جدت کا بخار ، فرصت کا بیمار۔۔تنویر سجیل

فرصت کس کو نہیں چاہیے ؟۔زندگی کی اس تیز میراتھن کو دوڑتے دوڑتے ہر کوئی ہانپتے سوچ رہا ہے کہ کیا یہی زندگی کا حاصل تھا کہ بس بھاگتے رہو کبھی ضرورتوں کے چاند توڑنے کے لیے تو کبھی آسائشوں کے کنول کی تلاش میں، اور حاصل کیا ہوا؟۔۔ ایک طویل مصروفیت سے لبریز مسافت، جو جونک کی مانند زندگی کے چین سکون کو نگل لے گئی اور آخر دم یہ احساس ندامت کے احساس میں بدل جائے گا کہ آخر کیوں بھاگتے رہے ؟ کبھی خود کے آرام کے لیے وقت کیوں نہیں نکال پائے اور اگر وقت ملا بھی تو اس فرصت کو کس غیر ضروری، غیر اہم اور غیر تخلیقی عمل کی عیاشی کی  نذر  کر دیا۔

فراغت انسان کا سب سے من پسند عمل رہا ہے جس کی خاطر وہ اپنی ذمہ داریوں کو جلدی جلدی نپٹا کر ان سے بےفکر ہو جانا چاہتا ہے، اور فرصت کے  ان لمحوں کو اپنی پسندیدہ سرگرمیوں میں اور لوگوں کےساتھ گزارنے کو ترجیح دینا چاہتا ہے، اور اکثرفرصت کی اس سہولت کو حاصل کرنے کے لیے وہ ایسے جوکھم بھی اٹھا لیتا تھا جو اسکی طاقت اور ہمت سے باہر ہوتے تھے۔

مگر آج دنیا کے ٹرینڈز بدل گئے ہیں ،جدید سہولیات میں ڈوبی زندگی نے فرصت کو ایسے چکر دےڈالے ہیں کہ اب فرصت بھی ایک طرح کا عذاب بن گئی ہے ،پہلے وقتوں میں جدت کی اتنی بھرمار نہ تھی لوگ زندگی کالطف اٹھانے کے لیے ٹیکنالوجی کے سحر سے واقف نہ تھے ، مشینیں ان کی ملنساری کی عادت میں رکاوٹ نہ ڈالتی تھیں، چونکہ ترقی کا جادو اتنا سر چڑھ کر نہیں بولتا تھا تو تب لوگ فرصت کے اوقات میں دوسرے لوگوں سے میل جول کرتے تھے لبوں کی جنبش ، چہرے پہ اترتے تاثرات کے آبشار سے اپنے ذہن کے ان کیمیکلز کی تار ہلاتے تھے جن کا ساز اطمینان کی لَے پر بجتا تھا اور سرشاری سے دونوں کو بھر دیتا تھا۔

فرصت کی ان گھڑیوں میں لوگ ایک دوسرے کی سوشل اور ایمو شنل سپورٹ کے ایسے بازار لگاتے تھے کہ دکھ ، پریشانی بھی پتلی گلی کی راہ لیتی دکھائی دیتی تھی، تب صحیح معنوں میں لوگ ہی ایک دوسرے کی دوا ہوتے تھے،کہ ذرا سا بھی کسی کے ساتھ حالات نے اونے پونے  کرنے کی کوشش کی تو ان کو اپنے دکھ درد بتانے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی تھی بلکہ ان کا ساتھی پہلے سے ہی آگاہ ہو جاتا تھا اورسنگی کو دکھ سےمحفوظ رکھنے کے لیے اپنی بانہوں کو پھیلائے نظر آتا تھا ،کیوں کہ وہ فرصت میں مل بیٹھنے کی سنگت کے قرض اور فرض سے بخوبی آگاہ تھے اور اپنے درمیا ن ایک ایسا جذباتی و نفسیاتی کھنچاؤ رکھتے تھے جس کو علم نفسیات آج سپورٹ گروپ اور کمیونٹی ورک کا نام دے کر پھر اس عہد ِرفتہ کی نعمت و سہولت کو پیدا کرنے کے اسباب میں لگا ہے ۔

گو کہ علم ِ نفسیات نے ڈھیروں تحقیقات کر کے اس بات کے واضح ثبوت پیش کیے ہیں کہ فرصت میں کی جانے والی سرگرمیوں کا بالواسطہ تعلق فرد کی خوشی ، اطمینان ، سکون اور زندگی میں دلچسپی برقرار رکھنے سے ہے، جب جب بھی اس بات کے سائنسی شواہد اکھٹے کرنے کے لیے طویل مدتی تحقیقات کی گئیں کہ انسان اپنی زندگی میں کس عنصر کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے ایک ایسا عنصر جو اس کی خوشی اور روانی کا اہم اساس ہو ،تب تب تحقیق کاروں کو ایسے عنصر کی موجودگی ملی جس کا تعلق انسان کے دوسرے انسان سے “تعلق” پر تھا۔

مگر آج کے ٹیکنو ہیومن کو ایک ایسی ریس کا پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ نہ  چاہتے ہوئے بھی اس ریس کا حصہ ہے جس کو جیت کر بھی ہار جیسی کیفیت کا سامنا ہوتا ہے دور جدید میں ٹیکنالوجی کے ایٹم بم پھٹنے سے جس جدت اور سہولت سے انسان ہمکنار ہو چکا ہے وہی جدت اور سہولت اب جدید مسائل اور مصائب کو بھی گود پال رہی ہے ،جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ ترقی سےانسان ایسی ایجادات کرے گا ایسا مشینی انقلاب لائے گا جو انسان کی کایا پلٹ دے گا جو اس کو چاند اور فلک کی وسعت میں عیاشی کے سامان بھی فراہم کرے گا اور اس ترقی کی سب سے بڑی سہولت وقت کی بچت ہو گی کہ اتنی مشینیں اور جدت کے بطن سے جنم لیتے پرزے اس کو فرصت جیسی عظیم نعمت سے مالامال کر دیں اور فرصت کی اس دولت کو دوسروں پر نچھاور کرتے ہوئے اپنی خوشی ، راحت اور اطمینان کو خود سے ڈیزائن کرے گا ۔

مگر! یہ کیا ہوا کہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا انسان ایسی الجھن میں پھنس گیا ہے کہ وقت کو بچاتے بچاتے اس کے پاس وقت ہی نہ بچا کہ وہ دوسروں سے سنگت کرنے کے لیے جس فرصت کا بندوبست کرنے کے چکر میں تھا اب اتنا ہی وہ وقت ان کھلونوں کو دے رہا ہے جو ترقی کی گود میں پلے ہیں۔

گو ترقی صرف مشینی ایجادات کی ہوئی، جو وقت کے تقاضے کے عین مطابق ہے کیونکہ انسانی شعور ووجدان کی یہی جبلت اور غرض ہے کہ وہ آگے بڑھتا جائے اس ترقی کی ضرورت انسان کے لیے انتہائی اہم تھی انسان کو ایسے آلات اور حالات پیدا کرنے کی ضرورت تھی جو اس کی زندگی کو آسان اور بہترین بنا سکیں جس کی بدولت انسان اپنی زندگی کوگھسیٹنے کی بجائے دوڑانے کے اسباب پیدا کرے ان ضروریات کا انسان کی بقا سے نہایت ضروری تعلق ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

البتہ ترقی کی اس دوڑ میں صرف ٹیکنالوجی کی ترقی ضروری نہیں تھی بلکہ اس ترقی میں انسان کی اپنی ذات سے تعلق کی ترقی، اپنی ذات سے دوسروں   سے وابستگی کی ترقی بھی ضروری تھی کیونکہ انسان چاہے جتنی بھی ترقی کر لے وہ انسان کے  مستقل کیلئے  خوشی کے اسباب کبھی پیدا نہیں کر سکتی ۔ وقتی طور پر ان مشینوں پر قناعت کر کے جدائی اور تنہائی کے جن کو قابو کرنے کی کوشش کرتا تو ہے مگر یہ وقتی سہولت آہستہ آہستہ بیکار لگنے لگتی ہے اور جسم کی قید میں موجود سوفٹ ویئر کو مکمل فعال کرنے کے لیے کسی دوسرے انسان کے سوفٹ ویئر کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے، جو صرف تب ہی میسر ہو سکتی ہے جب ہم ٹیکنوہیومن سے ہیومن بننے کے عمل کو شعوری طور پر اپنا لیں گے اور ایسے اسباب پیدا کرنے کی طرف زیادہ توجہ اور اقدامات کریں گے جو لوگوں سے میل جول پر مبنی ہو جس میں ٹیکنالوجی کی کم از کم مداخلت ہو ۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply