اقتدار نوجوان نسل کے حوالے کرو۔۔۔۔۔محمد خان چوہدری

اس سے پہلے کہ ہم یہ مقالہ شروع کریں ایک ذاتی وضاحت ضروری ہے کہ ہم خود ان بڈھوں میں شامل ہو سکتے ہیں جو زمام اقتدار چھوڑنے پہ  تیار نہیں !

سن 2010 ، جب ہم ساٹھ سال کی عمر کو پہنچے، حج عمرے کر چکے تو عملی فعال وکالت سے ریٹائرمنٹ کا سوچنا شروع کیا، قسط وار دفتری ذمہ داری ایک بیٹے کو جو سی اے کر رہا تھا سونپنے کا عمل شروع کیا، چھوٹا بیٹا بھی بار ایٹ لا کر آیا تو اسے بھی ہاتھ سیدھا کرنے کو پریکٹس شروع کرائی ، دونوں کی صلاحیت پر اعتماد تو تھا لیکن روائتی بزرگ پن سارا نظام ان کے سپرد کرنے میں حائل تھا۔
یہ زعم کہ تجربے کا نعم البدل نہیں  اور خوف کہ ناتجربہ کاری سے وہ ہماری کمائی  ہوئی  شہرت خراب نہ کر بیٹھیں ان پہ  اعتماد میں رکاوٹ تھے۔۔
بہر حال آئی  ٹی کو استعمال کرنے کی مہارت سیکھنے میں جب ہماری زائد عمری آڑے آئی  اور بچوں نے دفتر کے سارے امور، ریکارڈز اور سسٹم جب کمپیوٹرائزڈ کر لئے اور معمولات پہ انکی گرفت ہم سے بہت بہتر ہو گئی تو ہماری سوچ بھی بدل گئی،اگرچہ اس پراسس میں پانچ سال مزید گزر گئے اور  اکتوبر 2015 میں ہم نے اپنی پینسٹھ ویں سالگرہ والے دن اپنے آپ کو مکمل ریٹائر کر دیا
بچوں کو مکمل وسائل ، اختیار، اور اعتبار سونپ کے ہم ٹیکس کی وکالت سے علیحدہ ہو گئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ نئے اور جوان خون نے فرم کا کاروبار ہم سے بہت بہتر انداز  میں نہ صرف سنبھالا بلکہ اس میں وسعت اور ترقی دی۔

مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ قدرت کے قاعدے اور قانون ، اور ضعیفی جو عمر سے آتی ہے۔۔۔۔۔اس کے مطابق نئی نسل کو موقع  دینا لازمی ہے۔
“ اقتدار نوجوان نسل کے حوالے “۔۔۔۔
نفس مضمون پہ  جانے سے پہلے ایک اور پہلو اُجاگر کرنا بھی ضروری ہے۔
گریڈ بائیس کا ایک افسر اگر اپنی مقررہ مدت ملازمت میں توسیع لئے بغیر بروقت ریٹائر  ہوتا ہے تو درجہ بدرجہ گریڈ سترہ تک چھ افسر اگلے گریڈ میں ترقی پا جاتے ہیں۔
اگر وہ توسیع لے تو یہ چھ بندے پروموشن نہیں  پا سکتے۔۔۔۔

فوج میں ایک لیفٹیننٹ  جنرل کے ریٹائر ہوتے ہی نیچے کے رینکس سیکنڈ لفٹیننٹ  تک نو افسران کی ترقی ہو جاتی ہے۔
ہم نے تیس سال ایک کل وقتی جونیئر وکیل ایک جُزوقتی منشی اور ایک جُزوقتی اکاؤنٹنٹ  سے کام چلایا، بچوں کو آفس دیا تو اس وقت تک صرف اڑھائی  سال میں بیس بائیس  نوجوانوں کو نوکری مل گئی،
اگر ہم آفس میں ان کے سر پہ  سوار رہتے تو ہم اتنے افراد کبھی بھرتی نہ ہونے دیتے۔

دوسرا پہلو ریٹائرڈ بڈھے افسران کی سرکاری خود مختار اور نیم خود مختار اداروں اور دیگر پوسٹس پر دوبارہ تعیناتی ہے جو جوان افسران کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
ساٹھ سالہ بوڑھا الیکشن کمیشن جیسے ادارے کے محنت طلب کام کو کیسے بخوبی طور پہ   کر سکتا ہے۔یہ مراعات کو جاری رکھنے کے اور کوئی  مقصد نہیں  رکھتے اسی لئے ان سب اداروں کی کارکردگی کبھی بہتر نہیں  ہوتی۔

انسان کی طبعی عمر اور معمول کی مصروفیات، بیماری، اور دیگر کمزوریاں فطری تقاضے ہیں۔جوان امنگ  انرجی اور محنت کرنے کی لگن سے بھرپور ہوتے ہیں۔
ان کی جگہ عمر رسیدہ بزرگ کیسے پرفارم کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔؟یہ نوجوانوں کے ساتھ زیادتی اور حق تلفی کے مترادف ہے۔
جو بندہ دن میں درجن بھر گولیاں کھاتا ہو وہ فرائض منصبی کیسے ادا کر سکتا ہے؟۔۔
یہ باتیں ہمارے حکمران نہیں  سوچ سکتے۔ اب نوجوانوں کو خود ہر فورم پہ  یہ آواز اٹھانی ہو گی۔۔۔
“جوانوں کو روزگار دو، اختیار دو، اقتدار دو۔
سن رسیدہ سٹھیائے ہوئے  بڈھوں کو گھر بٹھاؤ
ان سے جان چڑھاؤ۔ ملک بناؤ”

کسی ملک میں وسائل پیدوار کے بنیادی عوامل زمین اور سرمایہ کے علاوہ  لیبر، تنظیم اور اب ایڈورٹائزنگ کے تین عوامل دراصل ہیومن ریسورسز ہیں،ہماری آبادی اگر بیس کروڑ ہے تو اس میں بیس سے پینتیس سال کے نوجوانوں کا  تناسب ساٹھ فیصد ہے، اس میں پینتیس سے پینتالیس سال کے جوان شامل کر لیں، تو یہ ستر فیصد ہو گا، مطلب  14 کروڑ فعال جوان !
ہیومن ریسورس کی اتنی بڑی تعداد تو ملک کا بہت بڑا اور معیشت کے لئے بیش قیمت  اثاثہ ہونا چاہیے  تھی،لیکن ہماری معاشی صورت حال میں اسے ہم ایک بوجھ بنا بیٹھے ہیں۔ایک کروڑ سے زائد تارکین وطن ہو چکے، جن میں بہترین ہنر مند اکثریت میں ہیں،ان کی ارسال کردہ فارن کرنسی پہ  ملک چل رہا ہے،جو یہاں موجود ہیں انکے لئے کاروبار اور روزگار کے مواقع محدود تر ہیں،یہ بہت بڑا قومی المیہ ہے جس کے  ذمہ دار اس وقت ملکی معاملات کے چلانے والی   وہ  اقلیت ہے جو قیام پاکستان اورشروع کے عشرے میں پیدا ہوئی  اور اب ساٹھ سے ستر سال کی عمر میں ہے۔!
ان کا قصور یہ نہیں  کہ یہ لوگ تقسیم کے وقت ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی  اور اس دوران ہوئی  ہولناک لوٹ مار اور قتل غارت سے پھیلی بدامنی کے ماحول میں پیدا ہوئے تھے، عدم تحفظ انکی گھُٹی میں تھا۔۔۔۔۔
قصور یہ ہے کہ یہ لوگ اس خوف اور عدم اعتماد کے اثر سے آج تک نہیں  نکل پائے۔۔۔۔اس کی وجہ سے جائز ناجائز طریقے سے مال دولت جمع کرنے میں مستقبل کی حفاظت  کی پناہ بنانا انکی مجبوری تھی لیکن اسے آنے والی نسل کے لئے بھی وطیرہ بنانا ہے۔انکی زندگی میں نئی نسل پر بھروسہ کرنا اور انہیں وسائل و اختیار دینا ممکن ہی نہیں  تھا۔ہر شعبہ زندگی، ملازمت ہو بزنس ہو یا صنعت و حرفت ، چھوٹی دکان ہو یا فیکٹری،یہ اسے خوف اور لالچ سے چلاتے ہیں،جس کو کسی شعبے میں پوزیشن ملی وہ اسے چھوڑنے کو تیار نہیں  ہے۔

سیاست دانوں کی مثال لیتے ہیں، کوئی  لیڈر موت سے پہلے پارٹی پوزیشن نہیں  چھوڑتا۔۔۔
ذرا سوچیے۔۔
جتنے لیڈر پاکستان کی اوسط طبعی عمر جو اٹھاون  ساٹھ سال ہے اس پہ  یا اس سے زائد عمر کے ہیں اگر قیادت چھوڑ دیں تو کیا نئے جوان لوگ ان سے بہتر پرفارم نہیں  کریں  گے؟
آج اگر نواز شریف، آصف زرداری، عمران،فضل الرحمن ،سراج الحق، محمود اچکزئی،اسفندیار، اور دیگر سبکدوش ہو جائیں تو کیا ملکی سیاست بہتر اور شفاف نہیں  ہو جائے گی؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام سرکاری ،نیم سرکاری ریاستی عہدوں ،بشمول صدر، گورنرز، مشیر وزیر ممبران سینٹ و قومی ،صوبائی  اسمبلیاں، چیف جسٹس،الیکشن کمیشن و دیگر سب کے لئے زیادہ سے زیادہ عمر کی حد مدت عہدہ کے خاتمے تک  ساٹھ سال مقرر کی جائے۔۔۔ہم جیسے سب زائد المعیاد بزرگوں کو اب گھر بھیج دیں۔۔۔جوان اور نئی امیدوں والی نسل کو آنے دیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply