گمشدہ آدمی:رشید مصباح۔۔آدم شیر

میں کہانیاں لکھتا تھا اور صندوق میں رکھ دیتا تھا، کبھی کبھار انگریزی کے استاد اسلام خان کو سنا بھی دیتا تھا اور اسی طرح دو ہزار تیرہ میں ایک کہانی سنا4نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ گیا تو اسلام خان مجھے شعبہ اردو میں لے گئے اور تعارف کرایا کہ یہ نوجوان کہانی لکھتا ہے۔
ایک کونے میں بیٹھے رشید مصباح نے کہا تو سناﺅ بھئی۔۔۔ اور میں نے ایک کہانی سنا دی جس پر رشید مصباح اور خالد محمود نے اپنی رائے دی۔ یہ میرا رشید مصباح سے پہلا تعارف تھا۔
ان دنوں رشید مصباح اس کالج میں شماریات کا مضمون پڑھایا کرتے تھے اور مسکراتے ہوئے بتاتے تھے کہ میں لڑکوں کو ارتقا کی مبادیات بھی پڑھا دیتا ہوں۔ انہی دنوں شمع، اچھرہ میں بھی ایک دفتر بنا رکھا تھا جو کہنے کو ناشر رشید مصباح کا دفتر تھا، درحقیقت یار لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی اور اسی دفتر کے سامنے کامریڈ تنویر کا ڈیرہ ہے جہاں مصباح صاحب اکثر و بیشتر رونق افروز ہوتے تھے اور خوب مباحثے ہوتے تھے، کبھی مزدور کی تعریف وضع کی جا رہی ہے اور کبھی این جی اوز پر لے دے ہو رہی ہے، کبھی کسانوں پر بات ہو رہی ہے تو کبھی کسان پارٹیاں زیر بحث ہیں۔ کبھی مار دھاڑ کے بغیر بڑی تبدیلی کے امکانات زیر غور ہو رہا ہے تو کبھی سیاسی عمل کی ناکامی بیان ہو رہی ہے۔ محفل میں واصف اختر ہوتا یا میں ہوتا تو گفتگو کا رخ مڑ جاتا اور ادب پر بات چل پڑتی اور اس موضوع پر دوسرے حاضرین خاموش ہو جاتے۔ وہ ادب اور ادیبوں کے متعلق معلومات کا بھنڈار تھے۔ ایک ایک سرگرمی ان کے علم میں ہوتی، ادیبوں کی ادبی چھوڑ، نجی سرگرمیاں بھی بخوبی جانتے تھے۔
وہ سگریٹ بہت پیتے تھے اور چائے بھی کم محبوب نہ تھی اور مزے کی بات یہ ہے کہ انھیں یار لوگوں کو کھلا پلا کر خوشی ملتی تھی سو ہماری محفل کامریڈ تنویر کے ڈیرے پر جمی ہو یا جیل روڈ پر مزنگ کے قریب قہوہ خانے پر، سڑک پر کرسیاں رکھے، پراٹھا کھاتے، چائے پیتے، سگریٹ سلگاتے یا پاک ٹی ہاﺅس میں چائے کے ساتھ سلائس ٹھونستے یا انارکلی میں دال کھاتے یا شمع پر اوجڑی چباتے، رشید مصباح بل دینے میں پہل کرتے، انھیں یہ پسند نہ تھا کہ ان کے ہوتے میں بل دوں اور اگر ملت چوک سمن آباد میں بالائی منزل پر موجود ان کے کمرے میں بیٹھک جمانی طے پاتی تو وہ مٹن کا قیمہ کھلاتے اور میں سگریٹ کی ڈبیا آگے بڑھانے پر اکتفا کرتا۔
کامریڈ کے ڈیرے پر یا کبھی کبھی پاک ٹی ہاﺅس میں انھیں آپ نے ٹی شرٹ اور پینٹ میں دیکھا ہو شاید لیکن جب وہ کالج جاتے یا اپنے اشاعتی دفتر جاتے یا کسی تقریب میں جاتے تو پینٹ کوٹ میں ملبوس ہوتے، شیو کی ہوتی اور مونچھیں رنگی ہوتی تھیں۔ اس سے زیادہ سراپا بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں، آپ ان کی تصاویر دیکھ سکتے ہیں۔ میں جو بیان کرنا چاہتا ہوں یا جو یاد کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ تپتی دوپہر ہے اور ہم اچھرے میں دوسری منزل پر ایک حبس زدہ کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں، میں افسانہ پڑھ رہا ہوں، وہ سن رہے ہیں، وہ مضمون پڑھ رہے ہیں، میں سن رہا ہوں، ماضی کے قصے سنا رہے ہیں اور میں دھواں اڑا رہا ہوں۔ ہم جیل روڈ پر بیٹھے ہیں، واصف اختر اپنے آپ میں گم ہے، مافات رضا اپنے لیے سگریٹ لینے گیا ہے، رشید مصباح چشمے کے عدسے صاف کر رہے ہیں اور میں اپنے دستی بیگ سے افسانے کا مسودہ نکال رہا ہوں یا پھر منظر کچھ یوں ہوتا کہ واصف اختر اپنے موبائل فون سے نظم سنا رہا ہے یا مافات رضا اپنا کوئی اقتباس پڑھ رہا ہے یا مصباح صاحب کسی رسالے میں شائع ہوئے اپنے افسانے یامضمون کے متعلق بات کر رہے ہیں یا اپنے زیر تحریر ناول کے متعلق بتا رہے ہیں یا اپنی کتابوں کی اشاعت کے ارادوں سے آگاہ کر رہے ہیں یا حسب روایت زندوں کی خرابیاں اور مردوں کی خوبیاں بیان ہو رہی ہیں یا انجمن ترقی پسند مصنفین پر بات ہو رہی ہے اور یہ یاد کرنا مجھے اس لیے پسند ہے کہ اس میں ایک جنون سا ہے، پڑھنا، لکھنا، سننا ، سنانا، بحث کرنا ۔۔۔ ہے نا افسانوی دنیا، ہے کہ نہیں؟
رشید مصباح کے ساتھ چلنا بزدل لوگوں کے بس کی بات نہ تھی کیونکہ وہ کہیں بھی کسی بھی بات پر اڑ سکتے تھے اور معاملہ ہاتھا پائی تک بھی پہنچ سکتا تھا جس سے انھیں باک نہ تھا کیونکہ وہ کبھی پہلوانی کا شوق رکھتے تھے اور ہاکی تو کھیلتے ہی تھے ۔ رشید مصباح نے اپنے معیارات طے کر رکھے تھے جن کی خلاف ورزی پر وہ بھڑک اٹھتے تھے۔ ایک دفعہ چند دوست جیل روڈ والے چائے خانے پر انگور کا پانی لے آئے، سب چسکی لے رہے تھے مگر رشید مصباح نے ہاتھ تک نہ لگایا، جب بہت اصرار کیا تو تنک کر بولے۔ ”ہر کام کے کچھ آداب ہوتے ہیں اور شراب کے ساتھ یہ بے ادبی میں نہیں کر سکتا، آپ کو مبارک۔۔۔“اور سب ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے کہ یہ مرشد کو کیا ہو گیا۔
مرشد زود رنج تھے مگر کینہ پرور قطعی نہ تھے۔ ایک بار کامریڈ تنویر کے ڈیرے پر کچھ کارکن صفت لوگوں نے مصباح صاحب کی علمی حیثیت پر سوال اٹھانے کی گستاخی کر دی تو مصباح صاحب نے وہاں بیٹھنا بند کر دیا، وہ اچھرہ آتے اور سیدھا اپنے دفتر جا بیٹھتے ورنہ پہلے وہ اپنا دفتر کھول کر بھی کامریڈ کے پاس بیٹھتے تھے۔ کامریڈ تنویر کو یہ بات بہت کھلی کہ مرشد نہیں آ رہے، ایک دن وہ چائے کی ٹرے اٹھائے آ گئے کہ چائے پینی ہے تو مرشد کے ساتھ پینی ہے۔ کامریڈ تنویر رشید مصباح کے مستقل قاری ہیں اور دوست بننے سے پہلے کے قاری ۔۔۔
میں رشید مصباح سے اکثر کہتا تھا کہ مصباح صاحب اب مجلسی سرگرمیوں یا جماعتی سیاست کے بجائے اپنے تمام مسودوں کی اشاعت پر توجہ دیں ، یہ آپ کا اصل کام ہے ۔ اور وہ کہتے، ” پیسے آ لینے دو ، اب یہی کام پہلے کرنا ہے۔“ پھر ایک وقت آیا کہ ان کا جواب ہوتا ، ”یار طبیعت کچھ ٹھیک ہو جائے، پھر کچھ کرتے ہیں۔ “ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ سوچ کی داشتہ 1984ءمیں شائع ہوا تھا، پھر ایک لمبا وقفہ اور 2002 ءمیں گمشدہ آدمی سامنے آیا، اس دوران میں ان کا ایک ناولٹ چندن بائی پندرہ روزہ سائبان میں قسط وار شائع ہوا، ایک اور افسانوی مجموعہ اشاعت کا منتظر، خطوط کی تکنیک میں ایک ناول اشاعت کا منتظر، ایک اور سوانحی ناول مکمل نہ ہو سکا، انجمن ترقی پسند مصنفین کی پچھتر سالہ تاریخ، ساحر لدھیانوی پر مرتب کردہ کتاب، پھران کے عالمانہ تنقیدی مضامین کا مجموعہ تضادات ، پھر جنوبی ایشیا اور امریکی بھیڑیے، کتنا کام کتابی صورت میں اشاعت کا منتظر ہے اور اب نہ جانے کیا ہو۔۔۔!ان کی زندگی اتنی پیچیدہ رہی کہ اس پر بات کرنے کے لیے دفتر درکار ہیں بہرکیف ایک کتاب ان کے فن اور شخصیت پر محمد فیاض نے لکھی جو ان کی زندگی میں شائع ہوئی مگر افسوس کہ رشید مصباح اپنے تمام تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی کام کی کتابی صورت میں اشاعت ممکن نہ بنا سکے جو اب ان کے دوستوں کے ذمہ ہے۔
رشید مصباح فکری طور پر ملحد تھے مگر الحاد کی تبلیغ کرنے اور مذہب کو لتاڑنے کا شوق نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کی محفلوں میں ایک مقولہ مقبول تھا کہ آدمی کو بلب دے دو، وہ موم بتی چھوڑ دے گا۔ وہ اپنے خیالات اور تصورات میں بہت واضح تھے، الجھے ہوئے نہیں تھے جبھی وہ جم کے بات کرتے، پھر یہ کوئی بیٹھک ہو یا حلقہ ارباب ذوق یا انجمن ترقی پسند مصنفین کی نشستیں، وہ اپنی بات کرتے اور تیکھی کرتے اور انھیں بات کرتے دیکھ کر مجھے ہمیشہ ان کی وہ بات یاد آ جاتی جو انھوں نے مجھ سے پہلی ملاقات میں کہی تھی: گل وکھی چو کڈو۔
لاہور پریس کلب میں ان کے اعزاز میں ایک نشست رکھی گئی جس میں انھوں نے افسانہ ”برے آدمی کا سچ“ سنایا، حاضرین نے جیسی تیسی رائے دی جب میں موٹر سائیکل پر انھیں پریس کلب سے لے کر نکلا تو میں نے پہلی بات یہی کہی کہ مصباح صاحب کسی کے پلے کچھ نہیں پڑا اور مصباح صاحب نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ شہزادے پلے پڑ جاتا تو ہماری پتلون اتار کر ہمیں مارتے۔
رشید مصباح کو مارکسزم پر اتنا ہی یقین تھا جتنا اپنے ہونے پر یقین تھا، وہ لوگوں کو ان کے نظریات کے مطابق جانچتے تھے اور ہم نظریہ لوگوں کو کبھی کبھی رعایتی نمبر بھی دے دیتے تھے لیکن انھوں نے اگر کسی کو رد کرنا ہوتا تھا تو ڈٹ کے رد کرتے تھے، منافقت نہیں کرتے تھے۔ اسی سے مجھے ایک بات یاد آ گئی کہ شروع شروع میں جب وہ میرا کہیں تعارف کراتے تو کہتے ، یہ آدم شیر ہے، صحافی ہے۔ مجھے یہ بات کھٹکتی تھی مگر جب میں نے تین چار افسانے لکھ لیے تو تعارف بدل دیا، یہ آدم شیر ہیں، افسانہ لکھتے ہیں۔ یہ ان کی ہمت تھی کہ جو کہنا چاہتے تھے، کہہ دیتے تھے، جیسے ایک بار ایک خاتون، معذرت، خاتون نہیں بلکہ خوبصورت لڑکی نے مصباح صاحب کو اپنی تصویر پر منقش اپنی نظم نما چیز پڑھنے کو دی ، مصباح صاحب نے پڑھی اور خاموش رہے۔ لڑکی نے رائے کے لیے اصرار کیا تو بولے۔
”آپ کی تصویر اچھی ہے۔“
ہماری مجلسی زندگی میں دیکھا گیا ہے کہ جب خاتون کوئی تحریر تنقید کے لیے پیش کرتی ہے تو یار لوگ ماٹھی تحریر پر بھی رعایتی نمبر دے کر تحسین کا کوئی نہ کوئی پہلو زبردستی نکال لیتے ہیں مگر ایک تنقیدی نشست میں ایک خاتون نے اپنی تحریر پیش کی تو سبھی تعریف کرتے رہے مگر رشید مصباح سب سے آخر میں گویا ہوئے۔
”میں نے پوری کوشش کی کہ اس تحریر میں کوئی ایک ایسی بات ڈھونڈ سکوں جس کی تعریف کی جا سکے، افسوس میں ناکام رہا۔“
یہ رشید مصباح ہی تھے جو ساری مجلس کے برخلاف اپنی رائے پیش کر دیتے اور لوگ منہ دیکھتے رہ جاتے اور یہ توجہ طلبی قطعی نہ تھی بلکہ وہ اپنے شاگردوں کو بھی رائے دیتے ہوئے رعایت دینے کے قائل نہ تھے یہاں تک کہ وہ تنہائی میں بھی اسی تحریر کی تعریف کرتے جو انھیں واقعی پسند آتی، اور انھیں کم کم ہی کچھ پسند آتا تھا۔
کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ رشید مصباح کو دنیا سے اتنی کڑواہٹ ملی ہے کہ وہ اسے مسلسل اگلتا رہتا ہے تاکہ زندہ رہ سکے ، کہیں اندر سے سڑ نہ جائے، سارے کا سارا، مگر نہیں ، وہ اسی کڑواہٹ سے مٹھاس بھی کشید کرتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے لیے پریشان ہوتا تھا، وہ اپنے نظریے کے لیے پریشان ہوتا تھا اور وہ اپنے طبقے کے لیے پریشان ہوتا تھا۔ ایک دن رشید مصباح کا صبح صبح فون آ گیا کہ آج ہی ملو، بڑا ضروری کام ہے۔ پاک ٹی ہاﺅس میں ملاقات طے پائی اور وہاں انھوں نے کامریڈ انجم فراز سومرو سے ملایا، پنجابی سوجھوان انجم لودھراں سے آیا تھا اور روزگار کی تلاش تھی مگر کہیں کام بن نہیں رہا تھا، رشید مصباح اس کے لیے بہت پریشان رہتے تھے، وہ چاہتے تھے کہ گاﺅں سے آئے انجم فراز سومرو کو معقول آمدن والی کوئی مناسب ملازمت مل جائے مگر ۔۔۔ آخر رشید مصباح ایک کالج کے پرنسپل بنے اور انجم فراز کو اپنے پاس رکھ لیا، جب تک مصباح نوکری پر رہے، وہ بھی رہا اور جب وہ فارغ ہوئے تو ملنسار سومرو اپنے گاﺅں، اپنے بال بچوں کے پاس چلا گیا اور اب وہیں مزدوری کرتا ہے، رشید مصباح اکثر انجم کا ذکر کرتے اور انھیں تاسف ہوتا کہ کچھ کیا نہیں جا سکا۔
جب پہلی بار انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ کارڈیالوجی میں داخل تھے تو میں رات کو نو دس بجے ملنے گیا۔ مجھ پر سنجیدگی طاری تھی جبکہ وہ قہقہے لگا رہے تھے اور مخصوص شرارتی انداز میں بتا رہے تھے کہ کون کون ملنے آیا، کیسے آیا، اور یہی بتاتے بتاتے رشید مصباح نے ہوک ماری ۔
”یار میرا بیٹا مجھ سے ملنے نہیں آیا، اطلاع بھیجی تھی، پھر بھی نہیں آیا۔“ اور میں نے رشید مصباح کی آنکھوں میں عکس ابھرتے ، ڈوبتے دیکھے مگر چند لمحوں بعد مخصوص مسکراہٹ ان کے چہرے پر تھی جو شاید انھوں نے بڑی محنت سے جمانے کا ہنر سیکھ لیا تھا اور اسی مسکراہٹ کے ساتھ وہ شرارت کر رہے تھے۔
”پھر کچھ لکھا یا ابھی تک ناکام معاشقے میں پھنسے ہوئے ہو؟“
اور ابھی میں ٹال مٹول کرنے ہی والا تھا کہ ہسپتال کا عملہ ملاقاتیوں کو نکالنے لگا اور جب میں ہاتھ ملاتے اٹھا تو رشید مصباح نے قریب بلایا اور پوچھا۔ ”تواڈے کول کنے سگریٹ نیں؟“
میں نے کہا۔ ”دو۔۔۔“
انھوں نے پوچھا۔ ”لائٹر بھی ہے۔“
میں نے اثبات میں سر ہلایا تو حکم ملا۔
”دونوں سگریٹ اور لائٹر چوری چوری مجھے پکڑا دو۔“
تین چار دن بعد رشید مصباح کا فون آیا تو وہ چہک رہے تھے کہ بڑا بیٹا ملنے آیا تھا۔ کیسا درد تھا ، یہ رشید مصباح ہی جانتے تھے، یار لوگ اندازا کر سکتے تھے یا ٹھٹھہ اڑا سکتے تھے مگر یہ وہی جانتے تھے کہ کیسے ہنستا بستا جہان لٹ گیا۔
خیر میں بھی کس طرف نکل گیا۔ رشید مصباح نے ایک بار کامریڈ تنویر کے ڈیرے پر بلایا، میں دفتر سے چھٹی کر کے کوئی دس بجے پہنچا تو انھوں نے کاغذ قلم میرے ہاتھ میں تھما دیے اور بولے ۔ ”یار مجھ پر کوئی کام کر رہا ہے، اسے میرے کام کے متعلق مجھے جاننے والے آدمی کا مضمون چاہئے۔ لکھ دو۔“
میں نے حیرانی سے پوچھا۔ ”ابھی ۔۔۔؟“
”ہاں۔ ابھی۔۔۔یہاں نہیں لکھ سکتے تو سامنے میرے دفتر میں جا کر لکھ لو۔“
کامریڈ تنویر اتنی دیر میں چائے لے آیا اور چائے پیتے، سگریٹ پھوکتے چار صفحے لکھ دیے مگر غلطی یہ ہوئی کہ اس کی نقل نہ کر سکا ، نہ کرا سکا۔ مگر جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اس کا لب لباب یہی تھا کہ رشید مصباح کے افسانے تہذیبی پہلو سے مملو ہوتے ہیں، وہ تاریخ سے بھی کام لیتے ہیں، وہ فلسفہ بھی لاتے ہیں، وہ اپنے اسفار سے بھی بھرپور استفادہ کرتے ہیں اور ان کا سماجی علوم کا مطالعہ بھی ان کا معاون ہے سو وہ افسانہ لکھنے کے لیے کسی امر واقع کے محتاج نہیں بلکہ وہ کسی فکری نکتے پر افسانے کا محل تعمیر کرتے ہیں اور عنوانات وہ غیر معمولی چنتے ہیں جیسے الٹا قلعہ ، ننگے درخت، سوچ کی داشتہ ، گمشدہ آدمی، برے آدمی کا سچ۔۔۔ وہ افسانہ لکھنے کو قدرت کی ودیعت نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اسے ایک میلان مانتے تھے جیسے کچھ لوگوں کو کلاسیکی پسند ہوتی ہے اور کچھ کو پاپ ۔۔۔
جب ذکاءالرحمن فوت ہوئے تو میں نے یہ تقاضا بڑھا دیا کہ مصباح صاحب اپنے تخلیقی کام کا کچھ کر لیں، وقت تیزی سے گزر رہا ہے، مگر وہ کہتے کہ فکر نہ کرو، کامریڈ بڑی لمبی عمر پاتے ہیں اگر کوئی وقت سے پہلے نہ مار دے۔ مگر دیکھ لیں، زندگی نے کیا کیا، کیسے زندہ دل آدمی کو مار گرایا جو ہر وقت زندگی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کو تیار رہتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply