کہانی ایک اسٹیشن کی۔۔ ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

اپنی خوبصورت اور قدیم طرز تعمیر اور تاریخی حیثیت کی بدولت ماڑی انڈس کا ریلوے اسٹیشن پورے ضلع میانوالی میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس شہر کی رونق بھی اسی اسٹیشن سے ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔

بچپن سے ہی ریلوے کے یادگار دور کو قریب سے دیکھا ہے اور شاید اسی وجہ سے ٹرینیں اور ریلوےاسٹیشن مجھے بہت مسحور کن لگتے ہیں۔ ٹرین کی آواز اور اس کے ہارن میں بھی ایک کشش سی محسوس ہوتی ہے۔ خالی مال گاڑیاں اور ویران پٹریاں مجھے بہت لبھاتی ہیں۔ اور میرے جیسے لوگوں کے لیئے ماڑی انڈس کا ریلوے اسٹیشن انتہائی خوبصورت ہے۔

قدیم سفید عمارت، خوبصورت پرانے طرز کے شیشوں والے دروازے اور کھڑکیاں، لکڑی کی پرانی بنچیں، سادہ سا پلیٹ فارم، لکڑی کی اونچی پانی کی ٹینکی اور ریلوے کا پرانا سامان، یوں لگتا ہے جیسے بندہ اسی یا نوے کی دہائی میں موجود کوئی دور دراز ریلوے اسٹیشن دیکھ رہا ہو۔ اِس کے دو اطراف میں پہاڑیاں اور تھوڑے ہی فاصلے پر دریائے سندھ بہہ رہا ہے۔

یہاں جگہ جگہ مختلف پٹریاں بکھری ہوئی ہیں۔ 1891 میں بنائی گئی اسکی عمارت آج بھی کچھ مرمت کے بعد اسی طرح دلکش اور جاذبِ نظر ہے۔ گو اسٹیشن کے بہت سے حِصے اب استعمال میں نہیں اور انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ کئی جگہوں پر ریل کے پہیئے اور دیگر سامان ضائع ہونے کے لیئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے یہاں صرف ایک گاڑی ”اٹک پسنجر” آیا کرتی تھی لیکن اب دو نئی ٹرینیں چلانے کے بعد یہاں کی رونق میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔

اس اسٹیشن کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں چوڑی اور تنگ پٹریوں کا ملاپ ہوتا ہے ۔ اس کے ایک جانب چوڑے گیج والی پٹری ہے جو اسے لاہور سے ملاتی ہے جبکہ دوسری جانب تنگ پٹری ہے جو ماڑی کو کالاباغ ،کمر مشانی ،عیسیٰ خیل، لکی مروت اور آگے بنوں اور پھر ٹانک سے ملاتی ہے جو اب بند کر دی گئی ہے۔ اس کی تاریخ انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔

قصہ یوں ہے کے تاجِ برطانیہ نے ماڑی انڈس کے مقام پر اپنی فوج کے لیئے ایک اسلحہ ڈپوقائم کیا تھا۔ یہ ڈپو ان افواج کو اسلحہ فراہم کرتا تھا جو دریائے سندھ کے پار مغربی علاقوں جیسے بنوں، ٹانک، کوہاٹ اور وزیرستان میں مغربی سرحد کی حفاظت کے لیئے تعینات تھے۔ یہ ڈپو آج بھی اسٹیشن کے ساتھ قائم ہے۔ ماڑی انڈس تک اسلحہ مرکزی چوڑی پٹری کے ذریعے لایا جاتا تھا لیکن اس کے پار مغرب میں اس قسم کا نظام بنانا آسان نہ تھا سو یہاں 2 فٹ 6 انچ کی تنگ پٹری بچھائی گئی جو ماڑی تا بنوں جاتی تھی۔ آگے بنوں کو ٹانک سے برانچ لائن کے ذریعے جوڑا گیا۔ یوں ریلوے کا ایک سستا اور چھوٹا نظام وجود میں آ گیا جو برطانوی فوجوں کی سرحد تک نقل و حمل کو آسان بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔

یہ ٹرینیں ملٹری کے ساتھ ساتھ سول مقاصد کے لیئے بھی استعمال ہونا شروع ہوئیں اور لوگوں نے ان کے ذریعے سفر کرنا شروع کیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق انکی رفتار اتنی سست ہوتی تھی کہ لوگ ان سے اتر کر آرام سے کھانے پینے کا سامان لیکر دوبارہ سوار ہو جاتے تھے۔ مقامی لوگوں میں یہ ”چھوٹی ریل” کے نام سے مشہور تھی جسے 1913 میں نارتھ ویسٹرن ریلوے نے بچھایا تھا جبکہ 1916 میں اسے ٹانک جنکشن تک لے جایا گیا۔ پاکستان کی اس برانچ ریلوے لائن کی لمبائی اندازاً 122 کلومیٹر تھی جسے ماڑی انڈس ریلوے لائن بھی کہا جاتا تھا۔ افسوس کہ اس ٹریک کو 1995 میں بند کر دیا گیا۔

بہت دھیمی رفتار سے اڑھائی فٹ کی پٹڑی پر چلنے والی یہ ٹرین زیادہ تر پاک فوج کی نقل وحرکت کے لئے استعمال ہوتی تھی ۔ جب یہ ریلوے برِج میں داخل ہوتی تو نیچے سندھو ندی کا ٹھاٹیں مارتا پانی اور اوپر اِس کا دُھواں اُڑاتا اِنجن ایک مسحُور کُن نظارہ پیش کرتا ۔ کالاباغ کے لوگ خصوصی طور پر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے ٹرین گزرنے کا نظارہ کراتے۔ یہاں کے لوگوں کے مطابق نواب امیر محمد خان اور ملکہ الزبتھ نے اس ٹرین پر ایک یادگار سفر کیا تھا۔ آج اسکے بند ہو جانے کے بعد کالاباغ، عیسیٰ خیل، لکی مروت اور بنوں کے اسٹیشن اُجاڑ ویرانوں کا منظر پیش کرتے ہیں جہاں زنگ لگی ہوئی پٹریوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں سے ایک طرف آپ میانوالی، نمل جھیل ور چشمہ بیراج جبکہ دوسری طرف عیسیٰ خیل اور لکی مروت بھی جا سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply