• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ ہشتم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

ہم جنس پرستی اور پاکستانی تعلیمی اداروں کا علمی و تحقیقی جائزہ/حصّہ ہشتم۔۔ڈاکٹر محمد علی جنید

اہل سائنس کی غلط علمی متعصبانہ روش:

جبکہ دوسری طرف عام قاری یا خام محقق  سائنس دانوں کی زبان اور اصطلاحات میں چھپی ذو معنیت کو فراموش کرکے اس سے یک معنیت تک پہنچ کر دوسروں کو بھی  غلط شاہراہوں کی طرف بھٹکا دیتا ہے، مروجہ دور میں یہ چلن اخبارات اور رسائل سے عام قاری تک منتقل ہوتا رہتا  ہے اور علمی غلط فہمیاں ایمانیات میں بدلتی جاتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر شئے  کا ایک منفی یا مثبت پہلو ہوتا ہے ایک محقق منفیت کو اہم جانتا ہے دوسرا مثبت  ہونے  کو اصل گردانتا ہے،مسئلہ کی  کثیر ابعادی(ڈائمینشنل) ہیت و کیفیت اسکی  یک رُخی  میں گم ہوکر رہ جاتی ہے،سائنس کہنے کو مذہب اور عقیدہ کے خلاف نہیں ہوتی ہے مگر سائنس دان اسکے پیامبر مادی وحی کے مفروضے سے لیس ہوکر سائنس کو مذہب و حاکم بنا کراسے ایک علمیاتی مذہب میں بدل دیتے ہیں یوں اب حق کا فیصلہ کرنے کی اتھارٹی مابعد الطبیعاتی بنیادوں پر اپنے زعم میں آکر سائینسدان  انبیا کرام سے ہتھیانے لگتے ہیں،یہاں مذہب اور خدا کے مقابل نیا خدا مادے اور تصوریت کی صورت میں پیدا ہوجاتے ہیں،جس کے شارع و پیامبر یہی پیامبر ہوتے ہیں۔

عین اسی طرح جبلت نام کی شئے  میں پنہاں اور چھپی ہوئی کوڈنگ کی چیڑ پھاڑ زیادہ تر مفروضیت پر استوار ہوتی ہے، یہ مفروضہ حقیقی تحقیق،جستجو،صحیح منہج کی دریافت و محنت سے صحیح ثابت کرنا ممکن بھی ہوتا ہے اور ناممکن بھی ہوتا ہے،مگر اس غیر قطعیت کو خام محقق اور مصنفین قطعیت ثابت کرنے میں مگن ہوجاتے ہیں ،اب ڈی۔این ۔اے کوڈنگ میں پنہاں یہ رجحانات کسب سے فطری تصور کئے جارہے ہوتے ہیں  یا پھر انھیں  تربیت سے  نکال کر لاشعور کے کھاتے میں ڈال کر تحفظ عطا کردیا جاتا ہے۔

فلسفہ سائنس کے دو پہلو معروف ہیں عملی اور نظری،ہم یہ دیکھتے ہیں کہ زیادہ تر بڑے سائینسدان جن پر طبیعاتی ،میکانکی  اور حسابیاتی غلبہ غالب ہوتا ہے عملاً اطلاقی فلسفی ہوتے ہیں ،بالکل عین ایسے جیسے کوئی صوفی ایک خام و پختہ فلسفی ہوتا ہے ،اور وہ اپنے عقائد کو خاص لوگوں تک پہنچانے کے لئے خاص اصطلاحات گھڑتا ہے،تاکہ اہل شرع انکے حقیقی معنی و مطالب تک نہیں پہنچ پائیں ،جو اسکے معرفتی ڈھانچہ میں مخصوص معنی و مفہوم کی حامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ عام فرد ان اصطلاحات کے گورکھ دھندوں میں پھنس کر معرفت کی ان گتھیوں کو سلجھا نہیں پاتا ہے،کیونکہ خود انکو اختراع کرنے والا بھی عموماً ان معاملات میں ابھام کا شکار ہوتا ہے، جیسا کہ غزالی کا موقف تھا کہ کلمہ توحید عام آدمی کی توحید ہے خواص کی توحید کچھ اور یہاں خواص سے مراد اسکی نگاہ میں کوئی،جید محدث،مفسر اور فقیہہ نہیں ہوتا  ہے بلکہ اس سے مراد اسکی نگاہ میں اہل ذکر یا تصوف ہوتے  ہیں ۔چناچہ عین ایسا ہی معاملات سائنسدانوں کا بھی ہوتا ہے۔نیوٹن سے آئن  سٹائن تک وہاں سے رچرڈ ڈاکنز و ہاکنگ تک سب نظری سائنسدان و محققین ہیں ۔یہ اللہ اور اسکی تخلیق کے منکر ہوتے ہیں(نیوٹن اس الزام سے خارج ہے) مگر اسکے نا ہونے یا ہونے دونوں پر انکا مجموعہ کلام قطعیت سے خالی ہوتا ہے۔اسی طرح جبلت کو ہم مسلسل وجود کے اظھار کے مشہاہدے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اندازے قائم کرتے ہیں کہ کس مخلوق و تخلیق کی کیا سرشت  ہوتی ہے۔جب کوئی شہ زماں کے ساتھ مسلسل یکساں تسلسل کا اظہار کرتی ہے تو ہم اسکی جبلت و سرشت پر رائے قائم کرنے میں جری و یقینی ہوتے جاتے ہیں،کہ اب اسکا عمل یا رد یہ یہ ممکن ہیں  اسی طرح  ہمارے جیسے عام لوگ بھی اس پر وہی رائے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں۔ جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ ہمیں حیوانوں اور مظاہر قدرت کے عالمگیر مظاہروں کا جو تجربہ بچپن سے پچپن تک ہم جیسے ناقص العلم افراد کو  حاصل ہوتا ہے،وہ ہم سے   کم عمر و علم  فرد بھی جانتا ہے۔

لیکن یہ دعویٰ  کرنا کہ فلاں شئے  چونکہ جبلی ہے جب ہی  وہ ایسا کررہے ہیں یہاں معاشرہ،تعلیم ،کسب،اصلاح کے معنی مفہوم ختم ہوجاتے ہیں، کیونکہ ایساے افراد کی عامتہ النسا کی جبلت سے فراریت اور دوری انکی کج روی ہوتی ہے،اور خود عامتہ الناس کی جبلت سے دغا بازی ہوتی ہے لہذا کسی کا کسی کو قتل کرنا،کسی کا سے  اسکا مال و متاع چھیننا ،کسی کا کسی عورت کی عزت کو تار تار کرنا ،کسی کو سرے عام گالیاں دینا،تذلیل و تحقیر کرنا اخلاقی رزایل ہیں ،آپ ان کے مرتکبین اور جرایم سرانجام دینے والوں کو جبلتی یا ڈی۔این اے کوڈنگ کے سبب ایسا  کرنے والا کہہ کر  انکی کجرویوں ،انحرافیت اور خواہش نفسی  اور شیطانیت کو جبلتی کوتاہی اور بیماری  قرار دیکر غلط کو صحیح ثابت نہیں کرسکتے ہیں۔

چنانچہ کسب،تربیت،گرفت ،تزکیہ نفس اور سماج پسندیت سے ہم بہت سے عوامل اور وجوہات کو پس پشت ڈال کر ٹال سکتے ہیں ،مگر اسکو لاعلاج قرار دیکر اخلاقیات کا جنازہ نکالنا  کوئی شافی حل نہیں ہے  بلکہ الٹا  انتشار پذیر  معاشرے و مزاج میں مزید مسئلے پیدا کرنا ہوتا ہے چنانچہ  ہم دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی خواجہ سرا،مخنث اور طوائفیں تبلیغ اور اصلاح سے خود کو بدل چکے ہیں توبہ کرکے تائب ہوچکے ہیں۔ جب ہی یہ کہنا کہ جبلتی مجبوریوں ،یا قدرتی  دباؤ  کے سبب انکو بدلنا مشکل ہے،یہ  ایک ایسا یک طرفہ موقف ہے جسے سائنس کے مذہب کے نام پر جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا ہے،اگر سائنس عقیدہ کے مخالف حقایق کی دوست ہے تو اسے اول حقیقت کی حقیقت اسکے مزاج، طور اطوار اور روح کو جاننا ہوگا کیونکہ حقیقت  حق کے ساتھ سورج کی طرح  ظاہر و طاہر ہوتی ہے لفظوں ،اصطلاحوں اور قانون سے قایم نہیں ہوتی ہے۔واضح رہے پوسٹ ماڈرن فلسفہ،پوسٹ ماڈرن سائینس اور اسکے فلسفہ نے سائینس کے مطلق اور خطا سے مبرا ہونے اور ہر شہ کے فیصلہ کن حاکم و قاضی ہونے کے موقف کو سرے سے رد کردیا ہے،اس نے اس مہابیانیہ کےچھیچھڑے اڑا دیے ہیں۔

نوجوان نسل،تربیت ،ایڈی پس ضمیریت اور ہم جنس پرستی:

چنانچہ ہم جنس پرستی ان لوگوں کے لئے تو عقیدہ و فکر کی رو  سے ہی گناہ،منفیت اور صلبیت کی علامت ہوتی  ہے جو کسی ان دیکھے خدا،خالق مالک قادر اور اسکی ربویت کے قایل ہوتے ہیں،کیونکہ خدا حکیم اور علیم ہوتا ہے،وہ جبلت کو زیر دست  و منضبط رکھنے کے لئے دین و شریعت کو بروے کار لاتا ہے،اگر ان سے کوئی عمل کسی مذہبی،سماجی و قانونی پہلو کے برخلاف صدور پذیر ہوتا ہے تو انکا ضمیر انکو ڈسنے لگتا ہے،انکو اس امر کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ ان سے غلطی سرزد ہوئی ہے،جبھی توبہ انکی ندامت و گناہ کو ہمیشہ دھونے کا راستہ دکھاتی رہتی ہے، اس ضمن میں اللہ رب العالمین  اپنے قوانین بتدریج انبیا کرام کے ذریعہ مکلفین پر نافذ کرتا  رہتا ہے،جن افراد کے ا اخلاقی کج روی پر مبنی رویہ  اور انکے نفرادی میلانات و رجحانات ہوتے ہیں ،انکو وہ تزکیہ نفس،امر بالمعروف نہی عن منکر سے دور کروانے کی قانونیت قائم کرواتا ہے۔

اس قسم کی سماجی قانونیت غیر اسلامی،غیر مذہبی اور سماجی اصول کی پیروی میں کمزور افراد بھی کہیں نا کہیں محسوس کرتے ہیں چنانچہ یونانی دیو مالائی کردار جسے سوفوکلیس نے المیہ ڈرامہ کی صورت میں تحریر کیا تھا تاکہ وہ عوام کے سامنے ڈرامائی  صورت میں پیش کیا جاسکے اس ڈرامہ میں جو فلسفیانہ معرفت ڈھونڈنے کو ملتی ہے وہ ہر زمانہ میں نئی تشریح کی محتاج ہوگی،اس ڈرامہ میں  سوفوکلیز  اڈیپس کی بابت بیان کرتاا ہے کہ بچپن میں اسکے تھیبز کے  بادشاہ باپ کو نجومی بتاتے ہیں کہ تمہارے ہاں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تمہاری موت کا سبب بنے گا،وہ جواباً اپنے ہر نو مولود بچے کو ہلاک کروادیتا ہے،ایڈیپس کی پیدائش پر اسکی ماں اسکو محل سے باہر بھجوا دیتی ہے،اور ایک چرواہا اسکو پال پوس کر بڑا کرتا ہے یوں وہ بچ جاتا ہے۔

اسکی جوانی تک  تھبز کی روایت کی رو سے جو بھی  مسافر شہر میں داخل ہوکر بادشاہ سے مقابلہ کریگا اور اسکو شکست دیگا وہ نا صرف نیا حاکم بنے گا بلکہ  وہ اسکی بیوی سے بھی نکاح کریگا،خدا کا کرنا یہ ہوتا ہے کہ اس دن ایڈی پس شہر کے پھاٹک سے اندر داخل ہوتا ہے اور  انجانے میں ایک بوڑھے سے اسکا تصادم ہوتا ہے،جو حقیقت میں اسکا سگا باپ ہوتا ہے چنانچہ ،وہ شہر کے باہر اسکا سامنا ایک عفریت سِفنکس سے ہوتا ہے جسکا سر اور سینہ عورت  نما  ہوتا ہے، جبکہ اسکا بقیہ جسم شیر کا ہوتا ہے،اور پر عقاب نما ہوتے ہیں وہ اس سے سوال پوچھتا جسکا جواب عقلمند آڈیپس دے دیتا ہے بعد میں وہ تھبیز کا بادشاہ بن جاتا ہے پھر وہ اس بوڑھے بادشاہ  کی ملکہ سے نکاح رچاتا ہے،وہ بعد میں جب خود کے نسب کی تحقیقات کرتا ہے تو اسکا پالنہار چرواہا اگل دیتا ہے کہ  ملکہ جو کاسٹا ہی اسکی  اصل ماں ہے اور بادشاہ ہی اسکا باپ تھا،  چنانچہ اس کے اندر ضمیر کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے،وہ باپ کے قتل کو کئی آدمیوں ،لٹیروں کا کارنامہ قرار دیتا ہے، درون خانہ ضمیر کی تشفی کے لئے  جواز گھڑنے کی کوشش کرتا ہے  تاکہ خود کو اس گناہ  سے بری قرار دینے کی تشفی بخش کوئی راہ نکل آئے ،مگر کرب درون خانہ بڑھتا جاتا اور اسے اندر ہی اندر ڈستا جاتا ہے،مگر ماں والی بات اسکے ضمیر پر بوجھ بن جاتی ہے،چنانچہ ایک دن وہ اسے یعنی جوکاسٹا کو مارنے نکلتا ہے،تو اسے  بستر پر مردہ پاتا ہے،کیونکہ وہ جان چکی ہوتی ہے کہ اسکا نیا  شوہر ہی اسکا بیٹا ہے ،چنانچہ وہ خودکشی کرلیتی ہے، آڈیپس مردہ ماں کو دیکھ کر  غم میں سودائی ہوجاتا ہے اور اپنی آنکھیں نوچ  کر خود کو اندھا کرلیتا ہے اور اسی غم میں  کچھ وقت گزار کر دنیا سے گزر جاتا ہے۔

یہیں سے فرائیڈ نے جانے کیا کچھ  نفسیاتی مسئلے حقیقت کے نام پر دیومالائی ڈرامہ سے اخذ کرلئے اور اسکو حقیقت قرار دے دیا،اور اصطلاح ایڈی پس کمپلیکشن اختراع کرلی،  خیر اصل بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ  ہمارے ضمیر کا بوجھ اور بحران ہے ،ضمیر نامی اندرونی احتسابی کیفیت و صفت کی تعمیر اخلاقیاتی اقدار سے ہوتی ہے،جب یہ اقدار ختم ہوجاتی ہیں تو  انسانی ضمیر بھی ختم ہوجاتا ہے، اور ضمیر کا ختامہ انتشار و نراجیت کو پیدا کرتا ہے ،جبھی  جدید نفسیات،فرائیڈین جذباتیت کے مقلدین یہاں اخلاق کو غیر اقداری ذاتی تعمیر شدہ مان کر سماج کو ڈھانے لگتے ہیں، وہ ڈرامہ کی روح اور مقصدیت فراموش کرجاتے ہیں ،یوں ادب سے علمیاتی مسائل حل کرنے کا چلن پیدا ہوتا ہے،یہاں اصطلاحاتی ڈرامہ بازی سے سائینسی جذباتیت کی تعمیر کی جاتی ہےاس ضمن میں یہ حقیقت فراموش کرنے میں جرات دکھائی جاتی ہے کہ میاں ایڈیپس  نے جو کچھ کیا وہ سب کچھ انھونے  انجانے میں کیا  تھا ،جان بوجھ کر نہیں کیا تھا اور جب ماں بیٹے  اصل بات جانتے ہیں تو  اپنے اپنے ضمیروں  کا بوجھ اٹھا نہیں پاتے ہیں،  یہاں اہم سوال یہ ہیدا ہوتا  ہے کہ  کیا ہم جنس پرستوں کے اندر  کوئی  ضمیر نامی احساس و تصور سرے سے موجود ہوتا ہے یا نہیں؟،کیا وہ بھی انکی خواہش نفسی کی طرح  غیر اقداری اور خود اختیاری نوعیت کا حامل ہوتا ہے؟،یا کم از کم انھیں بھی ایڈیپس کی طرح خلجان قلب و نظر لاحق ہوتا ہے؟ یہ سوالات کہنے کو آسان محسوس ہوتے مگر درحقیقت بھت عمیق گھرائی اور معاملہ فہمی کے محتاج ہیں  جنکو سمجھنے کے لئے نا صوفی ہونا ضروری ہے اور نا ہی ملحد ، انکے لئے با ضمیر ،با اخلاق اور،باکردار ہونا ضروری ہے اور اس بات کو اسکی حقیقی روح، جوہریت اور فطرت کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔

خالق ِ کائنات اور تیسری جنس:

اسی طرح ہم قانون شریعت میں دیکھتے ہیں کہ یہاں اللہ  کسی تیسری جنس کی قانونی تقسیم بندی متعارف نہیں کروارہا ہوتا ہے بلکہ جنسی اعضا کے غالب رجحان کی بنیاد پر انکی وراثت متعین کرواتا ہے۔وہاں تیسری جنس(انکے زعم کی رو سے) یا پہلی دو جنسیں دونوں اسکی مخلوق ہوتی ہیں سب تقوی کی بنیاد پر عظمت و شرف رکھتی ہیں اگر پہلی دو جنسیں اخلاقی و دینی طور پر پست  ہوتی ہیں اور تیسری(زعم شدہ) بلند ہوتی  ہے تو رب کی   نگاہ میں وہی محبوب  ہوتی ہے اور  اول دو پست  ہوتی ہیں۔

اگر خواجہ سرا موحد،غیر مشرک اور اطاعت گزار ہوتا ہے تو وہی  بد کردار ،گناہ گار اول دو جنسوص سے قانون تقی کی رو سے افضل  ہوتے ہیں اب،چاہے کل معاشرہ اس بابت مخالف روش پر کیوں نا کھڑا ہو۔مگر ہمارایہی رب اسکے ساتھ ساتھ  اس مخنث کو یہ اجازت بھی  نہیں دیتا ہے کہ وہ سراپا جنس بنا پھرے جنسی عیاشی و تفریح کا مجموعہ کلام  دکھتا ہو اور لچے لفنگوں کے لئے  تفریح کا مظہر بنا  پھرتا ہو  روز سو کر اٹھتا ہو بن سنور کر باہر نکلتا ہو  ،عورت کی نقالی کرکے اپنی عزت،عفت کو بیچتا  پھرتا ہو ،سڑکوں پر کھڑے گھٹیا لونڈے اوباش لوگ کھلے عام اس  اس مصنوعی عورت سے وہ گستاخیاں شوخیاں،عیاشیاں اور سوقیانیت روا رکھتے ہوں جن سے وہ اپنی گھر کی عورتوں کو  دور رکھنا چاہتے ہوں، یہاں انکو سمجھنا ہوگا کہ اسلام انکو کہتا ہے کہ  تمہارا جو عیب  تمہارے اللہ نے چھپایا ہو تم بھی چھپاو،اور اگر ابھر آیا ہے تو نارمل رہو جیسے ہم سب نارمل رہتے ہیں ،اور روز مرہ کے کاروبار زندگی میں شریک و سہیم رہتے ہیں۔ماضی میں کتنے ہی خوجہ سرا عمدہ سپاہی ،سپہ سالار اور منتظم رہے چکے ہیں،یہ درحقیقت ہمارے جدید تمدن کا قصور ہے کہ اس نے خواجہ سرا کو نمود و نمایش اور گھٹیا متبادل سستی طوایف بازی کا ذریعہ مان لیا ہے،ہم نے اپنی مساجد میں انکو دیکھنا چھوڑ دیا ہے اور انھوں نے مساجد کو اللہ کا گھر مان کر وہاں آنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ جدید تمدن روٹی،آسائش،جنس اور اشتہا کا تمدن ہےیہاں جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔چنانچہ پاکستان کی بیروز گار،غربت زدہ ،شادی سے محروم ،مہنگائی کی ماری ،تعلیم سے دور نوجوان نسل کی جنسی اشتہا پوری کرنے کا سستا گھٹیا نعم و بدل یا ذریعہ یہ مخنث ہیں جو آنٹیوں کی طرح چند سو روپے  میں اپنا جسم بیچنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں،دوسری طرف گھر ،خاندان ریاست ان نا خلف فضول ،وقت زایاں کرنے والے نوجوانوں کی اخلاقیات کو سدھارنے میں ناکام  ہوچکے ہیں ، جو کہیں منشیات فروشی کرتے دکھتے ہیں تو کہیں منشیار نوشی کرتے دکھتے ہیں،تعلیم سے کوسں دور بھاگتے ہیں،چند ہزار روپے کے موبائل کے لئے لوگوں کے لختِ جگر کو مار دیتے ہیں، جسکو کچھ نہیں ملتا وہ ٹرگیٹ کلر بن جاتا ہے،جو شریفانہ بدمعاشی دکھانا چاہتا ہے تو وہ سیاسی کارکن بن جاتا ہے ،اور جو اس سے درجہ آگے شاہانہ طور پر طاقت،دولت اور شھرت سے لیس ہوکر نکلتا ہے وہ سیاست دان بن جاتا ہے ہم اان نوجوانوں کے  لئے سستی  روٹی ،کپڑا اور مکان سستا بنانے سے قاصر ہیں تاکہ اس نوجوان نسل کو مروجہ بدی پر منحصر غلط طریقہ کار و رجحانات سے دور رہ سکیں۔

پاکستانی نوجوان نسل کے مسائل و وسائل :

نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ کی رو سے پاکستان کی ۶۵ فی صد آبادی تیس سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے،جبکہ ۱۵ سے ۲۹ فیصد نسبتاً کم عمر بالغ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔یہ دعوی غلط ہے کہ پاکستان ۲۲ کروڑ افراد کی آبادی ہے ، بلکہ پاکستان قریبا ًو قیاساً ۲۶ کروڑ افراد سے کسی صورت کم آبادی نہیں رکھتا ہے۔صرف کراچی کی بابت آٹھ سال قبل اداروں کا تخمینہ ساڑے تین کروڑ افراد کی آبادی  کا تھا، چنانچہ سیاسی بنیادوں پر کراچی کی آبادی کو دوسرے شھروں کے مقابل گھٹا دیا گیا۔ایک اندازہ کے مطابق ہر لاکھ میں کوئی دس بیس افراد مردوں میں ہم جنس پرست رجحان کے حامل یا انکی طرف نرم گوشہ رکھتے ملتے ہیں ،جبکہ عورتوں میں یہ وبا ہر ہزار میں پانچ کی پختہ اور ہر ہزار میں بیس غیر پختہ طور پر پائی جاتی ہے۔مرد باہم ایک دوسرے کے سامنے جنسی اعضا ظاہر کرنے ایک چادر و بستر پر سونے میں نا ہونے کے برابر شرکت پر آمادہ ہوتے ہیں ،اب جہاں جگہ کا مسئلہ ہو تو وہ ایک  الگ بات ہے  دوسری طرف خواتین باہم ایک دوسرے کے سامنے کلی برہنہ ہونا برا نہیں جانتی ہیں  ،ایک بستر اور چادر میں سونے کو ناپسند نہیں کرتی ہیں جبکہ  ،شادی بیاہ پرآمنے سامنے کپڑے بدلنے پر عام طور پر مگن رہتی ہیں۔

ہماری یہ  محروم،قلیل العلم،بیروزگار،غربت کی ماری ،ہزاروں خواہش رکھتی یوتھ اس وقت  مواقع اور ذرائع  کی قلت  اور غیر مکمل آسودگیوں کی تلاش میں ہمارے معاشرے کے لئے ایک چلتا پھرتا بم بن چکی ہے جسے اگر مثبت طور پر تعلیم و تربیت دے کر باشعور حلال کمانے والے محنت کار میں نہیں بدلا گیا تو بیرونی ثقافتی یلغار جو کثیر بینادوں پر جنسی  طور پر آلودہ ہوچکی ہے،ہمیں عظیم سانحات کا شکار کرسکتی ہے ،اس یوتھ کو جو پہلے ہی موبایل زدہ ہوکر کتابوں سے دور ہوچکی ہے ،ایک دوسرے کو ڈسنے لگے گی اور اسکے برخلاف اگر اسی نوجوان نسل  کو صحیح تربہت کے ساتھ حلال کمانے والا بنادیا گیا تو یہ ملک میں درون خانہ اور بیرون خانہ ہر سطح پر کثیر قومی سرمایہ کمانے اور جمع کرنے کا سبب بن جائیگی۔مہنگی ہوتی شادی،جھیز،سونا،حدود سے باہر ہوچکے ہیں ذاتی  مکان ناممکن الحصول شہ بن گیا ہے،خواہشیں لامحدود سطح پر جاپہنچی ہیں اب جب ایسا ہوگا تو نوجوان نشہ سے لیکر زنا تک اور ہم جنس پرستی سے قتل تک گناہ کو گناہ جاننا چھوڑ دیگا،لہذا ریاست حقوق کی قانون سازی کی جگہ اگر سہولیات،انصاف،تعلیم صحت،روزگار اور چھت کے مسایل حل کریگی تو امن و امان اورلاقانونیت کی حالت درست ہوگی۔

لبرلازم کی مولوی کے برخلاف دوغلیت:

اب جہاں تک دینی مدارس میں ہم جنم پرستی  کے رجحانات کے معلوم چلنے کا تعلق ہے تو معلوم چلنا چاہیے کہ دینی مدارس میں بھی  آخرکار ہمارے جیسے انسان ہی  پڑھتے ہیں ، ویسے بھی فرشتہ تعلیم حاصل نہیں کرتے ہیں،انکی بھی اسی طرح خواہشات ہوتی ہیں جیسی غیر دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کی  خواہشین اور ضروریات ہوتی ہیں،فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ دینی مدارس میں دین سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے،مگر واضح رہے کہ درس نظامی کا غالب حصہ دینی کم عقلی،حسابی،نحو و صرف پر زیادہ مشتمل نظر آتا ہے۔دوسری طرف ایک اور مسئلہ یہ بھی دریافت طلب   ہے کہ اگر کل دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کی تعداد اور استاذہ کی تعداد کا تقابلہ و موازنہ کرکے دریافت کردہ کیسز سے انکا نتیجہ اخذ کیا جائے تو  مروجہ  اسکینڈلز و سانحات ذرہ برابر وزنی  اور قلیل  تعداد سے زائد نظر نہیں آئیں گے،کج روی کے رجحانات اپنے اظہارات کے لئے مذہب اور غیر مذہب کی حدود بندی کو نہیں دیکھتے ہیں۔یہ رومانوی تغیرات اپنی ایک الگ نفسیات رکھتے ہیں ،یہ  وجودوں کی باہمی کشش اخلاقی نظام ،ماحول ،تربیت اور خود گرفتی کی کمزوری کے سبب منفی لھر تخلیق کرکے جذبات کو متصاد رخ پر ملتفت کروادیتی ہے، جذبات کی بابت  یہ کہنا ہے کہ  یہ سرے سے قابو میں نہیں لائے جاسکتے ہیں کمزور علما اور مغلوب الحال مفکرین و محققین کی کمزور تفہیم اور عدم تدبر کا نتیجہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply