گئے دنوں کی یادیں (1)۔۔مرزا مدثر نواز

ضرار نے پنجاب کے ضلع گجرات کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولی، اس کا سن پیدائش 1983 ہے، بہن بھائیوں میں اس کا تیسرا نمبر ہے، وہ کُل دو بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ اس کا گھرانہ ایک غریب و محنت کش طبقہ سے تعلق رکھتا تھا، جسے معاشرے میں کمّی یا کاما کے لاحقہ سے یاد کیا جاتا ہے، اس علاقہ میں زمیندار فیملی کا اثر و رسوخ ہے جو خود کو دوسری برادریوں سے افضل گردانتے ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق محمد ﷺنے اس طرح فرمایا  کہ جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں جنہیں میری امت کے لوگ نہیں چھوڑیں گے جن میں سے ایک اپنے حسب میں فخر کرنا اور دوسرا (کسی کے) نسب میں طعن کرنا ہے۔ ضرار کا دادا اعلیٰ درجہ کا کاریگر تھا جو جوانی میں مکانات کی تعمیر کا کام کرتا تھا، جب بڑھاپے نے دستک دی تو لکڑی کی چارپائیاں بنانے کے کام سے وابستہ ہو گیا، وہ مجسمہ شرافت اور صوم و صلوٰۃ کا پابند تھا اور معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن دنیا کی نظر میں تھا تو بہر حال ذات کا کاماہی۔ ضرار کے والد نے جب میٹرک پاس کیا تو اس کے دادا نے بیٹے کو فرنیچر سیکھنے کے کام پر لگا دیا، بعد ازاں انہوں نے گاؤں میں ہی فرنیچر کی دکان کھول لی جس سے گزر بسر ہونے لگی، تا ہم یہ دکان خاندان کو غربت کے شکنجے سے نہ نکال سکی۔افسوس کہ ضرار کا دادا خوشحالی کے دن نہ دیکھ سکا۔

ایک زمانے میں جب بچہ پانچ سال کا ہوتا تھا تو اس کا نام سکول کے رجسٹر میں درج کرایا جاتا تھا،یہ ان دنوں کی بات ہے جب تعلیم کے شعبے نے ابھی کاروبار کی شکل اختیار نہیں کی تھی اور زیادہ تر بچے سرکاری سکولوں میں ہی تعلیم حاصل کرتے تھے گو کہ اکا دکا پرائیویٹ سکول بھی اپنا وجود رکھتے تھے۔چھوٹے بچوں کو سکول جانے کی عادت ڈالنے کے لیے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی انہیں سکول بھیجنا شروع کر دیا جاتا تھا جہاں ان کا کام کچھ دیر کے لیے بیٹھنا ہوتا تھا، ان کی کلاس کو ان دنوں ”کچّی“ کا نام دیا جاتا تھا۔ کچّی کے بعد ”پکّی“ یا پہلی کلاس میں بچے کو سکول میں داخل کرایا جاتا تھا۔ ضرار کے گاؤں میں گورنمنٹ کا ہائی سکول موجود تھا جس کا پرائمری حصہ گاؤں کے وسط میں ایک وقف شدہ انتہائی خوبصورت پلاٹ پر واقع تھا، جس کے گرد دیواریں زیادہ اونچی تھیں نہ پست، دیواروں کے پار گلی میں سے بھینسوں کا گوبر اٹھائے گزرنے والی خواتین اکثر رک کر اساتذہ کے ہاتھوں مار پیٹ کا نشانہ بننے والے بچوں کو حیرت زدہ چہرے کے ساتھ دیکھا کرتیں تھیں۔ سکول میں کیکر کے کچھ بڑے درخت تھے جن کے سائے میں کلاسز ہوتی تھیں، دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ جس طرف درخت کا سایہ منتقل ہوتا تھا، کلاس بھی آہستہ آہستہ اسی طرف سرکتی جاتی تھی۔ سکول میں کوئی واش روم تھا نہ پنکھا ،تا ہم زیرِ زمین پانی کا ایک ہاتھ سے چلنے والا نلکا ضرور موجود تھا جہاں سے طالبعلم پانی پیتے تھے اور اپنی تختیاں دھوتے تھے، زیادہ تر بچے وقفہ میں اپنی تختی قریب ہی واقع پانی کے ایک چھپڑ یا جوہڑ میں دھوتے تھے۔

نوّے کی دہائی کے آخری سالوں اور اس کے بعد پیدا ہونے والی نسل شاید تختی سے واقف نہ ہو، تختی یا لوح لکڑی کی بنی ہوئی مختلف سائز کی ایک شیٹ ہوتی ہے جس کے دونوں طرف ”پوچا“ مٹی لگائی جاتی تھی اور پھر شیشی (دوات) میں تیار کی گئی کالی روشنائی سے کانے سے بنی قلم کے ساتھ اس پر سکول کا کام لکھا جاتا تھا، تختی کو دن میں کئی بار دھویا جاتا تھا، پوچا مٹی لگائی جاتی تھی، دھوپ میں سکھایا جاتا تھا اور پھر لکھا جاتا تھا۔ ان دنوں بچوں کے ہاتھ اور یونیفارم روشنائی کے داغوں سے اکثر بھرے ہوتے تھے، اگر کسی کی روشنائی مدہم ہو گئی ہو یا اس کے پاس دوات دستیاب نہ ہو تو دوسرے ہم جماعت یا تو سخاوت کا مظاہرہ کر کے یا پھر ادھار کسی دوسرے کو اپنی دوات میں قلم ڈبونے کی اجازت دیتے تھے۔قلم کے لکھنے والے حصہ کو تیز چاقو یا چھری سے تیار کیا جاتا تھااور سب سے ماہرانہ کام اس کے ساتھ لکھنے والے حصے کو ایک خاص زاویہ سے ترچھا کاٹنا ہوتا تھا جو کہ خوشخطی میں معاون ہوتا تھا۔ اچھی قسم کی پوچا مٹی ڈھونڈنا بھی ایک کام تھا جس پر قلم بغیر کسی رکاوٹ کے رواں دواں رہے، اچھی و سستی پوچا مٹی اور روشنائی زیادہ تر گاؤں کے ٹبہ پر موجود مولوی کی مشہور دکان پر موجود ہوتی تھی، کچھ بچوں کو اسے کھانے کی عادت بھی پڑ جاتی تھی جس کا نتیجہ پیٹ کے کیڑے یا دوسری بیماریوں کی صورت میں نکلتا تھا۔بچے اکثر اپنی اپنی تختی پر کام لکھ کر اپنے استاد کے پاس جاتے تھے اور اس بات کی تصدیق کرواتے تھے کہ ان میں سے کس کی ہاتھ کی لکھائی زیادہ خوبصورت ہے، جس تختی پر استاد اوّل قرار دینے کے لیے ہاتھ رکھتا تھا، وہ بچہ خوشی سے اچھلتا کودتا، جیت کے نعرے لگاتا واپس اپنی کلاس میں اپنی جگہ پرآ کر بیٹھ جاتا تھا۔ اس بات پر بھی مقابلہ ہوتاتھا کہ کس کی روشنائی زیادہ تیز و چمکدار اور کس کی مدہم ہے۔تختی کے سائز سے طالبعلم کی کلاس کا اندازہ بھی ہو جاتا تھا، عام طور پر سب سے چھوٹے سائز کی تختی پہلی کلاس کے بچوں کے پاس ہوتی تھی، کچھ چھوٹے سائز کی تختیوں پر پکے رنگ سے اردو حروف تہجی اور گنتی کندہ ہوتی تھی جس کے اوپر لکھا جاتا تھا تا کہ بچہ آسانی سے لکھنا سیکھ سکے جبکہ سادہ تختیوں پر اساتذہ یا والدین کاربن پنسل سے حروف تہجی اور گنتی خود لکھ کر دیتے تھے تا کہ اس کے اوپر قلم دوات سے لکھ کر مشق کی جائے۔ تختی یا تو بیگ میں ہوتی تھی یا پھر بچے نے ہاتھ میں پکڑی ہوتی تھی جس کے ساتھ اکثر تلوار بازی کاکام بھی لیا جاتاتھا جس کے نتیجے میں اس سے ہاتھ دھونا بھی پڑھ جاتا تھا اور وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتی تھی۔ اساتذہ تختی سے طالبعلموں کو پیٹنے کا کا م بھی لیا کرتے تھے، اگر افقی سمت میں ہوتی تو تکلیف کم ہوتی جبکہ عمودی سمت کی صورت میں تکلیف کئی گنا بڑھ جاتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply