکھ لیجیے، اس فلسفے کو سائنسی نکتۂ نگاہ سے پیش کرنے میں سب سے زیادہ کردار ڈاکٹر جو ڈسپینزا کا ہے، عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ بیرونی حالات کی وجہ سے فرد ایک تجربے سے گزرتا ہے، یہ تجربہ فرد کے جسم میں مثبت یا منفی احساسات کو پیدا کرتے ہیں جو اپنی اصل میں بالترتیب مثبت یا منفی ہارمونز کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور یہی ہارمونز فرد کے دماغ میں اچھی یا بری سوچ کو پروان چڑھاتے ہیں، معاملہ درحقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے، ابتدائی نکتہ ہی آپ کی سوچ ہے، مثبت سوچ سے مثبت ہارمونز اور اچھے احساسات جبکہ منفی سوچ سے منفی ہارمونز اور منفی احساسات جنم لیتے ہیں، یہی احساسات فرد کو ایک ایکسپیرئنس دیتے ہیں جو کہ آپ کے مستقبل کے حالات کی بنیاد بنتا ہے ۔

اگر اس فلسفے سے اتفاق کر لیا جائے کہ سوچ کی ترتیب ہی فرد کے تمام معاملات کی ذمہ دار ہے تو بنیادی سوال سامنے آتا ہے کہ سوچ کے مثبت اور منفی ہونے کا انحصار کس بات پر ہے ؟ یہاں آکر اکثر مبلغین نظم و ضبط کا بھاشن دیتے دکھائی دیتے ییں، وہ اس بات پہ کم ہی توجہ دیتے ہیں کہ زیادہ تر معاملات میں فرد کا اپنی سوچ پر قابو ہی نہیں ہوتا اور ایسا صرف اس صورت ممکن ہے جب فرد سوچ کے فعل کی نفسیاتی وجوہات کو جان پائے۔

فرد کی باطنی شخصیت کو مشروط طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، بیرونی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں حواس خمسہ اور دماغ ہیں جو مل کر عقلی شعور کی بنیاد رکھتے ہیں، اندرونی شخصیت میں لاشعور، جبلتیں، اور انا کارفرما ہیں، جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ اس اندرونی شخصیت کا سب سے بیرونی عنصر( پہلو ) انا ہے، یہ اندرونی اور بیرونی شخصیت کے سنگ میل پہ تشریف فرما ہے اگرچہ اس کا بنیادی تعلق بہرحال اندر سے ہے بعینہ اس گھریلو بلی کی مانند جو کھڑکی پہ بیٹھی دھوپ سیک رہی ہے اور ساتھ ساتھ دونوں اطراف سے باخبر ہے ۔

عقلی شعور اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑانے میں مصروف ہے، جو بھی معلومات، تجربات، مشاہدات، احساسات اور نتیجے میں تجزیات سامنے آتے ہیں، یہ اسی پہ کام کرتا ہے۔لیکن یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان تجزیات اور ان کی بنیاد پر لئے گئے فیصلوں کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں اس کا فیصلہ انا کرتی ہے، انا بعض اوقات اہم ترین مسائل کو بالکل معمولی اور غیر ضروری لغویات کے طور پر پیش کرتی ہے اور عقلی شعور اس مسئلے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دور کسی کونے میں دھکیل دیتا ہے، گاہے اس کے بالکل متضاد انتہائی لغو اور معمولی چیز کو انا اس طرح سے پیش کرتی ہے گویا کہ فرد بلکہ پوری انسانیت کی بقاء اسی سے جڑی ہے، اور عقلی شعور ان خرافات میں ایسے الجھتا ہے کہ درودیوار کانپ اٹھتے ہیں، دوسرے الفاظ میں انا چاہے تو ایک ملکہ کو باندی کا لباس پہنا کر عقلی شعور سے اس کی تحقیر کروا سکتی ہے اور چاہے تو باندی کو ملکہ بنا کر عقلی شعور کی پوری توجہ حاصل کر لے، مثبت اور منفی سوچوں کا دارومدار اسی پر ہے کہ معاملات کے وجود کو کیسا لباس پہنا کر عقلی شعور کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے، منفی سوچ کا جھکاؤ فرد کی فربہ انا کی چغلی کھا رہا ہے ۔

اس نازک مقام پر اہم ترین سوال جو کیا جانا چاہیے، وہ یہ کہ انا پہ کیسے قابو پایا جا سکتا ہے، اس کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے، کون یا کیا اس پہ اثر انداز ہو سکتا ہے؟ یہ انسان کے تخیل کی وسعت ہے جو انا کو کمزور یا طاقتور بناتی ہے، قوت تخیل اور وسعت تخیل جس قدر متقدم ہونگی، انا اسی قدر کمزور اور لاغر ہوگی، پیمانۂ تخیل ہی وہ دریا ہے جہاں انا کو صحیح معنوں میں غرق کیا جا سکتا ہے، اور اس پیمانے میں موجود کیمیائی مشروب آپ کے نظریات، عقائد اور ایقان کا مرکب ہے، ان عقائد اور نظریات میں مائع لچک کی عدم موجودگی سے تخیل کا خشک پیالہ انا کی پناہ گاہ ثابت ہوگا، مضبوط انا ہر مثبت قدم کو منفیت کا لبادہ پہنا کر دماغ کی نفسیاتی اور سماجی سوجن کا باعث بنے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں بحث کیلئے ایک ذیلی نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر انا کی ضد کا سامان فرد کیلئے کسی بھی وجہ سے ممکن نہ ہو تو یہ انا عقلی شعور کی جانبی دیوار کو پھاڑتے ہوئے فرد کو جرائم و گناہ کی دلدل میں جا دھکیلے گی، اگر فرد ایسی جرآت رندانہ سے عاجز ہے تو سٹریس، ڈپریشن، ہسٹیریا، معدے کا السر جیسی پیچیدگیاں اس کا مقدر ہو سکتی ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply