راجہ یاسر کو تبدیلی مبارک۔۔محمد علی عباس

چکوال کی سیاست میں یہ جو بدزبانی کا رواج چل نکلا ہے پہلے ایسا نہ تھا۔واقفانِ  حال بتاتے ہیں کہ محترمہ فوزیہ بہرام کی تقریریں دھواں دھار ہوا کرتی تھیں۔الفاظ کا چناؤ مگر ان کا بھی ایسا ہوتا کہ تہذیب کے دائرے میں رہتی تھیں۔ چکوال کی سیاست میں بھگوال اور کوٹ چوہدریاں کے بڑے سیاستدانوں کی سیاسی چپقلش کس سے ڈھکی چھپی ہے؟ مگر دونوں  نے جب ایک دوسرے کو  مخاطب کیاتو مہذب انداز میں کیا۔ اب جو یہ رواج چلا ہے تو اس میں ہمارے سیاستدانوں کی اپنی ہی نا اہلی ہے۔گزری دہائی میں چکوال کی سیاست میں بدتمیزی کو رواج دینے والے جو نودولتیے وارد ہوئے ہیں ان میں ایک صاحب مین پاور ایکسپورٹر ہیں۔

تلہ گنگ کے ضمنی انتخابات قریب تھے۔ اس وقت چکوال  سے ایم این اے ایاز امیر نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاید اپنا دامن اسی لئے موصوف سے بچا لیا تھا کہ کل کو گلے نہ پڑ جاۓ۔ میاں حمزہ شہباز کو نہ جانے کیا خوبی نظر آئی کہ جناب کو 2013 میں صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے ڈالا۔پیسے کی طاقت اور ن لیگ کے ٹکٹ سے ایم پی اے تو بن گئے مگر بات کرنے کا ڈھنگ نہ آیا۔۔ایاز امیر تو خیر سیاست سے ہی کنارہ کش ہو گئے مگر مقامی لیگی قیادت کو شاید ویزوں سے بنے پیسے نے لُبھایا تو جناب کو برداشت کرتے رہے۔طاقتور حلقوں نے ن لیگ کو ایک روز قبل ماں کہنے والے ان صاحب کو وسیع تر قومی مفاد میں پی ٹی آئی میں شامل کر دیا۔ کمپین شروع ہوئی تو حیدر سلطان اور میجر طاہر اقبال کو جس انداز سے پُکارا اس سے یقیناً لیگی قیادت کے تو پیسے پورے ہو گئے ہوں گے۔ مگر لانے والوں پر بھی جب زبان کے كمالات آشکار ہوئے تو اندازه تو انہیں بھی خوب ہو گیا مگر اب پچھتانے کا کیا فائدہ؟

ایک بات بہرحال ماننا پڑے گی کہ کاروباری آدمی چاہے جتنا بھی اَن پڑھ یا جاہل کیوں نہ ہو ،یہ جانتا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کون ہے۔

بد زبانی میں اب مین پاور ایکسپورٹر صاحب اکیلے نہیں رہے ایک جوڑی وال اور بھی مل گیا ہے۔جوڑی وال جناب سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ مختصر تعریف اس کی یہ ہے کہ موصوف تاجر یونین کے انتخابات میں پیسے کے بل بوتے پر کامیاب ہوئے تو وزارت عظمیٰ نہیں تو کم از کم وزارت اعلیٰ چند قدم کی دوری پر دیکھنے لگے۔اس وقت یہ غلطی چوہدری لیاقت علی خان سے سر زد ہوئی کہ  ریوڑی فروش کو اپنا منہ بولا بیٹا کہہ کر صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دلوانے کا وعدہ کر لیا۔ٹکٹ تو چوہدری لیاقت علی خان مرحوم نے خود ہی حاصل کیا مگر منہ بولے بیٹے نے جب حقیقی بیٹے کو گالیاں دیں تو یقیناً چوہدری لیاقت علی خان کی روح تڑپ اٹھی ہوگی۔

2013 کے انتخابات میں چوتھے نمبر پر ہارنے کے بعد ریوڑیاں پی ٹی آئی میں بٹنا شروع ہوئیں تو دهرنوں اور ریلیوں میں گاڑیوں کی قطاریں شامل کروا کے موصوف نےیہاں بھی اپنی جگہ بنا لی۔ تب ریوڑیوں کے ڈبے اور مرغ پلاؤ  پی ٹی آئی کے کارکنان کو بھی بھلے لگنے لگے۔

راجہ یاسر وضع دار آدمی ہیں مگر چوہدری لیاقت علی خان والی غلطی ان سے بھی سر زد ہو گئی۔ خیر اتنا قریب تو نہ کیا جتنا چوہدری صاحب نے کر لیا تھا’ مگر  پھر بھی ضرورت سے زیادہ عزت دی۔چھپڑ بازار میں راجہ یاسر کی موجودگی میں جب حالت غیر میں مخالفین کے خلاف نا زیبا زبان استعمال کی تو راجہ یاسر کو اس وقت ہی روکنا چاہیے تھا ۔مگر ایسا نہ ہوا اور کم ظرف کی کم ظرفی کو مزید شہ مل گئی۔2018 کے انتخابات میں حلقہ این اے 64 میں امپورٹڈ، مین ویزہ فروش اور ریوڑی فروش کی جوڑی ایسی ملی کہ پنجابی کی کہاوت یاد آتی ہے’ “ہِک انہی تے ہِک کو ہڑی”اب پچھلے قریب اڑھائی سالوں میں جہاں یہ جوڑی موجود ہو وہاں طوفان بدتمیزی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟۔ایک کو سردار عبّاس سے خدا واسطے کا بیر ہے تو دوسرے کو شیخیاں بگھارنے کا شوق ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

راجہ یاسر سرفراز اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے سیاست دان ہیں- ہزاروں اختلاف ان سے ہوں گے مگر گفتگو بہت مہذب انداز میں کرتے ہیں- راجہ یاسر نے 2013 سے 2018 تک ایسے بندے کی غمی خوشی میں بھی شرکت کی جس کا ووٹ بینک تو کیا اپنا ووٹ بھی نہ ہو۔۔جب سابق اے سی چکوال کے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش آیا تھا تب بھی شاید راجہ یاسر نے صلح صفائی کی کوشش کی تھی، بہتر ہوتا کہ کچھ علاج اس وقت ہی ہو جاتا۔ آج انہی نیکیوں کا نتیجہ ہے کہ سُسرال سے نکالا ہوا گھر داماد راجہ یاسر سرفراز کو تّڑیاں دے رہا ہے۔کل کی پریس کانفرنس کے نام پر بیہودگی میں جیسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک گزٹڈ آفیسر کو گالیاں دی گئیں اور انتظامیہ کو بلیک میل کیا گیا کہ AC کا تبادله کرو ورنہ ہم ہڑتال کریں گے’ کیا ایسا کسی مہذب ریاست میں ہوتا تو اب تک محترم پابند سلاسل نہ ہوتے ؟ لیکن یہ خان صاحب کی ریاست مدینہ ہے اور ہم راجہ یاسر کے چکوال میں رہ رہے ہیں۔ شاید یہ جوڑی وال یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ایک ڈی سی کا تبادلہ اتفاقاً ہو گیا جس نے جہاں پناہ کا خط پبلک کیا تھا تو اب انتظامیہ گھر کی لونڈی ہے، ہم ایک اے سی کے گھر بندوق لے کر چلے جائیں اور دوسرے کو بھی دھمکائیں کہ تجاوزات ختم نہ کرو تو وہ ڈر جائیں گے۔اگر یہ ہے وہ تبدیلی جو خان صاحب لانا چاہتے تھے اور چکوال سے راجہ یاسر سرفراز جس کے علمبردار تھے تو یہ تبدیلی بھی راجہ یاسر کو ہی مبارک ہو۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو ابھی سے ان جیسے  لوگوں  کو پارٹی توکیا سیاست سے ہی دور کر دینا چاہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply