کینسر (19) ۔ کیمیکل سے علاج/وہاراامباکر

“مصنوعی دنیا اور قدرتی دنیا کے درمیان کوئی سرحد نہیں”۔ برلن کے سائنسدان فریڈرک ووہلر نے لیبارٹری میں یوریا بنا کر اس کو عملی طور پر دکھا دیا۔ اس نے میٹافزکس میں طوفان برپا کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ معصوم سا لگنے والا تجربہ تھا لیکن اس کے بہت اہم مضمرات تھے۔ امونیم سائینیٹ کے سادہ سے نمک کو ابال کر بنایا جانے والا یہ کیمیکل گردے بناتے ہیں۔ یہ “قدرتی” کیمیکل ایک غیرنامیاتی نمک سے بن گیا تھا۔ اس نے زندہ اجسام کا صدیوں پرانے تصور کو منہدم کر دیا۔
صدیوں سے یہ تصور کیا جاتا تھا کہ زندہ اجسام میں کچھ ایسی پرسرار خاصیت ہے جس کو لیبارٹری میں نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ وائٹل ازم کی تھیوری تھی۔ ووہلر کے تجربے میں اس کو ختم کر دیا تھا۔
بائیولوجی اپنی اساس میں کیمسٹری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائٹل ازم کا ختم ہو جانا میڈیکل سائنس کے لئے خوش خبری تھی۔ اگر زندگی کے کیمیکل لیبارٹری میں تیار کئے جا سکتے ہیں تو یہ زندہ اجسام پر کام بھی کر سکتے ہیں؟ کیا فلاسک میں بنا ہوا مالیکیول زندہ جسم کے اندرونی نظام پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟
ووہلر نے اس کی کوشش کی لیکن ان کے بنائے ہوئے کیمیکل بہت سادہ تھے۔ زندہ خلیات میں کام کرنے کے لئے پیچیدہ کیمیکل درکار تھے۔ اور فرینکفرٹ میں رنگ بنانے والی فیکٹریوں میں یہ پائے جاتے تھے۔ ووہلر کو صرف لیبارٹری سے نکل کر فیکٹری تک جانا تھا۔ لیکن یہ آخری کنکنشن نہ ہی وولر بنا سکے اور نہ ہی ان کے طلبا۔ جرمنی کے ٹیکسٹائل کیمیا دانوں کے بنائے کیمیکل شیلفوں میں پڑے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ووہلر کے تجربے کے بعد پچاس سال لگے جب پہلی بار ڈائی کی صنعت کی مصنوعات کا خلیوں کے ساتھ تعلق بنا۔ 1878 میں یہ کرنے والے چوبیس سالہ پال ایہلرچ تھے جو میڈیکل سٹوڈنٹ تھے۔ وہ ٹشو کو رنگنا چاہتے تھے تا کہ مائیکروسکوپی آسان ہو سکے۔ لیکن ان کے لئے حیرت کا سبب تھا کہ ڈائی خلیے کے منتخب حصے کو رنگتی تھی۔ اس سے خلیے کے کچھ سٹرکچر نمایاں ہو جاتے تھے اور کچھ کو فرق نہیں پڑتا تھا۔ ڈائی خلیے کے اندر کیمیکل میں تمیز کر سکتی تھی۔
مالیکیولز کی یہ مخصوصیت ایہلرچ کے لئے دلچسپی تھی۔ 1882 میں رابرٹ کوک کے ساتھ کام کرتے ہوئے انہوں نے تپدق کے بیکٹیریا پر اسے دیکھا اور اس سے کچھ سال بعد انہیں کچھ زہریلے کیمیکل ملے جن کو جانوروں میں انجیکٹ کیا جائے تو وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اینٹی زہر پیدا کرتے تھے جو بہت غیرمعمولی specificity کے ساتھ زہر سے چپک کر اس کو غیرموثر بنا دیتا تھا۔ (اس اینٹی زہر کی شناخت بعد میں اینٹی باڈیز کے طور پر ہوئی)۔
ایہلرچ بائیلوجیکل دنیا کو جتنا زیادہ کھوج رہے تھے، ان کا ایک آئیڈیا مضبوط ہو رہا تھا۔ بائیولوجیکل کائنات ایسے مالیکیول سے بھری پڑی ہے جو اپنے ساتھی کے ساتھ ہوشیاری سے چپک جاتے ہیں جیسا کہ تالا اور چابی۔ رنگ کے کیمیکل جو خلیے کے خاص حصے پر چپکتے ہیں۔ ٹاکسن جو صرف اینٹی ٹاکسن سے چپکتے ہیں۔ کیمیکل جو صرف ایک قسم کے جراثیم کو پکڑ لیتے ہیں اور باقی کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر بائیولوجی کیمیکلز کی اس طرز کی گیم ہے تو پھر کیا ایسے کیمیکل مل سکتے ہیں جو بیکٹیریا کو جاندار سے الگ کر لیں؟ بیکٹیریا کو مار دیں لیکن اس کے میزبان کو کچھ نہ کہیں؟
یہ آئیڈیا انہوں نے برلن سے فرینکفرٹ جاتے ہوئے ٹرین میں اپنے دو ساتھی سائنسدانوں کے آگے پیش کیا۔ اور یہ میڈیسن کا ایک اہم ترین آئیڈیا تھا۔ خاص کیمیکلز کی مدد سے بیمار جسم کا علاج کرنے کا یہ خیال کیموتھراپی ہے۔ آدھی رات کو اس ٹرین پر اس کے تصور کی پیدائش ہوئی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply