پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے۔۔عمار خان ناصر

بنی نوع انسان (جدید سماجی علوم کی اصطلاح میں ہوموسیپئنز ) کو شعور، ارادہ اور عقل کے حوالے سے خاص امتیازات کے باعث کچھ بنیادی سوالات سے واسطہ ہے۔ انسانی تاریخ انھی سوالات سے نبردآزمائی کی داستان ہے۔ ان میں سے زندگی کی ابتدا وانتہا اور زندگی کی ultimate معنویت کے سوالات ایک سربستہ راز کی حیثیت رکھتے ہیں، کیونکہ انسان کے علم اور عمل کی دونوں صلاحیتیں ان سوالات کے سامنے نارسائی کی کیفیت میں ہیں۔ اس دائرے میں اب تک کی انسانی تاریخ میں انسان اساطیر، مابعد الطبیعی فلسفوں اور مذہبی عقائد پر یا جدید دور میں سائنسی مفروضات وقیاسات پر انحصار کرتا رہا ہے جن میں سے کوئی بھی طریقہ انسان کو حقیقت کا ان معنوں میں براہ راست علم نہیں دیتا جس کا موازنہ حس وتجربہ اور عقل کے دائرے میں انسانی علم سے کیا جا سکے۔ اہل فلسفہ یہ مانتے ہیں کہ ان سوالات کا ایسا کوئی جواب شاید انسان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اسی قسم کی صورت حال موت سے نجات کی خواہش کے باب میں پائی جاتی ہے۔ انسان کا مجموعی شعور موت کے مسئلے کو ایک تقدیری صورت حال کے طور پر قبول کر چکا ہے اور گویا اس سوال کے سامنے بھی سپرانداز ہے۔

تاہم زندگی کے ظہور اور موت کے درمیانی عرصے میں انسان کی بے بسی یا بے چارگی اتنی مطلق نہیں ہے۔ اس عرصے میں انسان کو ایک تو زندگی کی بقا کے سوال سے واسطہ ہے اور دوسرے جانداروں کی طرح اس کے ذرائع انسان کو بھی دستیاب ہیں۔ لیکن انسان کی سعی وجہد کا دائرہ تحفظ حیات تک محدود نہیں، بلکہ شعور اور عمل کی بلند تر سطح کی وجہ سے انسان، اپنی زندگی میں دکھ درد، کلفت ومشقت اور شر کے سوالات سے بھی نبردآزما ہوتا اور ان پر قابو پانے کی بساط بھر کوشش کرتا ہے۔ دکھ درد، تکلیف اور بیماری وغیرہ انسانوں اور دیگر جانداروں میں مشترک ہے، لیکن انسان کے پاس اس میں تخفیف لانے کی صلاحیت دیگر جانداروں سے زیادہ ہے۔ یوں انسان کی تمدنی زندگی کا ایک بڑا محور زندگی کی کلفتوں کو کم سے کم کرنا اور راحتوں کو بڑھاتے چلے جانا ہے۔ اس باب میں انسانی تاریخ ایک مثبت ارتقا سے عبارت ہے اور خاص طور پر جدید سائنسی حاصلات کے پیش نظر انسان بجا طور پر کامیابی کا ایک غیر معمولی احساس اپنے اندر رکھتا ہے۔

انسان کی تمدنی واجتماعی مساعی کا دوسرا اہم محور شر یعنی ظلم، زیادتی، ناانصافی اور جبر واستحصال کا وجود رہا ہے۔ شر کے وجود اور اس کے مدمقابل انسان کی ذمہ داری، دونوں کا احساس انسان میں حاسہ اخلاقی سے پیدا ہوتا ہے جس کا منبع ومصدر انسان کے لیے اسی طرح “غیب” ہے جس طرح وجود، وجود میں زندگی اور زندگی میں شعور کے سوالات ہیں۔ یہاں بھی انسان متھالوجی، مذہبی عقائد یا سائنسی قیاسات پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ تاہم منبع کے سوال سے قطع نظر، حاسہ اخلاقی انسانی سعی وجہد کا انتہائی اہم محرک رہا ہے اور دور جدید میں انسان، سائنس کے حاصلات کے بعد جس چیز کو بجا طور پر انسانی تاریخ کی سب سے اہم achievement سمجھتا ہے، وہ اسی سوال سے متعلق ہے۔

انسانی تاریخ یعنی انسانوں کی اجتماعی سعی وجہد کے drivers میں ایک تیسری چیز طاقت کے حصول اور غلبے کی جبلت ہے جو انسانی عمل کے محرکات میں سب سے بڑھ کر اہم ہے۔ یہ وہ سب سے زیادہ پیچیدہ اور intractable مسئلہ ہے جس سے انسان اپنی تاریخ میں نبردآزما رہا ہے اور اب تک ہے۔ اس سوال کے حوالے سے انسان کے اب تک کے سارے تمدنی حاصلات نہ صرف یہ کہ کوئی بنیادی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے، بلکہ اس مسئلے کی پیچیدگی اور سنگینی کو مزید بڑھاوا دینے کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت اور غلبہ اپنی فطرت میں paradoxical ہے یعنی متضاد آثار ونتائج پیدا کرنے کا امکان اور صلاحیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر ظلم وجبر سے نبردآزما ہونے کے لیے مزاحمت اور غلبے کا داعیہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے، لیکن خود ظلم اور جبر بھی اسی جبلت اور داعیے کی پیداوار ہے۔ اسی طرح دکھ درد اور تکلیف اصلا انسان کی پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ ایک فطری مظہر ہے۔ اس سے نبردآزمائی کا داعیہ بھی مزاحمت اور غلبے کی جبلت سے پیدا ہوتا ہے، لیکن یہی جبلت انسان کے لیے دکھ اور تکلیف پیدا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے اور انسانی تاریخ میں یہ دونوں مظاہر عام دیکھے جا سکتے ہیں۔

طاقت کی جبلت کی دوسری بنیادی پیچیدگی یہ ہے کہ اس کا زور اور استعداد انسان کو درپیش فوری اور براہ راست مسائل سے کہیں زیادہ ہے، یعنی انسانی زندگی کو درپیش عملی مسائل میں اور انسان کی حصول طاقت کی خواہش میں ایک شدید قسم کا تفاوت اور عدم تناسب ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان اس جبلت کے تحت اپنی سعی وجہد کو نہ صرف یہ کہ انسانی سماج کو درپیش مسائل تک محدود نہیں رکھ پاتا، بلکہ بسا اوقات ان مسائل پر پوری طرح مرکوز بھی نہیں رکھتا اور ان کی قیمت پر حصول طاقت کی سعی کا رخ ایسے اہداف کی طرف موڑ دیتا ہے جو اس کے فوری اور براہ راست مسائل نہیں ہیں۔

یوں انسانی تاریخ کا ارتقا ہمیں جس موڑ پر لا کر کھڑا کرتا ہے، وہ انتہائی پیچیدہ ہے۔ آج انسان کے پاس جسمانی دکھ اور تکلیف سے نمٹنے اور جبر واستحصال کے سدباب کے وسائل، فکری اور عملی دونوں سطحوں پر، پوری انسانی تاریخ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، لیکن چونکہ یہ وسائل طاقت کی فراہمی سے عبارت ہیں اور طاقت اپنی فطرت میں انسانی مقاصد کے لحاظ سے ایک دو دھاری تلوار ہے، اس لیے اب انسان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس accumulated power سے انسان کے لیے جسمانی ونفسیاتی کرب اور جبر واستحصال کے جو نئے مظاہر پیدا ہو چکے ہیں اور مزید پیدا ہونے جا رہے ہیں، ان کا سامنا کیسے کیا جائے۔

انسان کو درپیش صورت حال (predicament) کی یہ تفہیم اگر درست یا حقیقت سے قریب تر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مابعد الطبیعی حقائق تو انسان کی رسائی سے باہر تھے ہی، حس ومشاہدہ اور عقل وتجربہ کے دائرے میں بھی انسان اپنے مسئلوں سے مستقل نجات کی سردست کوئی امید نہیں رکھ سکتا۔ دکھ، تکلیف اور جبر واستحصال انسانی تقدیر کا لاینفک حصہ ہیں اور ظاہری امکانات کے لحاظ سے ایسے ہی رہیں گے۔ انسان، فطری قوتوں اور خود اپنے بنائے ہوئے نظام ہائے طاقت کے مدمقابل مزاحمت کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر طاقت میں اضافے اور ایک نظام طاقت کے کسی دوسرے نظام طاقت سے استبدال کا two-pronged عمل جاری رکھے گا، الا یہ کہ جن قوانین کے تحت تاریخ کا عمل یہاں تک پہنچا ہے، ان میں کوئی جوہری تبدیلی واقع ہو جائے۔

انسانی شعور اور دانش کے سامنے جو حقیقت سب سے زیادہ نمایاں ہونی چاہیے، وہ انسانی سعی وجہد کی محدودیت اور عارضیت کا یہی پہلو ہے۔ اس ادراک کے انسانی شعور اور نفسیات کے لیے مضمرات کیا ہیں اور زندگی کی معنویت کے سوال کے ساتھ اس کا کیا تعلق بنتا ہے، اس سوال کو سردست موخر کرتے ہوئے یہاں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس ادراک کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی کامیابیوں کے نشے میں زیادہ سرشار ہو کر ’’بہ پایاں رسید کار مغاں’’ کی کیفیت میں مبتلا نہ ہو، بلکہ سفر مسلسل کی آئندہ مشقتوں اور صعوبتوں کے لیے خود کو تیار کرے۔

برٹرینڈ رسل نے فلسفیانہ تفکر کی قدروقیمت اسی نکتے میں مضمر قرار دی ہے۔ رسل کا کہنا ہے کہ فلسفے کی قدروقیمت دراصل اس کے ’’غیر یقینی’’ ہونے میں ہی ہے۔ جو شخص فلسفے سے اعتنا نہیں رکھتا، وہ کامن سینس، اپنے زمانے کی مروج فکر یا اپنی قوم کے تعصبات وغیرہ کے تحت دنیا کو حتمی اور متعین سمجھ لیتا ہے اور جن امکانات سے وہ واقف نہیں ہوتا، ان کے متعلق تحقیر کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ فلسفہ ہمیں ایسی ’’عقیدہ پرستی’’ کا شکار نہیں ہونے دیتا، بلکہ نئے اور مختلف امکانات کو ہمارے سامنے لاتا ہے، چاہے وہ ان میں سے کسی بھی امکان کی حتمیت کو ثابت نہ کر سکے۔

زیرنظر معروضات کے لیے عنوان کے طور پر اقبال کے شعر کا انتخاب ایک تو اس پہلو سے کیا گیا کہ یہ انسانی صورت حال کی عمومی اور موجودہ ہیومن کنڈیشن کی خصوصی عکاسی کرتا ہے۔ چین کی گھڑی جس کی تلاش میں انسانی تاریخ اپنے سفر پر نکلی ہوئی ہے، انسان کے نصیب میں نہیں۔ ہر گھڑی، محشر کی گھڑی ہے اور انسان سے اپنے فکر اور عمل کو مسلسل مہمیز کیے رکھنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ لیکن اس انتخاب میں روئے سخن خاص طور پر ہماری اپنی فکر وبصیرت اور علم ودانش کی طرف بھی ہے اور مقصد اس بات پر دعوت فکر دینا ہے کہ ہمارے ہاں موجودہ انسانی صورت حال کی تفہیم کی نوعیت کیا ہے، وہ کتنی حقیقت واقعہ سے ہم آہنگ ہے اور ہماری ذمہ داریوں کے تعین میں کتنی مددگار ہے۔

اس دوسری وجہ انتخاب کا محرک یہ احساس ہے کہ ہماری تفہیم ناقص اور غیر حقیقت پسندانہ ہے اور اس میں مذہبی یا غیر مذہبی انداز فکر کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ اس تقسیم کے دونوں فریقوں کا ذہنی رویہ ذمہ داری سے نظریں چرانے اور تاریخ کے کسی ایسے تغیر سے امیدیں وابستہ کرنے سے عبارت ہے جس میں ہمیں کوئی کشٹ نہ اٹھانا پڑے۔ مذہبی انداز فکر میں اس پہلو کی قطعا کوئی اہمیت نہیں ہے کہ انسان کو ایک نوع کی حیثیت سے اپنے تاریخی سفر میں جس صورت حال کا اس وقت سامنا ہے، اس میں مذہبی ہدایت سے تعلق اور استفادہ کے امکانات کو تاریخی عمل کی شرائط پر کیسے عملی صورت دی جائے۔ مذہبی فکر میں، ہم مجموعی انسانی صورت حال سے الگ تھلگ ہو کر صرف مذہبی شناختوں کے تحفظ تک محدود ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ اپنے فکر وعمل کو کوئی زحمت دیے بغیر، تاریخ دوبارہ کوئی ایسا موڑ مڑ جائے جس میں ہمارا ماضی کا فکری وتہذیبی ورثہ دوبارہ relevant بن جائے۔

اس کے لیے ہم نے دور جدید میں اس طرح کے خوش کن نظریے ایجاد کرنے پر خاص محنت کی ہے کہ اسلام نے قیامت تک ہر طرح کی صورت حال میں ہر مسئلے کا ایک ابدی اور بے خطا حل تصریحا یا اصولا پہلے دن سے دے دیا ہوا ہے جس کی طرف بدقسمتی سے انسانیت متوجہ نہیں ہو رہی اور ہمارے کرنے کا کام صرف اسلام کے دیے ہوئے حل پر اعتماد کو زندہ رکھنا اور تاریخ کے کسی نئے موڑ کا انتظار کرنا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ انداز فکر اس لیے escapist ہے کہ اسلام ہمیں مسئلوں کے ’’حل’’ نہیں، بلکہ تشکیل انسانیت کے حوالے سے ’’ذمہ داریاں’’ تفویض کرتا ہے۔ ذمہ داریاں، مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ مسائل ’’پیدا’’ کرتی ہیں جن کے حل کے لیے فکر وعمل کو کام میں لانا پڑتا ہے۔ اسلام کو ایک ’’حل’’ کے طور پر متصور کر کے ہم نے اس محنت اور اس ذمہ داری سے مستقل فرار کا ایک بندوبست اپنے لیے کیا ہوا ہے۔

مذہبی اہل فکر کے تقابل میں، اس طبقے کی حالت بھی ذمہ داریوں کے حوالے سے قابل رشک نہیں سمجھی جا سکتی جسے عرفا ہم جدید تعلیم یافتہ طبقہ کہتے ہیں۔ اس میں خاص طور پر روئے سخن اس حلقہ دانش کی طرف ہے جو انسانی صورت حال کو کسی روایتی یا جدید مذہبی فکر کے زیر اثر نہیں دیکھتا، بلکہ معاصر دنیا کے احوال وأفكار سے ایک براہ راست تعارف رکھتا اور اس کے مزاج کو سمجھتا ہے۔ اس حلقے کی تقصیر یہ ہے کہ غالب تہذیب نے مغلوب معاشروں کے سامنے خود کو جس حیثیت سے پیش کیا، اس پر سوالات اٹھانے کے وسائل اور امکانات رکھتے ہوئے بھی اس نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اس سے مسلسل پہلو تہی کی ہے۔

غالب تہذیب کا مطالبہ مغلوب معاشروں سے یہ ہے کہ وہ اس کو اسی طرح تمام انسانی تہذیبوں کا ناسخ اور خاتم مانیں جیسے مسلمان شریعت محمدی کو تمام شرائع کا خاتم اور ناسخ مانتے ہیں، یعنی اس تہذیب کے ظہور کے بعد اب تمام تہذیبوں کے وہ “احکام” جو اس سے متصادم ہیں، منسوخ اور قابل الغاء ہیں اور اس تہذیب نے انسانی معاشرے کے لیے جو قدریں اور جو نظام متعارف کروا دیے ہیں، ان میں مزید کسی بہتری یا ارتقا کی گنجائش نہیں ہے۔ اب مغلوب معاشروں میں جن عالی اذہان نے یہ دعوت ایمان قبول کر لی ہے، ان کی تو بات الگ ہے۔ لیکن وہ حلقے جو اس پر کم سے کم کھٹک ضرور رکھتے رہے ہیں، انھوں نے بھی اس کو پوری طرح جانچ کر علمی بنیادوں پر اس کو چیلنج کرنے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

اس تقصیر کی سنگینی اس پہلو سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے کہ خود غالب تہذیب نے اپنے اندر سے اپنی جو تنقید پیدا کی ہے، ہم نے اس کو بھی کماحقہ توجہ نہیں دی اور نہ اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ غالب تہذیب کے غالب بیانیوں پر ایسی تنقیدات انفرادی اور جزوی قسم کی نہیں ہیں، بلکہ ان کی ایک پوری روایت ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں اس موضوع پر ایک حالیہ مضمون کا آخری پیراگراف یہ ہے۔

“We’ve reached the stage of history where we have scientists and activists agreeing our prevailing system is putting us and our planet on a course of real catastrophe,” Wengrow said. “To find yourself paralyzed, with your horizons closed off by false perspectives on human possibilities, based on a mythological conception of history, is not a great place to be.”

“ہم تاریخ کے اس اسٹیج پر ہیں جہاں سائنس دانوں اور عملی کوشش کرنے والوں کے مابین اتفاق پیدا ہو رہا ہے کہ موجودہ نظام ہمیں اور کرہ ارض کو ایک حقیقی تباہی سے دوچار کر دینے والا ہے۔ یہ کوئی قابل رشک صورت حال نہیں ہے کہ تاریخ کے ایک اساطیری تصور کی بنیاد پر انسانی امکانات سے متعلق ایک بالکل غلط تناظر ہمارے ذہنی آفاق کو مسدود کیے ہوئے ہو اور ہم اس کے سامنے بالکل مفلوج ہوں۔”

ان تنقیدوں کا بعینہ اعادہ کر دینا کوئی مستحسن بات نہیں اور ہمارے اہل فکر کو اپنی بنیادوں پر نئے تنقیدی فریم ورک بنانے کی ضرورت ہے، لیکن کم سے کم ابتدا کی حد تک تو ہمارے پاس اس سے مزید گریز کا کوئی عذر یا جواز نہیں ہونا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہذا ما عندی واللہ اعلم

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply