کینسر (35) ۔ کیمیائی بمباری/وہاراامباکر

بارنیٹ روزنبرگ ایک بائیوفزسٹ تھے جو 1965 میں ایک تجربہ کر رہے تھے۔ ان کا سوال تھا کہ “برقی رو کا بیکٹیریا کی تقسیم پر کیا اثر ہوتا ہے؟”۔ جب انہوں نے برقی رو گزاری تو بیکٹیریا نے تقسیم ہونا بند کر دیا۔ روزنبرگ کا پہلے خیال تھا کہ اس کی وجہ کرنٹ ہے لیکن انہوں نے جلد ہی معلوم کر لیا کہ ایسا نہیں۔ الیکٹروڈ بیکٹیریا کے محلول میں شامل نمکیات کے ساتھ ری ایکشن کر کے ایک کیمیکل پیدا کر رہا تھا جو پورے محلول میں پھیل جاتا تھا۔ یہ کیمیکل سسپلاٹن تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیکٹیریا کو بھی تمام خلیات کی طرح تقسیم ہوتے وقت ڈی این اے کی کاپی بنانا ہوتی ہے۔ سسپلاٹن اس موقع پر اپنے مالیکیولر بازووٗں کی مدد سے کیمیائی حملہ کرتا تھا اور اس کو نقصان پہنچا تھا۔ اس وقت خلیات اپنی تقسیم روک دیتے تھے۔
اگرچہ کیمسٹ اس مالیکیول سے انیسویں صدی کے آخر سے واقف تھے لیکن اس سے پہلے اس کا کوئی عملی اطلاق نہیں ملا تھا۔ اگر یہ خلیاتی تقسیم روک سکتا تھا تو کیا کینسر کو بھی؟
سسپلاٹن اگلے چند برسوں میں کینسر کی نئی جارحانہ ادویات کا حصہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بائیس سالہ جان کلیلینڈ کو اپنی شادی کے دو ماہ بعد دائیں خصیے میں ابھار محسوس ہوا جو بڑھ رہا تھا۔ انہوں نے نومبر 1973 کو یورالوجسٹ کو دکھایا۔ ان کو خصیے کا کینسر تھا جو پھیل چکا تھا۔ وہ کینسر وارڈ میں داخل ہو گئے۔ ایسی صورت میں سروائیول ریٹ پانچ فیصد سے کم تھا۔
ان کی کیموتھراپی شروع ہو گئی۔ یہ تین ڈرگز کی کاک ٹیل تھی جسے ABO کہا جاتا تھا۔ ان کا وزن گر کے 106 پاونڈ رہ گیا۔ کھڑا ہونا دوبھر ہو گیا۔ علاج موثر نہیں رہا۔
ان کے ڈاکٹر آئن ہارن نے تجویز کیا کہ اس میں سسپلاٹن کا اضافہ کر کے دیکھ لیا جائے۔ شاید کوئی فرق پڑ جائے۔
ایک جانب نئی دوا سے موہوم سی امید، دوسری طرف یقینی موت۔ کلیلینڈ نے سسپلاٹن کے استعمال کی حامی بھر لی۔ سات اکتوبر 1974 کو وہ ادویات کا نیا کمبی نیشن استعمال کرنے والے پہلے مریض تھے۔ یہ BVP کی ریجیمن تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر وارڈ کینسر پر کیمیکلز کی بمباری کرنے والی جگہ تھے۔ نہ صرف یہ مریض کے علاج کی کوشش تھی بلکہ ہر مریض کا علاج ایک تجربہ بھی تھا۔ مریضوں کے لئے خوشگوار ماحول رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی اور کوشش کی جاتی تھی کہ کینسر کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔
ایلسوپ کے الفاظ میں۔ “ایک فرد کی جان بچانا ہمارا مرکزی مشن نہیں تھا۔ اگرچہ ہم اس کی پوری کوشش کرتے تھے کہ زندگی جتنی طویل کی جا سکے، کی جائے۔ لیکن بنیادی مقصد ایک فرد کی جان بچانے سے زیادہ یہ معلوم کرنا تھا کہ باقی سب کی جانیں کیسے بچائی جا سکتی ہیں”۔
آخر، جب تک تجربہ نہ کیا جائے، اس کا معلوم بھی کیسے ہو سکتا تھا کہ کیا موثر ہو سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلیلینڈ کو دس روز تک دوا دی گئی جس کے بعد وہ معمول کے سکین کے لئے گئے۔ ان کے پھیپھڑوں کے ٹیومر بالکل غائب ہو چکے تھے۔
آئن ہارن 1975 تک بیس مزید مریضوں کا علاج اس طرح سے کر چکے تھے۔ ڈرامائی اور باقی رہنے والا ریسپانس نظر آیا تھا۔ انہوں نے یہ ڈیٹا ٹورنٹو کی کانفرنس میں پیش کیا۔ 1976 تک یہ واضح ہو رہا تھا کہ ان میں سے کئی مریض واپس نہیں آئے۔ آئن ہارن نے کیموتھراپی کی مدد سے ٹھوس کینسر کا علاج کر لیا تھا۔ “یہ ناقابلِ یقین لگ رہا تھا۔ میں اپنے سادہ لوح ذہن میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہم نے گمشدہ فارمولا ڈھونڈ لیا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سسپلاٹن کے استعمال کا مطلب انتہائی قوت سے ہونے والی متلی تھا، جو میڈیکل کی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ اوسطا ایک مریض دن میں بارہ مرتبہ قے کرتا تھا۔ لیکن اس طرح کا سائیڈ ایفیکٹ اس کے مثبت اثر کے مقابلے میں معمولی تھا۔ سسپلاٹن ایک معجزاتی دوا سمجھا جاتا تھا۔ 1978 میں اس کی بنیاد پر ہونے والی کیموتھراپی اپنے عروج پر تھی۔ ڈرپ سے ٹپکتا ہلکا زرد مائع اور قے کرتے مریض، یہ کینسر وارڈ کے منظر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
نیشنل کینسر انسٹیٹویٹ زہریلے مادوں کی فیکٹری تھا۔ آنے والی بڑی فنڈنگ سے ان کی دریافت کا کام تیزتر ہو گیا تھا۔ لاکھوں کیمیکل سال میں ٹیسٹ کر کے سائیکوٹوکسک ادویات دریافت کی جا رہی تھیں۔ یہ تمام کام ایمپیریکل تھا۔ یعنی یہ تو نہیں سمجھا گیا تھا کہ یہ اثر کیسے کرتی ہیں۔ دریافت کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ ٹیسٹ ٹیوب میں کینسر کے خلیات پر کیمیکل برسائے جاتے تھے۔ اس کے پیچھے کارفرما بائیولوجی کا زیادہ علم نہیں تھا۔ یہ شماریات سے ہونے والی سائنس تھی۔
“ہم وقت ضائع کرنا افورڈ نہیں کر سکتے۔ جنگ میں گولی درکار ہے۔ ہمارا دشمن کینسر ہے۔ جو بھی اسے مار دے، ہمارا دوست ہے”۔ یہ ہارورڈ سکپر کے الفاظ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نت نئے کیمیکل آ رہے تھے۔ ہر ایک کی اپنی منفرد شخصیت تھی۔ بحرالکاہل کے ییو درختوں کی چھال سے حاصل کردہ ٹیکسول تھا۔ سو درختوں سے ایک گرام حاصل ہوتا تھا۔ سرخ رنگ کی ایڈریامائیسین تھی جو مریض کے چہرے کو نارنجی کر دیتی تھی۔ دل کو نقصان پہنچاتی تھی۔ ایک زہریلے پھل سے حاصل ہونے والا ایٹوپوسائیڈ۔ بلیومائیسین تھی جو پھپھوندی سے خاصل ہوتی تھی اور پھیپھڑے پر زخم ڈال دیتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستر کی دہائی کی وسط میں ہائی ڈوز کمبی نیشن کیموتھراپی کو ایک اہم کامیابی ہوئی تھی جو برکٹ لمفوما کے خلاف تھی۔ یہ لمفوما کی ایک نایاب قسم تھی۔ اس سے اعتماد بڑھا تھا کہ کینسر کے لئے ایک عام حل مل جائے گا جو تمام اقسام کے کینسرز پر کام کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویت نام کی جنگ شروع ہوئی۔ جنگ کے مخالف نوجوانوں کا کینسر انسٹیٹیوٹ میں تانتا بندھ گیا۔ فیڈرل ریسرچ پروگرام میں کام کرنے والے جنگی فرائض سے مستثنٰی تھے۔ ویت نام کی جنگ کے بجائے یہ نوجوان کینسر کی جنگ کا رخ کرنے لگے۔ نئے ٹرائل، نئے کمبی نیشن، نئی ادویات نے رفتار پکڑ لی۔
“ایسا کوئی کینسر نہیں جو قابلِ علاج نہ ہو۔ صرف کمبی نیشن تلاش کرنے ہیں”۔ یہ 1979 کی کانفرنس میں میڈیا کو بتایا گیا۔
تحقیق کے لئے ملنے والی بھاری فنڈنگ اس سب میں مدد کر رہی تھی۔ ہسپتالوں میں ٹرائل چل رہے تھے۔ 1979 میں بیس کینسر سنٹر تھے جہاں کے بڑے وارڈز مریضوں سے بھرے تھے۔ سرجن، کیموتھراپسٹ، پیتھولوجسٹ، سائیکیٹرسٹ، ریڈیولوجسٹ، سوشل ورکر اور دوسرا سٹاف کام کر رہا تھا۔ ہسپتالوں کی ریویو بورڈ تجربات کی منظوری دیتے تھے اور محققین اداراتی سرخ فیتے کی فکر کئے بغیر آگے بڑھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی ٹرائل میں یہ دیکھا جا رہا تھا کہ کہ سسپلاٹن کی مقدار دگنی کرنے سے کیا اثرات ہوتے ہیں۔ (فائدہ نہیں ہوا)۔
ایک ٹرائل بچوں کے دماغ کے کینسر کو ٹھیک کرنے کے لئے ایک روز میں آٹھ ادویات یکے بعد دیگرے دینے کے اثرات پر تھا۔ یہ اچھے نہیں رہے۔ پندرہ فیصد مریضوں کو خون لگانے کی ضرورت پڑتی تھی۔ چھ فیصد کو جان لیوا انفیکشن کا سامنا تھا۔ چودہ فیصد بچوں کے گردوں کو ضرر پہنچا تھا۔ تین کی سماعت چلی گئی تھی۔ ایک کی جان سیپٹک شاک نے لے لی تھی۔ اس ٹرائل میں زیادہ تر کی موت جلد ہو گئی۔ کیموتھراپی نے فائدہ نہیں دیا۔
اور ایسے پیٹرن کئی اقسام کے کینسر میں نظر آ رہے تھے۔ پھیپھڑوں کے میٹاسٹیٹک کینسر میں زندگی میں تین سے چار ماہ کا اضافہ ہو جاتا تھا۔ آنت کے کینسر میں پانچ سے چھ ماہ کا۔ چھاتی کے کینسر میں بارہ ماہ کا۔ کسی کی زندگی میں اضافی سال یقیناً اس کے لئے بیش قیمت ہوتا وقت ہے، لیکن یہ علاج نہیں تھا۔
کیموتھراپی کی جارحانہ توسیع کے بیچ میں 1984 سے 1985 کے درمیان، میڈیکل جرائد میں چھ ہزار آرٹیکل اس موضوع پر شائع ہوئے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس میں کمبی نیشن کیموتھراپی کی مدد سے ایڈوانسڈ ٹھوس ٹیومر کے علاج کی کوئی نئی حکمتِ عملی ہو۔۔
کیموتھراپسٹ نئی سے نئی سٹریٹجی بناتے رہے۔ نئی کمبی نیشن بنائی جاتی رہیں۔ ان پر ٹرائل ہوتے رہے۔
روز کشنر، جو اس وقت قومی کینسر ایڈوائزری بورڈ کے ممبر تھے، نے خبردار کیا کہ ڈاکٹر اور مریض کے درمیان تعلق کم سے کمتر ہو رہا ہے۔ “جب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس سے ہونے والے مضر اثرات قابلِ برداشت ہیں تو ان کا مطمع نظر صرف جان لیوا سائیڈ ایفیکٹ ہیں۔ لیکن اگر آپ اس قدر زور سے قے کریں جو آپ کی آنکھوں میں خون کی رگ کو توڑ دے تو وہ اسے اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس پر توجہ دی جائے۔ اور گنجا ہو جانا تو کسی خاطر میں ہی نہیں آتا۔ مسکراتے ہوئے اونکولوجسٹ کو تو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ اس کا مریض قے کرتا بھی ہے یا نہیں”۔
یہ وہ وقت تھا جب ایڈسن نے اپنی کتاب Wit لکھی جس میں انہوں نے مریض کی تکلیف کے مسکراتے اونکولوجسٹ کے نظروں سے اوجھل ہو جانے کو موضوع بنایا ہے۔ نوجوان اونکولوجسٹ ادویات کی فہرست سٹاف کو گنوا رہا ہے اور دہشت زدہ مریض (جو برطانوی پروفیسر ہے) خاموشی سے سن رہا ہے۔
“ہیگزامیتھوفوسفاسل کے ساتھ وینپلاٹین ڈال دیں۔ ہیکس کو تین سو ملی گرام فی سکوائر میٹر رکھیں۔ ون کو ایک سو پر۔ آج دوسرا سائیکل اور تیسرا دن۔ دونوں سائیکل پوری ڈوز پر”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاتحصیص کیمیکلز کی بمباری میں پہلی بار ایک مختلف طریقہ کار سے ہونے والی کامیابی پروسٹیٹ کینسر پر ہوئی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply