لسان العصر ،خان بہادر اکبر الہ آبادی اپنے عہد کے ان چند نامور شاعروں میں سے تھے جن کی تخلیقات کو خاص و عام میں پسند کیا گیا ۔لسان العصر کا خطاب انہیں سر عبدالقادر نے اپنے مجلہ “مخزن ” میں عطا کیا تھا جبکہ خان بہادر کا خطاب سرکار انگلشیہ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں دیا تھا ۔حسن عسکری نے انہیں اردو کا جدید ترین شاعرکہا تو شمس الرحمن فاروقی انہیں ایک ایسے شاعر کے طور پر یاد کرتے ہیں جس نے نوآبادیات کی حقیقت کو بہت پہلے سمجھ لیا تھا ۔اکبر الہ ابادی کی مجلسی، ادبی ،ثقافتی اور معاشرتی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں جن پر بیش بہا کام کیا گیا ہے۔مشاعرہ نمبر کے حوالے سے کوشش کی گئی ہے کہ ان واقعات اور قصوں کو اس مضمون میں یکجا کیا جائے جس میں اکبر بالواسطہ یا بلا واسطہ شامل رہے اور اکبر نے اپنی شاعری کے ذریعے بیان کیا یا لوگوں نے ان کی سوانح عمری میں یہ واقعات درج کئے۔اکبر اپنی طرز کی شاعری کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی ۔اکبر نے نہ اپنا کوئی شاگرد چھوڑا نہ کوئی خلیفہ ۔اکبر کی شاعری کو بذلہ سنجی یا “وٹ” (Wit) کی شاعری کہا گیا ہے ۔ انہوں نے تخیل و معنی آفرینی سے ذیادہ ایہام اور لفظی الٹ پھیر سے مزاح پیدا کیا ۔رعایت لفظی کے ماہر ،پیروڈی کے فن کے اولین علمبرداروں میں سے تھے ۔اکبر کا دور شاعری برصغیر میں مغربی اخلاق اور معاشرت کے عروج کا دور تھا ۔انگریزی تہذیب،تعلیم کا غلبہ کاروبار،معاشرت ہر جگہ نظر آرہا تھا ۔ علم و فضل کے بنیادی تصورات تبدیل ہوکر اب انگریزی قرار پایا تھا ۔
اکبر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سید تفضل حسین اور چچا سید وارث حسین کی زیر نگرانی مکمل کی۔انگریزی کی تعلیم انہوں نے پرائیویٹ طور پر لی۔چچا تحصیل دار تھے اور ان کی زیرک نگاہ نے اکبر کے جوہر کو بچپن میں ہی پہچان لیا تھا ۔اکبر موزوں طبع تھے ،گھر کا ماحول علمی و ادبی تھا ،عربی ،فارسی،حساب میں طاق تھے ۔ مولوی امیر اللہ وکیل کے فرزند وحید الدین وحید کی شاگردی اختیار کی ۔پندرہ سال کےشاگرد کو پچیس سالہ وارفتہ مزاج اور شوریدہ سر استاد مل گیا ۔وحید الدین وحید نے اصلاح بشیر سے لی تھی جو خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے۔وحید الدین وحید حسن پرست تھے مگر معصیت سے کوسوں دور۔ اس زمانے کے شرفا کے رواج کے مطابق کوٹھے پر آنا جانا معمول کی بات تھی۔ طوائفوں کو ملازمت میں رکھا جاتا تھا ۔وحید اپنے وقت کی مشہور طوائفوں امامن، نصیبن اور ببن کے رسیا تھے۔اکبر بھی ان کی معیت میں کوٹھے پر آنے جانے لگے ۔ ایک دن اکبر وحید کے ساتھ ببن کے کوٹھے پر پہنچے تو وہ خربوزہ کاٹ رہی تھی ۔اسی وقت یہ شعر موزوں کرکے اس سے داد وصول کی۔
مصروف ہیں جو آپ بنانے میں قاش کے
رکھ لیجئے دل بھی ہمارا تراش کے
اکبر کے دور شباب میں الہ آباد مشاعروں کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا ۔ہر ایک استاد کے درجنوں شاگرد تھے ۔ایک طرف ناسخ تھے تو دوسری طرف قلق۔ منشی میر درد کے شاگرد اپنے استاد کی تعریفوں کے پل باندھتے تو وحید الدین وحید اپنے تلامیذ کی نگاہوں میں ارفع تھے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا اتحادی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف ہی مورچہ زن اور صف آراء ہیں ۔حکیم فضل حسین فروغ ( قلق کے بھانجے) کا اچھا دور دورہ تھا ۔ شاگردوں کی پوری بٹالین لے کر مشاعروں میں جایا کرتے تھے ۔داد و تحسین کے پردے میں طنز و قدح اور ہوٹنگ سے مشاعرہ درہم برہم کردیا کرتے تھے ۔اکبر اپنے استاد کے ساتھ شان و شوکت سے شریک ہوتے ۔ سر پر سپاہیانہ صافہ، بدن پر آب رواں کی گہری قمیص اور ہلکے پھلکے کپڑے کی پرانی وضع کی اچکن۔ فروغ معاصرانہ ادبی چشمک میں اکبر کو یوں داد دیتے گویا اکبر خود کا نہیں استاد کا لکھا پڑھ رہے ہیں ۔فروغ کی اس دیدہ دلیری سے ایک اور صاحب نیر نے شہہ پائی ۔نیر ذات کے کنجڑے تھے ۔بات بڑھی اور نوک جھوک میں ایک دن طے پایا کہ فی البدیہہ مشاعرہ منعقد کیا جائے تاکہ پتہ چلے کون کتنے پانی میں ہے ۔مشاعرہ منعقد ہوا ،طرح یہ تھی ” کم نہیں ہوتا ، برہم نہیں ہوتا “.دو گھنٹے کا وقت دیا گیا ۔ اکبر نے وقت مقررہ سے قبل ہی غزل مکمل کرلی ۔جب غزل پڑھی تو ہر طرف سناٹا چھا گیا ۔ مطلع ہی اتنا جاندار تھا کہ انہوں نے فروغ اور نیر دونوں کو اس میں لپیٹ دیا ۔
فروغ کم بضاعت رونق عالم نہیں ہوتا
مہ نو بدر ہوکر نیر اعظم نہیں ہوتا
دن پر دن گذرتے گئے، استاد شاگرد اب دوست زیادہ لگتے تھے، سفر میں حضر میں ساتھ ساتھ۔وحید الدین وحید کے ساتھ ایک بار اکبر کو دریاباد مشاعرے کے لئے جانا پڑا ۔ناسخ ، قلق اور منشی میر درد جیسے اساتذہ بھی شریک تھے ۔طرح کچھ یوں تھی ” توسن میں “, “گلشن میں”, “آہن میں”.مشاعرہ شروع ہوا ترتیب سے شمع ایک کہنہ مشق بزرگ کے سامنے آئی ،دو چار اشعار پڑھنے کے بعد انہوں نے یہ شعر پڑھا
میں راضی قتل پر ہوں گر وہ مجھ کو اس طرح باندھیں
کہ رسی ہاتھ میں ان کے ہو پھندا میری گردن میں
جب داد و ستائش ختم ہوئی تو اکبر گویا ہوئے ،”قبلہ وہ والا دوسرا شعر بھی پڑھ دیں ”
بڑے میاں سمجھے بچہ چھیڑ خانیاں کر رہا ہے ،بولے ” کون سا دوسرا ؟ مجھے یاد نہیں ”
اکبر بولے:”آپ کی اجازت سے پڑھے دیتا ہوں ”
مکان اغیار سے خالی ہو مجمع دوستوں کا ہو
کمر سے باندھ کر دامن نچا دیں اپنے آنگن میں
اکبر کی اس برجستہ شرارت پر مشاعرہ کشت زعفران بن گیا ۔
وحید جب تک زندہ رہے ،مقامی مشاعروں کا لازمی حصہ بنے رہے ۔ اس دور میں شعر گوئی سے شعرفہم احباب کا ایک وسیع حلقہ تھا جس میں داد دینے والے بھی باذوق تھے ۔ الہ آباد میں چار مکانات شعر و سخن کے بڑے مراکز تھے ۔ ان میں سے سید عابد علی صاحب کا مکان تو ایک مستقل علمی کلب کا درجہ پاچکا تھا ۔دوسرے احباب میں شاہ امین الدین قیصر اور مولوی عزیز الدین اخگر کی آپس میں رقیبانہ چشمک چلتی رہتی تھی ۔اکبر اخگر کے طرف دار تھے اور نوآموزگان کی آڑ لے کر طنز و تشنیع کے تیر چلایا کرتے تھے ۔ ایک روز سید عابد علی کے مکان پر مشاعرہ ہوا ،طرح مصرع تھا،
چھت جو گرتی ہے تو شہتیر الٹ جاتا ہے
اکبر نے اخگر کی خاطر ایک غزل لکھ کر ہوٹل کے ملازم کموا نائی کو تھما دی۔ایک شعر میں شاہ امین الدین قیصر پر چوٹ تھی۔
شب کو تنہائی میں پڑھتا ہے نماز معکوس
صبح ہوتی ہے تو ایک پیر الٹ جاتا ہے
قیصر یہ سن کر سوخت ہوگئے،پارہ غصے کی آخری حدوں کو چھونے لگا ۔اسی وقت دو سوقیانہ،ہجویہ اشعار لکھ کر اپنے شاگرد احمد شاہ کو پڑھنے کے لئے دے دیے۔اس نے اخگر اور کموا نائی کو مخاطب کرکے پڑھ دیے۔
جب مسالا نہیں پاتا ہے تو کموا نائی
دیگ میں ڈال کر کفگیر الٹ جاتا ہے
اے شرابی تیری غیرت پہ ہزاروں افسوس
غیر آکر تیری ہم ۔۔۔ الٹ جاتا ہے
اخگر سنتے ہی آگ بگولا ہو گئے۔آستینیں چڑھا کر بڑھے ،اب کیا تھا ہشت مشت شروع ہوگئی ،بزم مشاعرہ جائے مجادلہ بن گئی ۔ یہ ہنگامہ دیکھ اکبر نے گھر کی راہ لی اورآئندہ شاہ صاحب کو چھیڑنے سے کان پکڑ لئے ۔
وحید الدین وحید ایک ناگہانی حادثہ کی نذر ہوکر عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔ ان کی وفات کے بعد اکبر نے روایتی تغزل اور مضامین کی بجائے قومیت اور معاشرے میں ظہور پذیر تبدیلیوں کے اثرات پر فوکس کرنا شروع کردیا ۔ انہوں نے نئے الفاظ اور اصطلاحات سے مزاح کے انداز میں اشعار لکھنا شروع کئے ۔ساتھ ساتھ ان کی سرکاری ملازمت بھی درجہ بدرجہ بہتری کی طرف گامزن تھی ۔ شاعری کا مخصوص انداز عوام میں مقبول ہوتا جارہا تھا ۔وہیں کچھ حاسدین اور ناقدین نے انگریز افسروں کے کان بھرنا شروع کردیے کہ اکبر کا ذیادہ تر وقت شعر و شاعری میں گذرتا ہے کام وام کچھ نہیں کرتے اس کے علاوہ مغربی تہذیب پر بھی چوٹ کرجاتے ہیں ۔ ان پر باضابطہ طور پر تو اعتراض نہیں کیا جا سکتا تھا مگر غیر رسمی طور پر اکبر سے کہا گیا کہ شاعری چھوڑ دیں ۔اکبر نے اس پر لکھا
حکم اکبر کو ہوا ہے کہ کرو ترک سخن
خواجہ حافظ بھی نکالے گئے میخانے سے
ایسی وارننگ کا ان پر خاک اثر ہونا تھا ،صاف کہہ دیا
گزر چکا ہے مرا کام ضبط سے اکبر
میں راز عشق اب اپنا چھپا نہیں سکتا
ہندوستان کے مشاعرے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سخن فہمی اور سخن سنجی سے آگے نکل چکے تھے ۔سخن شناسی کی جگہ ترنم نوازی کا بول بالا ہورہا تھا ۔ایک بار آل انڈیا مشاعرے کے لئے اکبر کو مدعو کرنے کے لئے کچھ شعرا ؑ کرام تشریف لائے ۔اکبر نے ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں ٹلے کہ آج تو وعدہ لے کر ہی جائیں گے ۔ اکبر نے جب یہ دیکھا تو ہنس کر بولے
تم سے استادوں میں میری شاعری بیکار ہے
ساتھ سارنگی کا بلبل کے لئے دشوار ہے
اکبر سارے ہندوستان میں بطور شاعر مشہور ہوچکے تھے ،بہت سارے لوگوں نے ان کو اپنا شاگرد مشہور کردیا ۔ایک صاحب ذیادہ کایاں نکلے انہوں نے اکبر کے استاد ہونے کا دعویٰ کر ڈالا ۔اکبر کو جب یہ اطلاع پہنچی کہ حیدر آباد میں ان کے استاد کا ظہور ہوا ہے تو ان کی رگ ظرافت پھڑکی،فرمایا :” مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی الہ آباد میں تھے،وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں ان کو عقل مگر دونوں ناکام رہے ،نہ مولوی صاحب کو عقل آئی نہ مجھ کو علم۔” ہندوستان کے ہر کونے سے لوگ اپنا کلام برائے اصلاح انہیں بھیجتے تھے ۔ایک صاحب نے تو غضب ہی کردیا ۔ایک ساتھ بہت سی غزلیں برائے اصلاح بھیج دیں ۔مزخرفات کا یہ پلندہ دیکھ کر اکبر چیں بجبیں ہوگئے۔”ان لوگوں نے کیا مجھے بیکار سمجھ رکھا ہے ؟ اصلاح کرنا ایک مستقل فن ہے ،جس میں کافی دماغ سوزی کرنا پڑتی ہے،وہ بھی بے سود ،کچھ معاوضہ بھی نہیں “.
اب تو نقدی سے مرا دل خوش کریں
سن چکا ہوں آفریں بھی، مرحبا بھی،داد بھی
پھر بولے،” اگر غزلوں کے ساتھ دس روپے کا نوٹ بھی بھیجتے تو کوئی بات بھی تھی “.
عمر عزیز کے آخری سالوں میں اکبر مشاعروں میں شرکت سے حتی الوسع احتراز کی کوشش کیا کرتے تھے، خرابی صحت کی آڑ لے کر وہ اپنا دامن بچا لیا کرتے تھے مگر کبھی کبھار صورتحال یوں بنتی کہ انکار کی گنجائش نہ نکلتی۔ایک بار اکبر لکھنؤ میں قیام پذیر تھے ایک مشاعرے کا دعوت نامہ کے کر ” میر مشاعرہ ” بنفس نفیس تشریف لائے اور شرکت کی درخواست پیش کی ۔میر مشاعرہ تھے تو لکھنوی تہذیب و اخلاق کا نمونہ مگر شکل ایسی غیر شاعرانہ پائی تھی کہ اکبر شش و پنج میں پڑگئے۔خیر وعدے کے مطابق مشاعرے میں پہنچے ۔شمع اکبر کے سامنے آئی ،کئی شعر پڑھے ،ڈھیروں داد سمیٹی ۔جب اس مصرعہ پر پہنچے
قرآن میں آیا ہے خدا حسن سے خوش ہے
اچانک نظر اس حسن مجسم سے ٹکرائی جو میر مشاعرہ کی حیثیت سے گاؤ تکیہ کا سہارا لئے بیٹھا تھا مصرعہ ثانی کچھ ایسا تھا کہ اگر اکبر پڑھ دیتے تو میر مجلس پر ٹھک سے فٹ ہوجاتا ۔اکبر نے فی البدیہہ دوسرا مصرعہ موزوں کرکے پڑھا
کس حسن سے ؟ یہ بھی تو سنو”حسن عمل” سے
1921 میں جب اکبر مرض الموت میں مبتلا ہوچکے تھے ،ان کے دوست میر سجاد حسین نے مشاعرے میں شرکت کا دعوت نامہ بھیجا اور ساتھ رساول کی ایک ہانڈی بھی تھی۔اکبر نے خط کا جواب لکھوایا،” بیماری کی وجہ سے مشاعرے میں شرکت سے معذور ہوں لیکن مشاعرے کے طرح مصرع پر غزل ارسال خدمت ہے مطلع تھا
ہو بیاں کیوں کر عنایت حضرت سجاد کی
لذتیں لوں گا میں آروغ “رساول زاد” کی
یہ مضمون اسی سال موءقر ادبی جریدے” اثبات “کے “مشاعرہ نمبر ” کے لئے لکھا گیا تھا.
Facebook Comments
بہت دلچسپ مضمون ہے