“مردانہ کمزوری” بات کرنا شجر ممنوعہ کیوں؟ -ڈاکٹر شاہد عرفان

دنیا بھر میں طلاق کی شرح بڑھتی جا رہی ہے جس کی بڑی وجہ گھریلو ناچاقی،مزاجوں کا نہ ملنا اور بعض اوقات ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں بتائی جاتی ہیں جنہیں سن کر دل نہیں مانتا کہ وہ ان بظاہر معمولی وجوہات کی بنیاد پر گھربرباد کرنے پر تیا ر ہوجاتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ میاں بیوی کے کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جنہیں ان کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہوتا۔
ہمارے پاس بہت سی خواتین مختلف نفسیاتی امراض کی شکایات کے ساتھ آتی ہیں اور جب ہم مسائل کی تہہ میں جانے کے لئے سوالات کرتے ہیں تو ان میں سے کچھ بتاتی ہیں کہ وہ اور ان کے میاں گھر میں ’بہن بھائیوں کی طرح‘ رہتے ہیں۔
دیکھنے ، سننے اور بولنے کی طرح ازدواجی تعلقات بھی ایک فطری عمل ہے اور جس طرح دیگر اعضاء میں مسائل اور ان سے وابستہ نظاموں میں خرابی آ جاتی ہے،اسی طرح جنسیت سے متعلق اعضا ء بھی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں ۔ دیگر اعضاء پر گفتگواور علاج میں تو کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی لیکن اس حوالے سے مردانہ کمزوری کو شجرممنوعہ خیال کیا جاتا ہے اور لوگ اس پر بات کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ اس ہچکچاہٹ کاایک طرف نیم حکیم قسم کے لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں تو دوسری طرف مریضوں کے مسائل شدت اختیار کرجاتے ہیں۔اس لئے ان پر اپنی روایات کے دائرے میں رہتے ہوئے اچھے انداز میں بات کرنے میں نہ صرف حرج نہیں بلکہ ضروری بھی ہے ۔

بانجھ پن اور مردانہ کمزوری 
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مردانہ کمزوری اور بے اولادی دو مختلف کیفیات ہیں جنہیں اکثرایک ہی سمجھا جاتا ہے۔
یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص جنسی طور پر پوری طرح فعال ہو لیکن اس کے ہاں اولاد نہ ہو رہی ہو۔اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص کو جنسی عمل میں دشواریوں کا سامنا ہو لیکن اس کے ہاں بچے بھی پیدا ہو رہے ہوں۔پہلی کیفیت کوبانجھ پن اور دوسری کو جنسی کمزوری یامردانہ کمزوری کا نام دیا جائے گا۔
بانجھ پن کی شکایت کے ساتھ آنے والے مردوں میں ایک فی صد سے بھی کم لوگ مردانہ کمزوری کی شکایت کرتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ دونوں مختلف معاملات ہیں اور ان کے لئے تشخیصی عمل بھی مختلف ہوتاہے ۔ ایک میں مادہ منویہ کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کو جانچا جاتا ہے جبکہ دوسرے میں جسمانی معائنے اور مریض کے سماجی و نفسیاتی مسائل جاننے کے علاوہ خون کا ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے ۔

مریض کہاں جائیں
جنسی کمزوری کی وجوہات کو بنیادی طور پر دو حصوں یعنی عضویاتی اور سماجی و نفسیاتی میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو جنسی کمزوری کا شبہ ہو توسب سے پہلے مرض کی عضویاتی وجوہات کا پتہ لگانا ضروری ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں منطقی طور پر پہلا انتخاب جنسیات کا ماہر ہی ہونا چاہیے لیکن اگر اس تک رسائی نہ ہو تو پھر یورولوجسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مردانہ کمزوری کی شکایت کے ساتھ آنے والے لوگوں میں سے تقریباً 85 فی صد کے مسائل نفسیاتی یا سماجی ہوتے ہیں جبکہ اُن کی عمریں 35 سال سے کم ہوتی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں صورت حال اس سے بالکل الٹ ہے۔ وہاں ماہر جنسیات سے رجوع کرنے والوں کی 85 فی صد تعداد کی عمریں 45 یا50 سال سے زائد ہوتی ہیں اور ان کی وجوہات بھی زیادہ تر عضویاتی ہوتی ہیں۔ان ممالک میں اس مسئلے پر شعور زیادہ ہے‘ لہٰذا وہاں کے نوجوان نفسیاتی مسائل کے کم شکار ہیں۔

مسئلے کی وجوہات 
کچھ بیماریاں مثلاً ذیابیطس‘ ہائپرٹینشن اورفالج‘کچھ ادویات کے ضمنی اثرات یاکوئی سرجری اس جنسی نقص یاکمزوری کا سبب ہو سکتی ہے۔ بعض نوجوانوں کے جنسی اعضاء‘ کچھ نسوں یا خون کی نالیوں میں نقص ہوتا ہے۔جب نالیوں میں خرابی ہو تو عضو تناسل میں خون کی فراہمی بھی متاثر ہوگی اور فرد کمزوری کا شکار ہوجائے گا۔
اسی طرح نسبتاً کم لیکن کچھ صورتوں میں کسی ایک فرد میں مردانہ اور زنانہ اعضاء دونوں اکٹھے موجود ہوتے ہیں یا خصیے اپنی جگہ پر نہیں ہوتے ۔ایسے میں اسے سرجری کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ یورولوجسٹ ہی اس کی ابتدائی تشخیص کرے گا اور اگر سرجری کی ضرورت ہو تووہی رہنمائی بھی کرے گا۔اگر یورولوجسٹ کی طرف سے طبی معائنے اور میڈیکل رپورٹوں میں مریض نارمل ثابت ہو اور مسئلہ پھر بھی برقرار رہے تو پھر مسئلے کی وجوہات نفسیاتی و سماجی ہو سکتی ہیں جس کے لئے اسے نفسیاتی معالج سے مشورہ کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گمراہ کن تصورات 
ماہرین صحت کے مطابق نوجوانوں میں جنسی مسائل کی دو بڑی وجوہات ہیں جن میں سے پہلی وجہ جنس سے متعلق ناقص اورگمراہ کن تصورات ہیں۔
’جب بچہ بالغ ہو تا ہے تو اس کے دل میں نئی نئی خواہشات جنم لینے لگتی ہیں جو بالکل فطری ہیں۔ایسے میں اسے راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن والدین اسے معاشرے کی باقی اونچ نیچ تو سکھاتے ہیں لیکن جنسی پہلو کواس خیال سے چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ خود ہی کہیں سے سیکھ لے گا۔مجبوراً وہ اس پہلو پر معلومات اوباش قسم کے لڑکوں سے حاصل کرتا ہے جو اکثر غلط‘ گمراہ کن اور مبالغہ آمیز ہوتی ہیں۔ جب وہ ان کا موازنہ اپنی کیفیات سے کرتا ہے تو احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے جوآگے چل کر جنسی کمزوری کا باعث بنتی ہیں۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ نوجوانی میں بہت سے لوگ جنسی معلومات کے لئے عریاں فلمیں دیکھتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تعلیم نہیں، تفریح کے لئے بنائی جاتی ہیں ۔ مختلف ادویات اور کیمرہ تکنیکوں کی مدد سے ان فلموں میں کام کرنے والوں کا غیرحقیقی تاثرقائم کیا جاتا ہے ۔اس سے نوجوان اپنے ذہن میں جنسی طور پر ’صحت مند ‘شخص کا ایک غلط تصور قائم کر لیتے ہیں جو عملی زندگی میں ان کے لئے مسائل پیدا کرتا ہے ۔
جنسی کمزوری کے شکار مردوں کے لئے ’’نامرد ‘‘کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔یعنی اگر کسی شخص کی نظر کمزور ہے تو اس کمزوری کے باوجود وہ مرد ہے لیکن اگروہ جنسی طور پرکمزور ہے تو وہ سرے سے مرد ہی نہیں۔جس شخص پر یہ چھاپ لگ جائے، اس کی خوداعتمادی متاثر ہوتی ہے اور وہ مختلف نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے ۔یہ کیفیت علاج میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے لہٰذا مریض کو چاہئے کہ علاج شروع کرنے سے پہلے اپنے تصورات کی تصحیح کر لے ۔ کوئی بھی یورولوجسٹ اس سلسلے میں اس کی مدد کر سکتا ہے۔مزیدبرآں اس کے مشورے کے بغیر جنسی قوت بڑھانے کے لئے کوئی بھی دیسی یاولایتی دوا استعمال نہیں کرنی چاہئے‘اس لئے کہ بہت سی دوائوں کے مضر ضمنی اثرات بھی ہوتے ہیں اورانہیں استعمال کرنے والا شخص گردوں ‘ بلڈ پریشر اور عارضہ قلب جیسی سنگین بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply