فلسطینی حریت کا نیا استعارہ “چمچ”۔۔منصور ندیم

یہ ایک حقیقی فن پارے کی تصویر ہے۔ جس میں ایک ورکنگ ٹول بیلچے کے آخری حصے کو چمچ کی شکل میں دکھایا گیا ہے، یہ sculpture عرب آرٹسٹ خالد جرار نے بنایا ہے، اسے عرب کے آرٹ ورک Gallery One نے پیش کیا ہے۔ اس sculpture کا بنیادی ماخذ فلسطین میں ہونے والی مزاحمت کی علامت روایتی جھنڈوں اور بینرز کے بعد اب چمچے  بھی فلسطینی مزاحمت کی علامت کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ اسی سال ۶ ستمبر سنہء ۲۰۲۱ کو چھ فلسطینی قیدی جب اسرائیل کی سب سے مضبوط سمجھی جانے والی ہائی سکیورٹی جیل گلبوا سے ایک سرنگ کے ذریعے فلسطینی قیدی فرار ہوئے تھے۔ اس جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں نے جیل میں واش روم کے سینک کے نیچے سرنگ بنائی تھی اور جیل کے باہر تک اسے لے گئے تھے۔

گیلری ون آرٹ ورک “Shovel and Spoon”, ” بیلچہ اور چمچہ” کے عنوان سے اسے پیش کرنے پر خوش ہے، کیونکہ فکری و نظریاتی طور پر عرب ان چھ فلسطینی سیاسی قیدیوں کے بہادری سے فرار ہونے سے متاثر ہیں۔ اسے حریت آزادی کی تلاش کا استعارہ مانتے ہیں، ابتدائی طور پر جب یہ چھ قیدی جیل سے فرار ہوئے تھے تو اس وقت تک واضح نہیں تھا کہ قیدیوں نے واقعی میں سرنگ کھودنے کے لیے چمچ کا استعمال کیا تھا یا یہ کہانی اس کے بارے میں گھڑی گئی تھی۔ قیدیوں کے بعد اس واقعے کو بہت حساس قرار دیا گیا تھا اور اسرائیلی سکیورٹی اداروں نے ان قیدیوں کے پورے پورے خاندان گرفتار کرلئے تھے اور بالآخر یہ تمام قیدی دوبارہ گرفتار کرلئے گئے۔

دوبارہ سے گرفتار کئے جانے والے پہلے فلسطینی قیدی محمد عبداللہ ارداح نے یہ کنفرم کیا تھا جیل سے فرار کے لیے انہوں نے سرنگ کھودنے میں چمچے ، پلیٹوں اور ایک کیتلی کے ہینڈل کا استعمال کیا تھا۔ انہوں نے کئی ماہ تک بہت محنت سے اپنے سیل کے فرش میں ایک زنگ آلود چمچ کا استعمال کرتے ہوئے ایک گڑھا کھودا اور وہاں سے سے رینگ کر بیرونی دیوار کے نیچے تک سرنگ بنائی ۔ ان قیدیوں نے پچھلے سال دسمبر میں اپنے فرار کے لئے کھدائی کا آغاز کیا تھا۔ جیل سے قیدیوں کے فرار کے بعد عرب دنیا میں ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ’معجزاتی چمچ‘ ٹرینڈ کرتا رہا جس میں عرب نوجوان اسے اپنے خیالات میں کہتے کہ کیسے ہالی وڈ کی فلموں جیسے انداز میں ان قیدیوں نے جیل توڑی۔

ان چھ قیدیوں پر اسرائیل کے خلاف حملے کرنے کے الزامات ہیں۔ جنہیں اسرائیلی فوج نے پچھلے سالوں میں مقبوضہ مغربی کنارے میں فوج بھیج کر بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کے بعد گرفتار کیا تھا۔ قیدیوں کے جیل توڑنے کی خبر آنے کے بعد فلسطین میں جشن منایا گیا تھا اور فلسطینی اس واقعے کو اپنی ’فتح‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس واقعے نے میڈیا پر بہت جگہ بنائی۔ “عربی 21” کی ویب سائٹ نے اس واقعے کو ایسے لکھا تھا۔

’عزم، بیداری اور ہوشیاری اور ایک چمچ کے ذریعے کھودی گئی سرنگ سے فلسطینیوں کا فرار ممکن ہوا جس نے دشمن کو قیدی بنا ڈالا۔‘

فلسطینی کارٹونسٹ محمد صبانیح کہتے ہیں کہ

اس فرار سے ’بلیک ہیومر‘ نے جنم لیا اور اسرائیل کے سکیورٹی نظام میں خامیوں کو سامنے لا کر شرمندہ کر دیا۔

عرب دنیا کے کارٹونسٹ نے چمچ کا استعمال کرتے ہوئے کئی ڈرائنگز تخلیق کیں، جن میں سے ایک کا عنوان رکھا، ’آزادی کی سرنگ‘۔ اس طرح فلسطینی حریت کی مزاحمت میں چمچ کو نئی مزاحمتی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

آرٹسٹ خالد جرار کے اس sculpture کو لوگوں نے دل کھول کر خریدا، اور خالد جرار کا کہنا ہے کہ

Advertisements
julia rana solicitors

“وہ پہلے چھ ایڈیشن کی فروخت سے حاصل ہونے والی نصف رقم چھ قیدیوں کے خاندانوں کو عطیہ کرے گا تاکہ ان کی مدد کی جا سکے اور ان کے دکھ اور تکالیف کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا سکے۔”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply