سفید چینی ،سفید خون ،سفید جھوٹ۔۔محمد وقاص رشید

عمران خان صاحب نے 2011 میں پارٹی الیکشن کا اعلان کیا۔  بڑا زبردست نعرہ تھا “اپنے رہنما خود چنو”  لیکن ہمیشہ کی طرح ہوا میں معلق باتیں کرنے والے آدمی نے دعوؤں اور عمل کے دو کناروں کے درمیان عملداری کا پل قائم کرنے کی نہ سوچی،جو ڈوبتا ہے ڈوبے جو تیرتا ہے تیرے ،مجھے کیا۔

پارٹی الیکشن میں “جنہوں نے” اپنے امیدوار خود چننے تھے وہ چنتے رہے۔  میں تب اپنے آبائی علاقے میں اس الیکشن کے باعث بن جانے والے دو دھڑوں میں مصالحتی کردار ادا کرنے کے لیے دونوں میں موجود اپنے احباب کے پاس جایا کرتا تھا تو دونوں کے پاس وہی گلے شکوے اور رودادیں ہوتی تھیں جن کا ازالہ کرنے کے لیے عمران خان صاحب نے جسٹس وجیہہ الدین صاحب کی سرابراہی میں ایک کمیشن قائم کیا تھا ۔اس کمیشن نے پارٹی الیکشن میں انہی  بے ظابطگیوں کا پتا چلایا جنہیں 2013 کے انتخابات میں تلاش کرنے کے لیے عمران خان سپریم کورٹ تک گئے، بلکہ انکے بقول “بلائے گئے “لیکن حیران کن طور پر پارٹی سے جسٹس وجیہہ الدین صاحب اور پارٹی آئین لکھنے والے حامد خان ہی کو نکلنا پڑا ۔ کیونکہ نہ انکے پاس جہاز تھا نہ شوگر ملیں اور یہیں سے خان صاحب کے قول و فعل کے تضاد کا وہ سفر شروع ہوتا ہے جو اب حکومت میں ساڑھے تین سال مدت پوری کرنے کے بعد “چینی کی طرح “سفید جھوٹ میں تبدیل ہو رہا ہے۔

2013کے انتخابات ہوئے عمران خان صاحب نے ٹی وی پر آکر ایک پروگرام میں لکھ کر دیا کہ پی ٹی آئی کلین سویپ کرے گی ۔ وہ کلین سویپ 33 نشستوں پر منتج ہوا ، تو جسٹس وجیہہ الدین جن کی وجہ سے پارٹی سے نکالے گئے۔ ان  میں جہانگیر ترین صاحب نے اعلان کیا کہ اگلا الیکشن ہم بالکل مختلف حکمتِ عملی سے لڑیں گے  اور ان کا جہاز ہر اس شخص کو بنی گالا میں لانے لگا جس کے خلاف بقول خان صاحب کے انہوں نے یہ جماعت بنائی تھی اور 22 سال جستجو کی تھی ۔جسے وہ “سٹیٹس کو” یا اشرافیہ کہتے تھے۔ جہانگیر ترین صاحب سپریم کورٹ سے نااہل ہو گئے تو عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے کاغذی طور پر ہٹا دیا لیکن عملی طور پر وہی پارٹی انتظامات چلاتے رہے۔ جب پارٹی کے اندر سے دوسرے گروپ(شاہ محمود قریشی صاحب ) کی آوازیں بلند ہونے لگیں تو وہ عمران خان جو اختلاف نہ کرنے والوں کو اپنے “کتے” شیرو سے تشبیہہ دیتے تھے ۔ یہاں تلک پہنچ گئے کہ ساری پارٹی کو اسلام آباد بلایا اور کہا یہ میری پارٹی ہے اگر کسی کو میرے فیصلوں سے اختلاف ہے تو چلتا بنے۔ یہاں عمران خان صاحب نے ایک انتہائی شاطر سیاستدان کی طرح ایک چال چلی، اپنی تقاریر کو مذہب میں ملفوف کر کے خوابناک فضاؤں میں ہی اڑنے دیا جبکہ عملی اقدامات کوزمینی حقائق کے قفس کا ضرورت سے بڑھ کر اسیر بنا لیا۔زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اس لمحے پر اہلِ علم و دانش بتا بھی رہے تھے کہ یہ یہ ہو گا ۔۔ میں نہ مانا،اب جب وہی کچھ ہو رہا ہے تو۔۔زندگی اس ازالے کے نام!

اور یوں عمران خان 2018 کا الیکشن جیت گئے اور جہانگیر ترین صاحب سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے باوجود صنعت و زراعت کے معاملات کو باقاعدہ ایک وزیر کی طرح چلاتے رہے۔جہانگیر ترین وزیراعلیٰ پنجاب تو نہ بن سکے البتہ ایبڈو پرائم منسٹر بن کر بیورو کریسی کی آنکھ میں کھٹکنے لگے۔

اوپر بیان کی گئی تمہید کا مطلب یہ باور کروانا تھا کہ ہمارے محبوب کپتان کے لیے اصول ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انکا کوئی اصول نہیں۔وہ ہر مرحلے پر میں محض نظریہ ضرورت کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں اور بس۔
یہاں سے چینی کی طرح سفید جھوٹ کی کہانی شروع ہوتی ہے۔جس میں بہت سارے سوالیہ نشانات آتے ہیں۔خان صاحب کی حکومت کو ایک سال بیت چکا تھا جہانگیر ترین صاحب عمران خان صاحب کی آنکھ کا تارا تھے اور بقول فواد چوہدری صاحب کے عمران خان کے اوپننگ بیٹسمین اسد عمر صاحب کو چلتا کر چکے تھے اور اپنے کچھ ٹی وی بیانات میں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے فیصلے سے اقتصادی بحران اور بے یقینی کی فضا کو اسد عمر صاحب کے بروقت درست فیصلے نہ کرنے کا شاخسانہ قرار دے چکے تھے۔ ملک میں گنے کی بمپر کراپ آئی۔شوگر مل مالکان نے حکومت سے چینی پر سبسڈی مانگی لیکن وفاقی حکومت نے سبسڈی دینے سے انکار کر دیا۔ ہاں البتہ چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دے دی۔۔آج تک یہی سمجھ نہیں آئی کہ وفاق میں کپتان تو سبسڈی کے خلاف ڈٹ کے کھڑا ہو گیا لیکن پنجاب میں اسکا وسیم اکرم پلس شوگر ملز مالکان کے سامنے “گوڈے ” ٹیک گیا۔یعنی وفاقی تحریک انصاف نے جسے عوام کے حق پر ڈاکہ قرار دیا ،پنجاب کی تحریک انصاف نے اسے شوگر ملز مالکان کا حق قرار دیا اور اربوں روپے عوام کی جیب سے نکال کر انہیں دے دیے، جنہیں عمران خان مافیا کہتے ہیں،لیکن سنگین و بھیانک ترین لطیفہ یہ ہے کہ وہ کپتان جو سبسڈی دینے کے خلاف ڈٹ کے کھڑا تھا وہ سبسڈی دینے والے وسیم اکرم پلس کے پیچھے بھی ڈٹ کے کھڑا ہو گیا۔ایک اور ششدر کر دینے والی بات یہ کہ شیخ رشید صاحب کہتے ہیں کہ جی چینی والے بہت تگڑے ہیں عمران خان نے منع کیا تو بزدار سے لے گئے۔ اگلی بات اور حیران کُن کہ میں نے کیونکہ چینی مافیا کے خلاف بات کی تو مجھے چائنہ میں دھمکی دی گئی۔صادق اور امین اور انمول کپتان نے یہاں بھی شیخ رشید سے نہیں پوچھا کہ آخر کس نے انہیں ڈرایا دھمکایا۔ وہ روز جسے مافیا مافیا کہتے ہیں اگر ہے ہی انکے آس پاس تو عوام کو مزید بدھو بنانا تو چھوڑ دیں کم سے کم۔

خان صاحب نے پانامہ کمیشن والے واجد ضیا کی سربراہی میں چینی کا کمیشن بنا دیا  اور اسکی رپورٹ آئی۔جس میں تمام شوگر ملز مالکان کے سبسڈی اور ایکسپورٹ کی مد میں اور پھر اس ایکسپورٹ کے نتیجے میں بحران کے دوران قیمتیں بڑھا کر اربوں روپے بنانے کا انکشاف ہوا۔اس رپورٹ پر خان صاحب نے قوم سے خطاب میں ہمیشہ کی طرح یہ دعویٰ  کیا کہ مافیا میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا اور اس رپورٹ کی روشنی میں ہم ایک ایسا نظام لا رہے ہیں جس سے آئندہ چینی کی قیمت کبھی اوپر جا ہی نہیں سکے گی۔ نہ ہی شوگر مافیا حکومت کو بلیک میل کر سکے گا نہ سبسڈی لے سکے گا۔

خان صاحب نے کہا کہ ہم نے یہاں تک پتا لگا لیا ہے کہ حکومتی ریگولیٹرز اور انسپیکٹرز کو جو پیسے بطورِ رشوت دیے جاتے تھے انکی بھی پرچیاں اور رسیدیں بنتی تھیں۔کم قیمت دے کر زیادہ پر کسانوں کے انگوٹھے لگوانے کی پرچیاں۔ کچی رسیدیں ، پکی رسیدیں ۔۔وغیرہ،اب جی جنابِ فواد چوہدری کے بقول اسد عمر صاحب کا ہاتھ پڑ چکا تھا اور انہوں نے جہانگیر ترین کو چلتا کیا۔ اب یہاں سے سنگین و بھیانک ترین لطائف کا ایک عمرانی سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔شہباز گل صاحب نے کہا جہانگیر ترین صاحب کو شوگر کرپشن کی وجہ سے مختلف کمیٹیوں سے ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا جہانگیر ترین صاحب نے کہا میری تعیناتی کا کوئی ایک نوٹیفیکیشن دکھا دو، میں تو کسی کمیٹی کا سربراہ رہا ہی نہیں، میں تو کابینہ میٹنگز میں وزیراعظم صاحب کے کہنے پر جاتا رہا ہوں۔  تحریک انصاف نے جہانگیر ترین کے معاملے میں ادھر خان صاحب کو ٹیپو سلطان ثانی ثابت کیا کہ خان اپنوں کو بھی نہیں چھوڑتا۔ اُدھر جہانگیر ترین صاحب کے متعلق خان صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ابھی تو صرف رپورٹ میں نام آیا ہے جہانگیر ترین ابھی guilty تو نہیں ہیں۔  یہ وہی صاحب ہیں جو اسی جے آئی ٹی میں نام آنے پر مخالفوں کے جو لتے لیا کرتے تھے۔ ۔اللہ اللہ! پھر جہانگیر ترین صاحب کے خلاف تین ایف آئی آر ہوئیں ۔جو وزیر اعظم کے نیچے کام کرنے والی ایف آئی اے نے کروائیں ۔ خان صاحب نے جہانگیر ترین سے متعلق سوال پر کہا ،جس مافیا نے غریب عوام کی جیبوں سے 125 ارب روپے نکالے یہ نہیں ہو سکتا کہ انکے سامنے میں جھک جاؤں اور پھر جہانگیر ترین صاحب نے میرا “تراہ ” نکال دیا ۔یہ کہہ کر تینوں ایف آئی آرز میں چینی کا کہیں ذکر ہی نہیں ۔کیا واقعی کوئی 22کروڑ کی قوم سے ایسے بھیانک مذاق کر سکتا ہے ۔

اچھا یہ سلسلہ یہاں رکتا نہیں ہے۔  جہانگیر ترین ایک گروپ بنا لیتے ہیں، اس گروپ میں وفاق اور پنجاب سے کوئی پندرہ بیس حکومتی عہدے داران ہوتے ہیں۔  کچھ لوگ تو ایسے تھے کہ پنجاب حکومت کی کابینہ کا حصہ ۔وہ جہانگیر ترین سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں   اور یہ گروپ کورٹ کچہری میں اکٹھے پیش ہوتا ہے، اس گروپ کا ایک نمائندہ نذیر چوہان وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر پر قادیانی ہونے کا الزام عائد کر دیتا ہے تو اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے  اور فیصل واوڈا کی دھمکی کے عین مطابق وہ آدمی پولیس کی زیرِ حراست بیمار پڑ جاتا ہے اور ایک آدھ دن میں متوقع بیان آ جاتا ہے کہ “جہانگیر ترین کو شرم آنی چاہیے تھی ،مجھے یوں استعمال کرتے ہوئے “۔ اچھا عوامی حقوق کے لیے کسی ایک کو ایک شو کاز نوٹس بھی نہیں ملتا ،ایک مشیر کے لئے گھر پولیس پہنچ جاتی ہے۔بہرحال یہ گروپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ہمارے “انمول رتن” وزیر اعظم کی ایف آئی اے کو پتا چلتا ہے کہ جہانگیر ترین صاحب ایک معصوم آدمی ہیں  اور چینی کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں وہ ایف آئی آر واپس ہو جاتی ہیں جن میں چینی کا کہیں ذکر ہی نہیں ہوتا اور پھر ریاستِ پاکستان اسی جہانگیر ترین سے سستی چینی خریدنے کا کوئی معاہدہ بھی کرتی ہے۔  سبحان تیری قدرت!

اچھا اس سے بھی شرمناک بات ہے کہ چینی کمیشن رپورٹ میں سبھی شوگر ملز مالکان کی بات کی جاتی ہے۔ اس بارے لیکن خان صاحب ہی کے فرمان کے مطابق وہ شاید انکی قیمت لگا سکتے ہوں گے تبھی تو انکو کوئی ایک نوٹس بھی نہیں ملتا۔ خسروبختیار صاحب کا نام آٹا اسکینڈل رپورٹ میں بھی آیا۔  وزارت تبدیل کر دی گئی۔  اس سے بڑے پورٹ فولیو کی وزارت دے دی گئی ۔چینی میں بھی نام آیا، کان پر جوں تک نہیں رینگی  اور تو اور مونس الٰہی کا نام بھی سنا گیا تھا اس رپورٹ میں۔  کچھ عرصے کے بعد مونس الٰہی کو وفاقی کابینہ کا حصہ بنا دیا گیا ۔کیا منافقت ہے، کیا دوہرے، چوہرے معیارات ہیں ہمارے صادق و امین کے۔۔

پاکستان میں شوگر ملز مالکان ہیں کون کون۔ ؟
پاکستان میں کُل 80 کے قریب شوگر ملز ہیں جن میں 50 فیصد سے زائد سیاستدانوں کی ہیں ، باقی کس کی ہیں تحقیق سے بھی نہیں پتا چلا، ڈان اور نیشن کے آرٹیکلز میں بھی ذکر نہیں حتٰی کہ شوگر ایسوسی ایشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر بھی لسٹ کا صفحہ نہیں کھلتا،بہرحال جو تفصیلات ملیں انکے مطابق؛
٭ پی پی پی کے زرادری خاندان کی 9 شوگر ملیں ہیں۔۔
٭پی پی پی کے مخدوم احمد محمود کی 1 
٭زرداری صاحب کے دوست ذکا اشرف کی 1 
٭پی ایم ایل این کے شریف خاندان کی 7  
٭پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین خاندان کی 4  
٭پی ٹی آئی کےذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا کی 1   
٭پی ٹی آئی کے خسرو بختیار اور انکے بھائی کی 2  
٭پی ٹی آئی کے ہمایوں اختر کی 1  
٭پی ٹی آئی کے سردار نصراللہ دریشک کی 1  
٭پی ٹی آئی کےمیاں محمداظہریعنی حماد اظہر کی 1 
٭پی ٹی آئی کےعباس سرفراز کی 5 
٭ق لیگ کے چوہدری خاندان کی 4 
٭اپوزیشن کی شوگر ملز کی تعداد  18 ہے
٭حکومت کی شوگر ملز کی تعداد 19 ہے
(طالبعلم نے کافی کوشش کی کہ باقی ماندہ شوگر ملز کے مالکان کا پتا چلایا جائے۔۔۔ لیکن نہیں کر سکا)

آپ اس فہرست  کو غور سے دیکھیے ۔ اس میں اپوزیشن کی شوگر ملز کی تعداد کو دیکھیے ،پھر حکومتی عہدیداران اور کابینہ کے وزراء تک کی ملوں کی تعداد پڑھیے ۔اس فہرست میں عمران خان صاحب کی کابینہ کے ان افراد کے نام پڑھ کر یقیناً حیرت ہوئی ہو گی بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ خان صاحب کے قول و فعل کے تضادات دیکھ دیکھ کر اب تو حیرت بھی نہیں ہوئی ہو گی کہ کیسے خان صاحب کے شوگر ملوں کے مالکان ارب پتی وزراء اور ایم این ایز ٹی وی پر آکر چینی کے کارٹلز کی باتیں کرتے ہیں ۔ خود بھی چینی کے خان صاحب کے بیان کردہ 125 ارب میں سے حصّہ بقدر جثہ کے حصہ دار ہو کر دوسروں کو طعنے دیتے ہیں ۔

ایک انتہائی اہم نقطہ جسے بالکل فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ عمران خان صاحب چینی کمیشن رپورٹ سے متعلق کچھ نئے قوانین لے کر آئے تھے۔  اس پر اینکر عمران خان نے ایک وی لاگ بھی کیا تھا اپنے یوٹیوب چینل پر کہ کیسے گورنر پنجاب سے مل کر شوگر مل مالکان نے کسان دوست قوانین کو رول بیک کیا۔
عمران خان صاحب صاحب نے کل یعنی نومبر میں واقع ایک تقریب میں اپنی نااہلی اور کھوکھلے دعوؤں کا اعتراف بڑے فخر سے کیا اور کہا کہ چینی 140 روپے کلو ہو گئی تو میں نے پتا چلایا کہ جولائی سے سٹے آرڈر لے رکھا ہے شوگر مافیا نے۔  کیا کہنے آپکی مدینے کی ریاست کے۔ ۔ ہر چیز کا ریٹ روزانہ اور ہفتہ وار کے حساب سے بڑھتا ہے اور حاکم وقت کو چیزوں کی قیمتیں بڑھنے کی وجوہات کا ادراک 6 مہینے بعد ہوتا ہے ۔

میں   ،وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب سے چند سوالات پوچھنا چاہتا ہوں؛
٭ جب آپ شوگر مافیا کہتے ہیں تو کیا ان میں آپ کے اپنے لوگ شامل ہیں؟ ۔ ہیں تو اس آپ کی طرف والی شوگر مافیا کے سربراہ تو آپ نا ہوئے ۔ ؟

٭ آپ وزیر اعظم ہو کر اپنی طرف کے ملز مالکان سے چینی کی قیمت کم نہیں کروا سکتے، سٹے آرڈر ختم نہیں کروا سکتے، غریب عوام کی جیبوں سے جانے والی سبسڈی میں انہیں حصہ دار نہ بننے کا وعظ نہیں کر سکتے تو روز کس اخلاقی حیثیت سے اپوزیشن والوں کو مافیا کہہ کہہ کر بھاشن دیتے اور “عمران راہی ” بن کر بڑھکیں مارتے ہیں ؟

٭ اپنی طرف کی مافیا کو سامنے بٹھا کر دوسری طرف والی مافیا کو طعنے دینا، بُرا بھلا کہنا  اور پھر اپنی طرف کی مافیا کا اس پر تالیاں بجانا۔ کیا یہ مدینے کی ریاست کی اُلٹا تضحیک نہیں ہے۔ ؟

٭آپ کی حکومت کی نااہلی کی چوہری سزا غریب قوم نے بھگتی اور آپ کے شوگر ملز مالکان کے وارے نیارے ہوئے ۔چینی باہر گئی، بحران پیدا ہوا، دوبارہ باہر سے منگوائی، سستی بیچی مہنگی خریدی، ڈالر کی خاطر بھکاری بنی قوم کا قیمتی زر مبادلہ ضائع ہوا ۔اسکا ذمہ دار کون ہے؟  آپ کی طرف کا مافیا یا حسبِ معمول “مخالفین” ؟

٭ آپ نے چینی کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد کہا تھا کہ اس رپورٹ کے بعد وہ نظام لے کر آئیں گے جو ۔۔۔ وہ نظام کہاں ہے؟ ۔ آپ نے یہ اعلان چینی کے 90 روپے ہونے پر کیا تھا ۔ 140ہونے پر ایک سٹے آرڈر کا ہی آپ کو 6مہینے بعد پتا چلتا ہے  جبکہ سٹے لینے والے روز آپ کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں کیا یہ تھا وہ نظام۔  ؟

٭ آپکے پسندیدہ سٹائل (بقول آپ کے) میں جگتیں کرنے اور سگار پینے والے شیخ رشید کے بیان اور اینکر عمران خان کے گورنر پنجاب سے متعلق وی لاگ پر آپ نے کیا نوٹس لیا؟کیونکہ یہ تو آپکے پسندیدہ اینکر ہیں ؟

٭ آپ روز قرآن و حدیث کی باتیں کرتے ہیں، چینی تو محض آپ کے لیے ایک آئینہ ہے سچ تو یہ ہے کہ آپ آئینوں کے ایک شیش محل میں رہتے ہیں۔ ہر آئینہ آپ کو قرآن کی ایک آیت یاد دلا رہا ہے کہ۔۔
ترجمہ۔اےایمان والوتم وہ بات کہتےکیوں ہوجوکرتے نہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors

سچ تو یہ ہے کہ آپ ان سوالوں کے جوابات تو درکنار ان پر خود سے محض غور کرنے والے بھی ہوتے تو جس وقت شوگر مل مالکان سے اپنی وزارت عظمیٰ کی بولی لگوا رہے تھے ۔آپکے ضمیر کا خون سفید پڑ رہا تھا آپ اس وقت ہی یہ سوچتے کہ قول و فعل کے تضاد کے اس سفر کی منزل چینی کی طرح سفید جھوٹ ہو گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply