اگر غلطی ہو جائے تو کیا کیا جائے؟۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

میں عام طور پر موٹیویشنل ویڈیوز / لیکچرز نہیں سنتا، میرا ماننا ہے کہ جتنا ٹائم آپ نے ایک ویڈیو / لیکچر سننے میں لگانا ہے، اگر اتنا ہی وقت کسی کام کرنے میں صَرف کریں تو اس سے آپ کی زندگی میں بدلاؤ آ سکتا ہے، یہ میری ذاتی رائے ہے، اس سے آپ اختلاف کر سکتے ہیں ۔ لیکن  کبھی  کبھار فیس بک، یوٹیوب یا ٹوئیٹر سکرول کرتے کرتے کوئی اچھی سی ویڈیو آپ کے سامنے آ جاتی ہے، اس کا عنوان آپکو دلچسپ لگتا ہے، آپ وہ ویڈیو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، جلد ہی آپ کو وہ ویڈیو اپنے حصار میں  لے  لیتی ہے، اگر ویڈیو مختصر ہو تو سونے پر سہاگہ والی بات ہی ہو جاتی ہے۔

پچھلے دنوں ایسے ہی میں یوٹیوب سکرول کر رہا تھا، تو ایک ویڈیو میرے سامنے سے گزری، جس کا عنوان تھا ” اگر غلطی ہو جائے تو کیا کیا جائے “؟؟ یہ ویڈیو ایک مشہور پلاسٹک سرجن صاحب کی تھی، میں نے ویڈیو دیکھنا شروع کی ، چھ  منٹ کی ویڈیو میں انہوں نے تین مثالیں دے کر بتایا کہ اگر غلطی ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے! میں نے اپنی عادت کے برخلاف اس ویڈیو کو سنا، سمجھا اور اس کے امپورٹنٹ پوائنٹس کو ذہن نشین کر لیا! میرے گمان میں نہیں تھا کہ اس ویڈیو میں جو مثال دیکر کر سمجھایا گیا تھا وہی واقعہ کچھ دنوں بعد میرے ساتھ رونما ہو گا!

واقعہ یہ تھا،  کہ ” مجھے گھر کے کسی کام کے سلسلے میں بازار جانا ہوا، میں بائیک پر تھا، کام نمٹا کر جیسے ہی میں نے اپنے گھر کی راہ لی تو ایک موڑ پر یکدم سامنے سے ایک دوسرا بائیک والا آ گیا، اور ہم دونوں آپس میں ٹکراتے ٹکراتے بچے، میں سمجھا کہ میری سائید ٹھیک تھی، وہ رانگ سائیڈ سے آ رہا تھا، یہی خیال اس کا تھا کہ وہ صحیح سائیڈ سے آ رہا تھا اور میں رانگ سائیڈ پہ تھا، اس نے  ذرا تلخ لہجے میں کہا کہ تم غلط سائیڈ پر ہو، میں نے اس کی بات تحمل سے سنی، جب وہ چپ ہوا تو میں نے کہا” بھائی جان! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں آپ سے معذرت کرتا ہوں” تب تک وہ بھی پرسکون ہو چکا تھا، اس نے مسکرا کر سر ہلایا اور ہم دونوں نے اپنی اپنی راہ لی”

اس ویڈیو میں بھی سرجن صاحب نے یہی بتایا تھا کہ اگر آپکو لگے کہ آپ سے غلطی ہو گئی ہے، تو اپنی غلطی ماننے میں بالکل تاخیر مت کریں، اپنی غلطی پر فوراً معذرت کریں اور خود سے عہد کریں کہ آپ مستقبل میں ایسی غلطی دوبارہ نہیں کریں گے، اگر آپ اپنی غلطی ماننے اور معذرت کرنے میں دیر کریں گے تو اس بات کے روشن   امکانات ہیں کہ آپ وہ غلطی دوبارہ کریں گے، ہاں اگر صورتحال ایسی ہو کہ آپکو لگے آپ صحیح ہیں جبکہ دوسرا غلط ہے، لیکن وہ جذبات میں بہہ کر آپ کو موردِالزام ٹھہرا رہا ہے تو تحمل سے اسکی بات سنیے، جب وہ جذبات سے باہر آئے تو آپ اسے اپنا موقف بتائیں، نوے فیصد سے زیادہ امکان ہے کہ اگر غلطی اسکی ہے تو وہ اس پر نادم ہو گا، اور ہو سکتا ہے کہ وہ آپ سے معذرت بھی کر لے ۔”

اب اس بات پر عمل کرنا کوئی آسان کام نہیں، اگر آپ کی غلطی بھی نہیں، لیکن اگلا بندہ اسے آپ کی غلطی بنائے  جا رہا ہو تو چپ رہنا اور اوپر سے اس کی ساری باتیں تحمل سے سننا کوئی آسان بات نہیں، لیکن اگر یہ مشکل کام کر لیں تو ہمارے کافی مسائل حل ہو جائیں۔

ہر گزرتے لمحے کے ساتھ، ہمارے معاشرے میں برداشت کا پیمانہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، ہسپتال میں کام کرتے ہوئے جب اکثر لڑائی جھگڑے کے زخمیوں سے اس کی وجہ پوچھیں تو بظاہر چھوٹی سی بات ہوتی ہے، لیکن صبر اور قوت برداشت کی کمی کی وجہ سے وہ چھوٹی سی بات ایک بڑے جھگڑے کا باعث بن جاتی ہے ،جس سے تمام متعلقہ افراد پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں اپنی غلطی کو غلطی ماننا اپنی شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے، معذرت تو بہت دور کی بات ہے، غلطی کو تسلیم نہ  کرنے کی وجہ سے وہ غلطی آپکی عادت بن جاتی ہے، جس سے چھٹکارہ پانا بھی آسان کام نہیں۔

کوشش کریں کہ اگر خدانخواستہ کبھی غلطی ہو جائے تو اسکو فوراً مانیے، معذرت کیجیے اور ایک روڈمیپ بنائیے جس پر عمل کر کے آپ مستقبل میں ویسی کوئی غلطی نہ  کریں ۔

ہمیں بحیثیت قوم، اپنی غلطیوں کو ماننے ،ان پر معذرت کرنے اور آئندہ اس کو نہ  دہرانے کے عمل پر کام کرنا ہو گا، ہمارے اساتذہ، علما ، دانشوروں کو معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کو ختم کرنے کے لیے آگے آنا ہو گا، سوشل میڈیا پر اختلاف رائے کو لڑائی میں بدلنے والے ٹرینڈ کی حوصلہ شکنی بھی کرنی ہو گی۔

یاد رکھیے، صحت مند معاشروں میں غلطیوں کو سدھارا جاتا ہے، ناکہ ان غلطیوں کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ ویڈیو، جس نے مجھے اس دن ایک تنازع سے بچایا، میں نے تحمل سے بات سنی، اپنی غلطی تسلیم کی اور معذرت کی، اگلے بندے کو بھی احساس ہوا کہ غلطی اس کی بھی تھی، فیصل آباد کے مشہور پلاسٹک سرجن جناب پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف سعید چیمہ صاحب کی تھی، جس نے مجھے زندگی گزارنے کے ایک سنہرے اصول سے روشناس کروایا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply