ایک غیر معمولی ناول کیا ہوتا ہے ؟شاید ایک ایسا ناول جو سب زوائد کی نفی کرتا ہو۔ جسے پہلے کہا اور لکھا جا چکا ہے،یا جس خاص اسلوب میں لکھا اور کہا جا چکا ہے، وہ نئے ناول نگار کے لیے زوائد میں شامل ہے۔اس اصول کی رو سے سرائیکی کے ممتاز شاعر جناب رفعت عباس کا پہلا ناول “نمک کا جیون گھر ” غیر معمولی ناول ہے، جس کا اردو ترجمہ منور آکاش نے کیا ہے ۔ایک ایسے شہر کا تصور جس میں خدا ہے نہ مذہب اور جنگ ہے نہ موت ، کیا یکسر نیا،صحیح معنوں میں ” نوول آئیڈیا” نہیں ہے ؟ پھر اس سارے قصے کو طرفگی کے حامل اسلوب میں لکھنا،کتھا اور راوی کے زمانوں کو آمیز کرنا، واقعے اور فنتاسی، خواب اور روزمرہ حقیقت کی تفریق مٹانا اور اس سب کو قابل یقین بنا کر پیش کرنا کیا غیر معمولی بات نہیں ہے ؟ یہ ناول یہاں کی اصل ،یہاں کی مقامیت کو واگزار کرانے کا بےباکانا عزم کرتا ہے ۔ یہ لوک نگر (لونڑی ) ہزاروں سال تک اپنے باسی اور عام فرد لونڑکا کی تلاش میں رہتا ہے مگر اسے دیوتا نہیں بناتا اور اسی لیے وہ مذہب کے بغیر اور موت سے محفوظ ہے ۔
یہ لوک نگر ، بدھ کی مانند جنم کو دکھ نہیں کہتا۔، سکھ کہتا ہے اور یہ سکھ دراصل عام آدمی(جووادی سندھ کا قدیمی ،اصلی باشندہ ہے اور استعماری بیانیوں کی گرد کی موٹی تہوں میں چھپا ہے) اور اس کے قائم کردہ ناٹک گھر، نمک اور شیشے کی صناعی کے سبب ہے۔
(اہم نکتہ: ناول نگار نے مٹی کے بجائے نمک کی مدد سے مقامیت کو مشخص کیا ہے )۔ ناٹک گھر لونڑی شہر کی پارلیمنٹ ہے، مگر کسی لیڈر اور راہنما کے بغیر ۔ عرب حملہ آوروں سے لے کر یورپی استعمارکاروں کا مقابلہ بغیر ہتھیاروں کے ناٹک گھر میں کیا جاتا ہے ۔ رفعت عباس کے بہ قول دنیا مسخروں کے ہاتھوں میں زیادہ محفوظ ہے ۔ وہ اپنے ناول میں ہمیں یہ بھی باور کراتے ہیں کہ آرٹ اور صرف آرٹ، زندگی کی اصل کو، زندگی کی اصل کی سب مجازی حدوں کو جاننے ، حقیقی دینا کے سب جھگڑوں کو فیصل کرنے ، اردگرد کی دنیا میں ہونے والے بڑے بڑے علمی و تہذیبی واقعات سے ربط ضبط کو طے کرنے کا “مقام” ہے۔
آرٹ کو مرکز میں رکھنے والا یہ ناول خود آرٹ کا بڑا نمونہ ہے، جس کی اردو میں اشاعت ایک واقعہ ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں