پاکستان میں بڑھتی مذہبی انتہا پسندی، عدم برداشت اور مذہب کے نام پر متبادل غیر مذہبی رائے کو دبانے کا ذکر کیاجائے تو ہمارے دانشوروں کا ایک دستہ آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ جناب مذہب کے نام پر انتہاپسندی صرف پاکستان ہی میں نہیں ہے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے بلکہ ہم سے کچھ زیادہ ہی وہاں کے ہندو انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ انھیں جب یہ کہا جاتا ہے کہ بلاشبہ بھارت میں بھی ہندو انتہا پسندی موجود ہے اور بی جے پی کے برسراقتدار آنے کی بدولت اس انتہا پسندی، عدم برداشت اور عدم رواداری میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس سب کے باوجود وہاں متبادل غیر مذہبی سیکولر بیانیہ بھی موجود ہے اور اس کااظہار برسرعام ہوتا ہے اور یہ بیانیہ دانشوروں،ماہرین تعلیم سیاست دانوں اور سماجی کارکنوں کی سرگرمیوں، تحریروں اور تقریروں میں منعکس بھی ہوتا ہے جب کہ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہاں غیرمذہبی بیانیہ انتہائی کم زورہے اور اسے ہمہ وقت مذہبی عناصر کی طرف سے شدید مزاحمت جو بعض اوقات تشدد کا رنگ اخیتار کرلیتی ہے، کا سامنا رہتا ہے۔ مذہبی عناصر جب چاہیں سر تن سے جدا کا نعرہ لگا کر اپنی مخالف آواز کو چپ کرادیتے ہیں۔
بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور سماجی برداشت کے حوالے سے دو خبریں پاکستان کے اخبارات میں شائع ہوئی ہیں ،دونوں خبریں پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف اگر مذہبی انتہا پسندی نے پاؤں پھیلا کر سماج پر قبضہ جمانے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف سماجی برداشت اور رواداری بھی اپنا اظہار زور دار طریقے سے کررہی ہے۔
ایک خبر تو یہ ہے کہ بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے مکھ منتری( وزیر اعلیٰ ) شیوراج سنگھ نے کہا ہے کہ گائے اس کے گوبر اور پیشاب سے ملک کی معیشت بہتر ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اتر پردیش کے ایک وزیر بیمار گائے کے لئے ملک کی پہلی ایمرجنسی سروس کے اجرا کا اعلان کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق گذشتہ دنوں بھارت کے ایک گاؤں میں گوبر میلہ منعقد کیا گیا۔لوگ سمجھتے ہیں کہ گوبر سے ان کی صحت بہتر ہوتی ہےاور بھارت کے دوردراز کے شہروں کے لوگ ہرسال اس میلے میں شرکت کرتے ہیں( روزنامہ 92 ) دوسری خبرایسی ہے جس سے اس کے بالکل الٹ اور متضاد سماجی رائے کا اظہار ہوتاہے۔ اس خبر کے مطابق انڈین سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک GaY وکیل سورابھ کرپال ایڈووکیٹ کو جج مقررکیا ہے۔ سورابھ کرپال کا پارٹنر ایک غیر ملکی ہے جو پہلے سویٹرز لینڈ کے سفارت خانہ میں کام کرتا تھا اور اب ایک غیر سرکاری تنظیم میں ملازمت کررہا ہے۔کرپال اعلانیہ اپنے اس تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرپال کا نام دہلی ہائی کورٹ کی خاتون چیف جسٹس گیتا متل تجویز کیا تھا۔
سورابھ کرپال کا نام پہلی دفعہ 2017 میں بطور جج دہلی ہائی کورٹ تجویز کیا گیا تھا بھارت سرکار کی ان کی نامزدگی کی مخالف تھی لیکن اپنی یہ مخالفت اس نے اس کے جنسی رحجان کی بجائے یہ کہہ کر کی تھی کہ ان کا پارٹنر ایک غیر ملکی شخص ہے اور اس کی وجہ ملکی مفاد کو نقصان پہنچنے کااحتمال ہوسکتا ہے۔ انڈین سپریم کورٹ کی کمیٹی جو اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا فیصلہ کرتی ہے بھارت سرکار کو ایک سے زائد مرتبہ مواقع فراہم کیے کہ وہ کرپال کی نامزدگی کی مخالفت کے حق میں کوئی ایسا ثبوت،شہادت اور دلیل دے جو قابل اعتماد ہے محض مفروضوں پر ان کی نام زدگی کو مسترد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حکومت سپریم کورٹ کی کمیٹی کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی اور سپریم کورٹ نے ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
بھارت میں ہندو انتہاپسندی مضبوط ضرور ہوئی ہے لیکن متبادل سیاسی سماجی اور ثقافتی بیانیہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اپنا ڈٹ کر اظہار بھی کرتا ہے اور خود کو منواتا بھی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں