ترقی پسند افسانہ(معاشرتی و طبقاتی کشمکش)-مصنف: ڈاکٹراشرف لون/مبصر:ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

اردو ادب کی تحریکات یا رجحانات میں ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے زیر ِاثر اردو شعر و فکشن فکری وفنی اور موضوعاتی سطح پر کئی دوررس تبدیلیوں سے روشناس ہوا۔ ترقی پسند تحریک کی بدولت پہلی بار اردو ادب ایک تحریک کی صورت میں سماجی موضوعات اور مسائل کی ادبی پیش کش کا وسیلہ بنا اور جدیدیت کے زیر اثر اردوشعر وفکشن خصوصاً افسانہ فنی و تکنیکی اور اسلوبیاتی بدلاؤ کے ضمن میں ارتقاء کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ترقی پسندادبی تحریک (Progressive Literary Movement)کا نظریہ ہی یہ تھا کہ ”ادب کو سماج اور معاشرے کا ترجمان ہونا چاہے۔“اس مناسبت سے ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے کئی افسانے اور اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں۔مثلاً۔۔مہالکشمی کا پل(کرشن چندر)‘الاؤ(سہیل عظیم آبادی)‘ دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم(سریندر پرکاش)‘وہ (بلراج مین را)
سنتے ہیں کہ کانٹے سے گل تک ہیں راہ میں لاکھوں ویرانے
کہتا ہے مگر یہ عزمِ  جنوں صحرا سے گلستان دور نہیں (مجروح سلطان پوری)
گھر بھی جلا‘ لہو بھی بہا ‘ پھر یہ حکم ہے
فریاد مت کرو یہ کوئی حادثہ ہوا (وحید اختر)
مذکورہ توضیح کے پیش نظرجب کتاب”ترقی پسند افسانہ۔معاشرتی و طبقاتی کشمکش“ کے مشمئولات خصوصاً مرکزی موضوع ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند اردو افسانہ کے مباحثہ کا احاطہ کریں تو اس میں مارکسزم اور طبقاتی کشمکش‘ ماقبل ترقی پسنداردو افسانے میں طبقاتی کشمکش‘ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک‘ترقی پسند اردو افسانے میں زمینداراور کسان کے درمیان کشمکش‘ ترقی پسند اردوافسانے میں سرمایہ دار اور محنت کش طبقے کے درمیان کشمکش‘ دیگر ترقی پسند افسانہ نگاروں کے افسانوں میں سرمایہ دار اور محنت کش طبقے کے درمیان کشمکش کی ترجمانی‘ ترقی پسند اردو افسانے میں ذات پات کی طبقاتی کشمکش اور دیگر ترقی پسند افسانہ نگاروں کے افسانوں میں ذات پات کی طبقاتی کشمکش کی ترجمانی وغیرہ چھ ابواب میں ترقی پسند تحریک کے فکری‘سیاسی و ادبی اور تاریخی وسماجی موضوعات کے علاوہ اردو افسانے میں ترقی پسند خیالات کے فنی اظہار بصورت مسائل وموضوعات اور کہانی کا ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ پیش ہوا ہے۔

مارکسزم یا اشتراکیت کا فلسفہ سماج کی طبقاتی کشمکش (Class Struggle)کو ڈسکورس بناتا ہے‘ جوکہ سماج میں سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اوراس استحصال کے پیش نظر بورژوا(حاکم)اور پرولتاریہ(محکوم)کی طبقاتی رسہ کشی پر ارتکاز کرتا ہے۔کتاب کے پہلے باب میں مارکسزم کا تعارف‘ اس کے تاریخی‘سیاسی‘ سماجی‘اقتصادی اور نظریاتی پہلوؤں اور فکری وطبقاتی جہات پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے‘ساتھ ہی سماج کے طبقاتی مسائل اور حل کے تعلق سے مارکسی نظریہ ساز مفکروں اور غیرمارکسی دانشوروں اور مورخوں کے تصورات اور کتابوں کو بھی زیرِ  بحث لایا گیا ہے جن میں کارل مارکس‘ انگلیز‘کارل واٹ سکی‘ ایڈورڈ برنسٹائن‘لینن‘اسٹالن‘ماؤ زے تنگ‘ایڈم سمتھ‘پرودھان‘اڈالف بلانکی‘ فرانز مہر ٹنگ‘ڈی ٹریسی‘ بنجامن کونسٹنٹ‘’Manifesto Of The Communist Party‘’Das Capital(Kapital)‘’Outline of a Critique of Politiclal Economy‘’The Condition Of The Working Class of England‘’Poverty of Philosophy‘’Labour Movement‘’What is poverty‘’سوشلزم اور انقلاب‘’کارل مارکس اور اس کی تعلیمات‘وغیرہ شامل ہیں۔طبقاتی نظام کی توضیح میں کئی اقتباس پیش ہوئے ہیں۔جیسے ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
”طبقات عموماََ مختلف گروہوں کے درمیان اقتصادی فرق کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔یہ فرق یا انحصار مادی وسائل تک
رسائی یا ان کی ملکیت پر موقوف ہوتا ہے۔“ (ص: 10)

سماج میں طبقاتی کشمکش کامسئلہ ایک طرح سے بڑی سماجی برائی (Social Issue)تصور کیا جاتا ہے۔یہ برائی انسانیت کے خوبصورت چہرے کو بدنما کردیتی ہے۔اردو فکشن میں طبقاتی کشمکش کے مسائل کو ابتدا سے ہی مرکز توجہ بنایا گیا ہے اور اس ضمن میں پریم چند کی فکشن نگاری ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب میں ماقبل ترقی پسند اردو افسانے میں طبقاتی کشمکش کا معلوماتی جائزہ پیش ہوا ہے اور پریم چند کے علاوہ چند اور اہم افسانہ نگاروں کے افسانوں میں طبقاتی کشمکش کے پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔علاوہ ازیں طبقاتی کشمکش کے تعلق سے ہندوستان میں طبقاتی مسائل کا اجمالی تاریخی وسماجی خاکہ بھی دلچسپ ہے‘جو کہ پریم چند کے افسانوں پر گفتگو کرنے کے دوران مفید نظرآتا ہے۔پریم چند کے افسانوں میں طبقاتی کشمکش کا احاطہ کرنے کے علاوہ ان کے چند افسانوں خصوصاً  شاہکار افسانے”کفن“کا بھی جائزہ لیاگیاہے۔باب سوم ترقی پسند ی کے ابتدائی نقوش‘ آغاز‘ ترقی پسند ادبی تصورات اورترقی پسند خیالات کی پیروی‘اتفاق اور اختلاف وغیرہ موضوعات کے لئے مختص ہے۔اس باب میں مواد اور ہیئت سے متعلق کئی ناقدین کے معنی خیز اقتباسات پیش ہوئے ہیں کیونکہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ افسانے یا افسانچے لکھتے ہیں لیکن وہ خیالات کی پیش کش ہی نظرآتی ہے اور اس میں ہیئت اور زبان وبیان کامعیاری پن مفقود ہوتا ہے۔اس ضمن میں ممتاز حسین کے یہ خیالات ملاحظہ فرمائیں:
”اگر کوئی تصنیف ادراک حقیقت میں ٹھیک ہو لیکن زبان کے حسن اور حسیاتی روپ سے عاری ہو
اسے ادبی تخلیق کادرجہ نہیں دیا جاسکتا۔۔۔“ (ص: 185)

پریم چند کے چند افسانوں کی حقیقت نگاری اور ”انگارے“ میں شامل افسانوں نے اگرچہ پہلے ہی زندگی کے حقیقی مسائل پر ارتکاز کیا تھا تاہم اردو ادب کی تاریخ میں ایک منظم تحریک کی صورت میں ترقی پسند تحریک(1936ء)کا ظہور ادب اور زندگی کے مابین رشتہ جوڑنے کا پہلی مرتبہ وقوع پزیر ہوا۔ اس تحریک کے زیر اثر جو افسانہ تخلیق ہوا اس کی کئی موضوعاتی جہات ہیں۔ان میں سے چند اہم جہات کو کتاب کے دیگر ابواب میں محققانہ نقطہ نگاہ سے موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ان جہات میں ہندوستان کا جاگیردانہ نظام‘سرمایہ دارانہ نظام‘طبقاتی تقسیم اور ذات پات وغیرہ مسائل اورسماج کے غریب اور مفلوک الحال طبقے اور مزدوروں وکسانوں پر ڈھائے جارہے مظالم اور استحصالی ہتھکنڈوں پر تخلیق کردہ بیشتر افسانوں کا بالتفصیل تحقیقی مطالعہ پیش ہوا ہے اور ساتھ ہی کئی اہم ترقی پسند افسانہ نگاروں کے نمائندہ افسانوں کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے‘ جن میں کرشن چندر‘ راجندر سنگھ بیدی‘ حیات اللہ انصاری‘ سہیل عظیم آبادی‘صالحہ عابد حسین‘ خواجہ احمد عباس‘اختر اورینوی‘اپندر ناتھ اشک‘دیوندرستیارتھی‘بلونت سنگھ‘احمد ندیم قاسمی‘ قاضی عبدالستار‘واجدہ تبسم‘عصمت چغتائی وغیرہ شامل ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجموعی طور پر کتاب کا احاطہ کریں تو چونکہ یہ اصل میں تحقیقی مقالہ ہے جو کہ اب حذواضافے کے بعد کتابی صورت میں شائع ہوا ہے‘ اس لئے کتاب میں تحقیقی طریقہ کار(Research Methodology)کے اطلاق کا مناسب خیال رکھا گیا ہے۔اردواور انگریزی کتابوں اور ویب سائٹس کے حوالے حسب ضرورت موجود ہیں اور اس موضوع کے تعلق سے نمائندہ اور مناسب افسانوں پر قابل ستائش تحقیقی کام ہوا ہے۔ ایک اور مستحسن پہلو یہ بھی ہے کہ کتاب کے مطالعہ کے بعد مصنف ڈاکٹر اشرف لون کی تحقیقی جستجو اور وسیع مطالعہ کی خوبی سے دل شاد ہوتا ہے کیونکہ اس موضوع پر وہ صرف اردو ماخذات تک ہی محدود نہیں رہے ہیں بلکہ موزوں انگریزی کتب و مضامین کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے۔کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہے اور کاغذ و چھپائی بھی عمدہ ہے۔قیمت899 گراں گزر رہی ہے۔ پروفیسر منصور احمد منصور صاحب اور پروفیسر انورپاشاہ صاحب کے مختصر تاثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔کتاب کے مطالعہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اس موضوع یعنی ترقی پسند افسانے میں معاشرتی و طبقاتی کشمکش پر غالباََیہ اپنی نوعیت کی پہلی ضخیم کتاب(صفحات:442)ہے جو اس موضوع کو منظم انداز سے تحقیقی ڈسکورس بنا رہی ہے۔(میری معلومات تک اس مناسبت سے زیادہ تر مضامین ہی نظر آتے ہیں۔)جو کہ اس کتاب کی افادیت کا ایک اہم پہلو ہے۔کتاب مصنف کی محنت شاقہ اور قابلیت کا عمدہ ثبوت فراہم کرتی ہے۔چندتصحیحات(Corrections)بھی شامل ہیں‘ باقی مصنف خود بھی دیکھ سکتے ہیں تاکہ نئے ایڈیشن میں یہ اغلاط دور ہوسکیں۔
”یہ کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے“(پیش لفظ ص: 2)جبکہ کتاب کے چھ ابواب ہیں‘اگر چہ خود مصنف نے آگے چھ ابواب کا ذکر بھی کیا ہے۔ ”مندرجہ ذیل میں (ص:11)یہاں پر ’میں‘ زائد ہے۔۔۔۔ باظابطہ(ص:19)باضابط۔۔۔ اس دوران میں (ص:23) ’میں‘زائد ہے‘اور یہ کئی جگہ نظر آتا ہے ۔انہوں نے مارکس کی کچھ نشادہیوں کی یہ کہہ کر نکتہ چینی کی ہے۔(ص:23)  ۔فصیح جملہ یہ رہے گاکہ انہوں نے مارکس کے چند نشان زدہ خیالات/کی چند نشان زدہ باتوں کی یہ کہہ کر۔۔۔‘جس کے بعدمیں (ص: 39)’میں‘زائد ہے۔
”The Condition Of The Working Class In England“اینگلز کی کتاب ہے جس کا ذکر بحوالہ مصنف صفحہ 39میں موجود ہے جبکہ صفحہ 40 پر کتاب لینن کے حوالے سے کوٹ کی گئی ہے۔۔ جڑپوں (ص: 42)جھڑپوں۔۔۔افتتاہی(ص: 49) افتتاحی۔۔۔۔۔دعوعے(ص: 49) دعوے۔۔۔خاطمہ(صفحہ: 49)خاتمہ۔۔۔۔گاوؤں (ص:76)گاؤں۔۔۔۔ بھری پڑیں ہیں (ص:76) بھری پڑی ہیں۔۔۔کچھ حد اس(ص:77)کچھ حد تک اس کی۔۔۔۔سبقت لینے کی تاک میں ہیں (ص: 84)سبقت لینے کی تاک میں رہتے ہیں۔۔۔۔مکھیاں بنبنارہی ہیں (ص:87)مکھیاں بھنبھنارہی ہیں۔
مسکراہٹ۔
Address: Wadipora Handwara Kashmir 193221 ۔۔۔Cell: 7006544358

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply