قربانی کا گوشت یا گوشت کی قربانی؟/اسد علی

اس بارے میں بہت لکھا جا چکا ہے، کبھی اسلامی نقطہ نگاہ سے سمجھایا گیا، کبھی طنز و مزاح کو خاطر میں لا کر۔ کبھی تو سائنسی، طبی، یونانی، ہومیو طریقہ سے بھی سمجھایا گیا، کبھی کبھی تو آپ لوگوں کو سرکاری پروٹوکول دے کر بھی بتایا گیا۔ مگر آپ لوگ ہیں کہ کسی طرف بیٹھ ہی نہیں رہے۔ کبھی تو ٹی وی پر، کبھی سوشل میڈیا پر بھی آگاہ کیا کہ بھائی صاحب یہ قربانی کی عید ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ sharing is caring مطلب “ونڈ کے کھاؤ”۔ مجال ہے جو ہمیں قربانی کا “ق” بھی سمجھ آیا ہو۔

اس میں قصور ہمارا یا آپ کا بھی نہیں ہے، بتایا ہی نہیں گیا، سکھایا ہی نہیں گیا۔ جس عید کا نام ہی بکرا عید رکھ دیا ہو اس میں تو قربانی کے وجود کا دم توڑ دینا واجب ہے۔ یہاں تو نمائش چل رہی ہے، ہزاروں کا بکرا، لاکھوں کا بیل، کروڑ  کا اونٹ۔ جب حرص و حوس کا مقابلہ قربانی سے ہو، ہمیشہ حرص بلا مقابلہ بھاری اکثریت سے جیت جائے گی۔ کس چیز کی قربانی ہو رہی ہے مت کرو قربانی، پاس رکھو یہ جانور، سنبھال رکھو کسی ریس کے لیے، کسی دنگل کے لیے۔ جس دین کا پیغامبر  یہ کہہ رہا ہو کہ یتیم کے سامنے اپنے بچوں کو پیار مت کرو کہ کہیں وہ  دل میں تکلیف نہ محسوس کریں  ، وہاں یہ سب وارداتیں، نفسیاتی قتل کی آماجگاہ کے اس معاشرے میں قربانی کیسی؟

نہیں بھائی نہیں، ہم نہیں مانیں گے، ہم نے بکرا، بیل پوری گلی میں بھی پھرانا ہے اور ریٹ بھی بتاتے جانا ہے۔ ہم نے سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہونا ہے اور جانور کی بھاگنے یا بدکنے کی ویڈیو کا تمسخر بھی اڑانا ہے۔ ہم نے گھر کے تمام فریج اور فریزروں کو خالی بھی کرنا ہے ہم نے باربی کیو  کا بھی پروگرام بنانا ہے۔ ہم نے ریسیپیز مصالحوں کی پوری دکان بھی خریدنی ہے۔ ہم نے اے سی والی گاڑیوں میں بیٹھ کر دور دور گھومنے بھی جانا ہے۔ ہم نے عید کے نام پر پارکوں میں ہلّہ  بھی مچانا ہے اور بھری سڑکوں پر ون ویلنگ بھی کرنی ہے۔

یہ سب ہوگا عید اور سنتِ ابراہیمی کے نام پر۔ کیسی قربانی جبکہ حقدار آج بھی دروازے کو تک رہا ہوگا، کہ شائد آج کہیں سے تھوڑا گوشت مل جائے اور اسکے بچے بھی کھا لیں۔ مگر شام تک اپنی روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر لیں گے اور جو گوشت کے نام پر شام گزار کر آئے گا وہ، وہ کچھ آئے گا جس کو کہا جاتا ہے “قربانی کے جانور کا کچھ بھی ضائع نہیں کرتے، بہتر ہے کسی کو دے دو۔ ”

یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک ہم قربانی کو اپنی زندگیوں کا حصہ نہ بنا لیں۔ صرف ایک نسل نے یہ کام کرنا ہے اپنی اخلاقی تربیت پر ذرا غور کریں آپ کے بچے بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ مکافاتِ عمل زیادہ دور نہیں ہے۔ قربانی زیادہ مشکل بھی نہیں ہے، پانی کم ضائع کریں یہ بھی قربانی ہے، موبائل کو کم گھر والوں کو زیادہ ٹائم دیں یہ بھی قربانی ہے، جو گزر گیا اسے بھول جائیں، یہ بھی قربانی ہے، جو پسند ہو وہ کسی اور کو دے دیں اور خود کم پر گزارہ کریں، یہ بھی قربانی ہے، جو ہنر آپ کو آتا ہے کسی کو بلا معاوضہ سکھا دیں، یہ بھی قربانی ہے، قربانی کی بہت سی شکلیں ہیں، جن پر عمل کرنا آسان بھی بہت ہے اور سکونِ قلب کا مؤجب بھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب رہ گئی بات گوشت کی تو جانے دیں سرکار، برسات کا مہینہ سے food poisonings ہونا عام سی بات ہے heart issues پہلے ہی آپ کو بہت ہیں BP کی دوائی بھی لیتے ہیں، لاکھوں کا جانور لیا ہے صاحبِ حیثیت بھی ہیں، روز گوشت بھی کھاتے ہیں، اس بار کسی اور کو بھی کھانے دیں جائیں اسے گلے ملیں جتنی جلدی ہو سکے اسے گوشت پہنچائیں وہ بھی کلیجی کھائے، وہ بھی عید کی صبح پائے کھائے۔ اسے بھی محسوس ہو کہ یہ قربانی کا گوشت نہیں بلکہ گوشت کی قربانی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply